درخت، لڑکی اور 738 دن: ایک انوکھا احتجاج جو تاریخ بن گیا

امر گل

کہانی کبھی کبھار اپنے کرداروں سے آگے نکل کر استعارہ بن جاتی ہے، کسی نظریے، کسی خواب، کسی مزاحمت کی علامت۔ جولیا ہل کی کہانی بھی محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ انسان کی لالچ اور فطرت سے محبت کے متضاد رویوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کی روداد ہے، جس میں ایک لڑکی نے دو سال تک ایک قدیم درخت کی چوٹی پر رہ کر دنیا کو پیغام دیا کہ بعض اوقات خاموشی بھی سب سے مؤثر احتجاج ثابت ہوتی ہے۔

وہ منظر نیا نہ تھا، ایک کٹے ہوئے درخت کے گرد وہی بے بس پرندے، بے تاب پر پھڑپھڑاتے، بے سمت چکر کاٹتے، جیسے شاخوں کی محرومی کو اپنی چیخوں سے پورا کرنا چاہتے ہوں۔ آخرکار تھک ہار کر اڑ جاتے، کہیں اور، کسی اور پناہ گاہ کی تلاش میں۔۔ مگر وہ پرندہ نہ تھی، نہ ہی محض ایک بے زبان مخلوق، اسی لیے اس نے گھونسلہ بنانے کا ارادہ وہاں باندھا، جہاں زمین پر پڑی کلہاڑیاں اپنی فتح کا انتظار کر رہی تھیں۔

مشہور برطانوی ویب سائٹ بریٹینکا کے مطابق مسوری کے ماؤنٹ ورنن علاقے میں 18 فروری 1974 کو پیدا ہونے والی جولیا لیرون ہل نامی بچی اگرچہ عام سی ہی لگتی تھی مگر اس کے اندر کچھ خاص تھا ضرور، جس کا اندازہ خود اسے بھی نہیں تھا مگر پھر ایک حادثہ ہوا۔۔ اور اس کی تہوں سے فطرت سے محبت کی دلچسپ کہانی نمودار ہوئی۔

ہل کے والد ایک تبلیغی پادری تھے، اس لیے ان کے ابتدائی سال ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں گزرے۔ وہ اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ 32 فٹ لمبے کیمپنگ وہیکل میں رہتی تھیں۔ مختلف علاقوں میں کیمپنگ کے دوران، ہل کو ہمیشہ ان جگہوں کے پوشیدہ حسن کو دریافت کرنے کا شوق رہتا تھا۔ وہ لمبی چہل قدمی کرنے اور دریاؤں کی سیر کا خاص طور پر لطف اٹھاتی تھیں۔ ایک دن، ایک تتلی ان کی انگلی پر آ بیٹھی اور ان کی پوری سیر کے دوران وہیں رہی، جس کی وجہ سے انہیں ”بٹر فلائی“ کا لقب ملا۔ جولیا کے والدین نے ان کے مڈل اسکول کے دور میں آخرکار مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ آرکنساس میں جا بسے۔

جب جولیا 22 سال کی تھیں، تو وہ ایک خطرناک کار حادثے کا شکار ہوئیں۔ ایک نشے میں دھت ڈرائیور نے پیچھے سے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری، جس کے نتیجے میں گاڑی کا اسٹیئرنگ ویل ان کی کھوپڑی میں پیوست ہو گیا۔ انہیں مکمل صحت یاب ہونے اور دوبارہ معمول کے مطابق چلنے اور بولنے کے قابل ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اس دوران، انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی پوری زندگی توازن سے محروم رہی تھی۔ وہ صرف 16 سال کی عمر میں ہائی اسکول مکمل کر کے کام میں لگ گئی تھیں، اور ان کی توجہ صرف کیریئر، پیسے اور مادی چیزوں پر مرکوز تھی۔ اس حادثے نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور زندگی کے ایک نئے رخ پر ڈال دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ محض کام میں جُتے رہنا اور اس کے لیے شکر گزار نہ ہونا زندگی نہیں ہے، بلکہ انہیں روحانی وابستگی کی بھی ضرورت تھی۔

اس سوچ کے تحت، انہوں نے کیلیفورنیا کا ایک سفری دورہ کیا اور جنگلات کو بچانے کے لیے ایک فنڈ ریزر میں شرکت کی۔ وہاں، وہ اُن رضاکاروں کے گروہ میں دلچسپی لینے لگیں جو ہیمبولٹ کاؤنٹی میں قدیم سرخ درختوں کو کاٹنے سے روکنے کے لیے باری باری درختوں پر بیٹھ کر احتجاج کر رہے تھے۔ یہ درخت ایک ہوا زدہ پہاڑی پر واقع تھے، جہاں سے اسٹافورڈ نامی کمیونٹی کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ 1996 کی نئی سال کی رات، اسٹافورڈ میں ایک لینڈ سلائیڈنگ ہوئی، جو بے تحاشا لکڑی کی کٹائی کے باعث آئی تھی۔ نتیجتاً، سترہ فٹ کیچڑ اور درختوں کے ملبے نے تقریباً پوری بستی کو دفن کر دیا اور آٹھ گھر تباہ ہو گئے۔

سرخ جنگل کی صدا

امریکہ کے شمالی کیلیفورنیا کے جنگلات میں ہزاروں سال پرانے ریڈ وُڈ درخت (امریکی تاڑ) ایستادہ ہیں، جن کی شاندار قامت اور تاریخ خود ایک عہد کی داستان بیان کرتی ہے۔ ان درختوں کی چمکدار سرخی مائل لکڑی صدیوں سے انسانی طمع کا نشانہ بنتی آئی ہے۔ لکڑی کے سوداگر، زمینوں کے مالک اور صنعتکار ہمیشہ ان درختوں کو گرا دینے پر تلے رہے ہیں، لیکن قدرت کی آواز سننے والے بھی ہمیشہ موجود رہے۔

1996 میں جچ جولیا ’بٹر فلائی‘ ہل حادثے کا شکار ہوئیں تو وہ کئی مہینوں تک چلنے پھرنے سے قاصر رہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ فطرت کے قریب وقت گزارے۔ شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ مشورہ اس لڑکی کو تاریخ میں امر کردے گا۔

جب جولیا نے پہلی بار قدیم ریڈ وُڈ درختوں کے جنگل میں قدم رکھا، تو انہیں ایسا لگا جیسے کوئی انہیں پکار رہا ہو۔ یہاں ایک پرانے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ”یہ درخت زندہ ہے، اور میں اس کی آواز سن سکتی ہوں۔“

جولیا نے کہا، ”جب میں پہلی بار قدیم ریڈ ووڈ جنگل میں داخل ہوئی، تو میں گھٹنوں کے بل گر گئی اور رونے لگی۔ مجھے اپنی زندگی کے ایک بلند تر مقصد سے جُڑنے کا احساس ہوا۔ یہ خوبصورت جنگلات مکمل طور پر کاٹے جا رہے تھے، اور میں کچھ کرنا چاہتی تھی۔“

یہاں ایک قدیم درخت دکھائی دیا جو ہزار سے بارہ سو سال پرانا تھا۔ جولیا نے اسے ’لونا‘ کا نام دیا۔ ان کے مطابق ’ایسا لگا جیسے پاس بلا رہا ہو۔‘ انہیں وہاں کافی سکون ملا، کچھ وقت گزارا اور واپس ہو لیے۔

738 دن کی طویل اور بلند مزاحمت

1997 میں جب کیلیفورنیا میں درختوں کی کٹائی کا فیصلہ ہوا، ایک مشہور کمپنی کو اس کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ جب جولیا تک یہ خبر پہنچی تو جولیا نے اپنے اندر ایک عجیب سی بےچینی محسوس کی۔ وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔۔ لیکن وہ کرے بھی تو کیا؟ جلسے جلوس؟ مظاہرے؟ وہ جانتی تھی کہ یہ سب وقتی اقدامات ہیں۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگر وہ درخت کو کاٹ کر نیچے گرانے کے لیے تیار ہیں، تو وہ اوپر چڑھنے کے لیے تیار ہے۔ جولیا نے پکا ارادہ باندھا کہ وہ صرف اس درخت کو ہی نہیں بلکہ اردگرد موجود دوسرے درختوں کو بھی نہیں کٹنے دیں گی۔

اس دوران ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں متحرک ہوئیں جنہوں نے جولیا کا کام کسی حد تک آسان بنا دیا جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا۔ وہ ان کارکنوں کے ساتھ جڑ گئیں۔

10 دسمبر 1997 کی صبح وہ کچھ ماحولیاتی کارکنوں کے ہمراہ جنگل پہنچی۔ ایک رسے کے سہارے وہ 200 فٹ بلند درخت پر چڑھ گئیں، جسے انہوں نے ’لونا‘ کا نام دیا تھا۔ ان کے ساتھ کچھ ضروری سامان تھا: کپڑے، کتابیں، ایک سلیپنگ بیگ، اور ایک چھوٹا سا چولہا۔

جب اگلے دن مزدور آئے اور دیکھا کہ ایک لڑکی درخت کی سب سے اونچی شاخ پر بیٹھی ہے، تو وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے انہیں نیچے آنے کے لیے کہا، لیکن ان کا جواب واضح تھا: ”میں نیچے نہیں آؤں گی۔“

ایک کپ چائے اور مزاحمت کی ابتدا

درخت کے اوپر ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم بنایا گیا تھا، صرف چار فٹ چوڑا اور چھ فٹ لمبا۔ اس پر ایک چھوٹی سی کینوپی لگائی گئی تھی، ان کے پاس کپڑے اور کتابوں کے علاوہ ایک پروپین گیس والا چولہا اور سلیپنگ بیگ تھا۔

جب جولیا کے ساتھ آئے دیگر کارکن لوٹ گئے تو انہوں نے چولہا جلایا، ایک کپ چائے بنائی، اور نیچے نظر دوڑائی۔ وہ زمین سے بہت دور تھی، لیکن قدرت کے بے حد قریب۔

اگرچہ اس ’چائے کے کپ میں طوفان‘ نہیں تھا، لیکن یہاں سے ایک داستان بننے والی طوفان جیسی مزاحمت کی ابتدا ہو چکی تھی۔

دسمبر کی سرد رات کے اندھیرے میں ٹھنڈ چبھ رہی تھی، اور ہوا ہر لمحہ درخت کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ پہلی رات کاٹنا مشکل تھا۔ بار بار نیند اور جاگنے کے درمیان ایک عجیب کشمکش رہی، جیسے زمین انہیں واپس بلا رہی ہو، لیکن آسمان نے انہیں تھام رکھا ہو۔

صبح کٹائی کے لیے آنے والے کارکنوں نے درخت پر کینوپی دیکھی تو آواز دی کہ درخت کاٹنے لگے ہیں نیچے آ جائیں ، انہوں نے جواباً کہا ’کاٹ دو میں نیچے نہیں آوں گی‘ اور ساتھ ہی سولر پاورڈ موبائل سے اس نیوز چینل کا نمبر ملایا جو پہلے سے ہی منصوبے میں شامل تھا، خبر نشر ہوتے ہی بھونچال آ گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لوگ باہر نکلے اور بحث شروع ہو گئی کہ قدیم درختوں کو کیوں کاٹا جا رہا ہے۔

کئی چینلز نے ان سے بات کی اور ان کا پیغام جگہ جگہ نشر ہونے لگا۔ دوسری جانب کمپنی نے وقتی طور پر اس خیال سے کام روک دیا کہ ایک آدھ روز میں تھک کر نیچے آ جائیں گی۔

دن گزرتے گئے، ہفتے مہینوں میں بدلے، اور مہینے سال میں۔ جولیا کی مزاحمت ایک خبر بن چکی تھی۔ ہر روز صحافی، رپورٹرز، اور تجزیہ کار اس غیرمعمولی احتجاج پر تبصرہ کرنے لگے۔۔

اب یہ معاملہ سیاسی ایوانوں تک بھی پہنچ چکا تھا، جولیا کو پیسے کی آفرز ہوئیں مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ درخت نہیں کٹیں گے۔ اس دوران تنظیموں کے کارکن آتے اور ضرورت کی چیزیں پہنچاتے رہے۔

لیکن یہ آسان نہیں تھا۔ کمپنی نے جولیا مو نیچے لانے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ کبھی انہیں ڈرایا گیا، کبھی نیچے سے تیز روشنیوں کی بوچھاڑ کی گئی، کبھی پانی پھینکا گیا۔ انہیں ڈرانے کے لیے قریب ہیلی کاپٹر اڑائے گئے۔ حتیٰ کہ کچھ مزدور درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کرنے لگے۔

سب سے بڑا امتحان تب آیا، جب ان کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی جو ایک ہفتے تک جاری رہی۔

کھانے پینے کی چیزیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھوک سے نڈھال ہونے لگی، لیکن انہوں نے پہلے ہی کچھ سامان بچا کر رکھا تھا، اور وہ اپنی مرضی سے شکست کھانے والوں میں سے نہیں تھیں۔

پھر سیاسی ایوانوں میں بیٹھے کمپنی کے حامیوں نے سوچا کہ درخت پر بیٹھے بیٹھے بالآخر وہ خود ہی تھک ہار کر نیچے آ جائیں گی، لیکن جولیا تھکنے والوں میں سے نہیں تھیں۔

دوسرا سال، اور ایک یادگار سالگرہ

وقت گزرتا گیا۔ جولیا نے اپنی سالگرہ درخت پر ہی منائی۔ اس دن ہزاروں لوگوں نے ان کی حمایت میں نعرے لگائے۔ وہ اب محض ایک عاث لڑکی نہیں رہی تھیں، بلکہ ایک تحریک بن چکی تھیں۔ بارشیں، طوفان، برفباری۔۔۔ لیکن جولیا نہیں ہلی۔

اس دوران موسم بھی بدلتے رہے، طوفان بھی آئے اور برفباری بھی ہوئی مگر ان کا ارادہ نہ بدلا۔ وہ کہتی ہیں کہ سخت سردی میں خود کو کینوپی کے اندر سلیپنگ بیگ میں اچھی طرح پیک کر لیتی اور اس سے پہلے چولہا بھی جلائے رکھتی۔ ایک برس پورا ہونے کے بعد اگلا شروع ہوا اور وہ بھی انہی حالات میں بیت گیا۔

درخت پر رہتے ہوئے جولیا نے کئی بقا کے طریقے سیکھے، جیسے کہ وہ شاذ و نادر ہی اپنے پاؤں کے تلوے دھوتی تھیں، کیونکہ درخت کا گوند ان کے پاؤں کو شاخوں سے چمٹے رہنے میں مدد دیتا تھا۔ وہ شمسی توانائی سے چلنے والے سیل فون کے ذریعے ریڈیو انٹرویوز دیتی رہیں، ایک کیبل ٹی وی شو کے لیے ’درخت میں بیٹھی رپورٹر‘ بنیں، اور پرانے جنگلات کی کٹائی کے خلاف احتجاج کے لیے ٹی وی عملے کی میزبانی کی۔

اپنی اس آزمائش کے دوران، وہ جما دینے والی بارش، ال نینو کے 40 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والے طوفانی جھکڑ، ہیلی کاپٹروں کی ہراسگی، اور کمپنی کے سیکیورٹی گارڈز کی دس روزہ ناکہ بندی کا سامنا کر چکی تھیں، جس کے دوران ان کی ٹیم انہیں خوراک پہنچانے سے قاصر رہی۔

انہیں غصے میں بھرے لکڑہاروں نے بھی ڈرایا، جو ان کے آس پاس کے درختوں کو کاٹ رہے تھے، اور ان کا ریڈ ووڈ درخت ان گرتے درختوں کے بیچ کھڑا رہ گیا۔ آج، قدیم ریڈ ووڈ درختوں کا صرف 3 فیصد باقی رہ گیا ہے، باقی تمام ٹمبر مافیا کے ہاتھوں کاٹ دیے گئے ہیں۔

1997-98 کی سردیوں کا موسم شمالی کیلیفورنیا میں غیرمعمولی طور پر شدید تھا، جس کی وجہ طاقتور ال نینو طوفان تھے۔ ہل نے دی نیویارک ٹائمز میں لکھا، ”ایک رات مجھے لگا کہ میں مرنے والی ہوں۔ ہوا کی رفتار 90 میل فی گھنٹہ تھی۔ تصور کریں کہ آپ ایک بپھرے ہوئے گھوڑے پر سوار ہیں۔ اب اس گھوڑے کو سمندر میں ایک جہاز پر رکھ دیں، ایک طوفان کے بیچ؛ پھر اس جہاز کو 180 فٹ ہوا میں معلق کر دیں۔ میں جذباتی، ذہنی اور روحانی طور پر ٹوٹ چکی تھی، برف سے جھلس چکی تھی، اور ان چند لوگوں سے بھی کٹ چکی تھی جو میری زندگی یا موت کی پرواہ کرتے تھے۔ میں نے ‘لُونا’ (درخت کا دیا گیا نام) کو مضبوطی سے تھام لیا اور دعا مانگنا شروع کر دی۔“

جولیا کا کہنا تھا کہ انہوں نے لُونا کے ساتھ ایک ہو کر جینے کا ہنر سیکھ لیا تھا، وہ درخت کی حرکت کے ساتھ جھولتی تھیں، جیسے اس کی شاخیں تیز ہواؤں میں جھک رہی ہوں۔

بالآخر، جولیا کی مستقل مزاجی سے جاری مزاحمت کے آگے کمپنی تھک گئی اور گھٹنے ٹیک دیے۔ مذاکرات ہوئے، معاہدے طے پائے، اور فیصلہ ہوا کہ بارہ سو سال قدیم درخت ’لونا‘ اور اس کے آس پاس کے تین ایکڑ علاقے کو محفوظ رکھا جائے گا۔

18 دسمبر 1999 کو، جب وہ 738 دن بعد نیچے اتریں، تو ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ وہ ایک عام لڑکی نہیں، بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے والی ہیرو بن چکی تھیں۔

درخت پر قیام کے بعد، جولیا ایک موٹیویشنل اسپیکر بن گئیں، جو سالانہ تقریباً 250 تقاریب میں شرکت کرتی ہیں۔ وہ ایک بیسٹ سیلر مصنفہ بھی ہیں اور سرکل آف لائف فاؤنڈیشن کی شریک بانی ہیں، جس نے ماحول دوست ’وی دی پلانیٹ‘ نامی میوزک ٹور کا انعقاد کیا۔ اس کے علاوہ، وہ اینگیج نیٹ ورک کی بانیوں میں شامل ہیں، جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو شہری رہنماؤں کے چھوٹے گروپوں کو سماجی تبدیلی کے لیے کام کرنے کی تربیت دیتا ہے۔

16 جولائی 2002 کو، جولیا کو کیٹو، ایکواڈور میں آکسیڈینٹل پیٹرولیم کے دفتر کے باہر گرفتار کر لیا گیا۔ وہ ایک مجوزہ آئل پائپ لائن کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں، جو اینڈیز کے ورجن کلاوڈ فاریسٹ میں سے گزرتی، جہاں نایاب پرندوں کی بڑی تعداد بستی تھی۔ جولیا نے کہا، ”کلاوڈ فاریسٹ حیرت انگیز ہے۔ ہر طرف گہرا، گھنا سبزہ ہے، جس میں پھولوں، پرندوں اور کیڑوں کی سرخ، پیلی اور جامنی چمکدار جھلکیاں ہیں۔ جہاں پہلے سے پائپ لائنیں بچھائی جا چکی تھیں، وہاں تباہی کا منظر خوفناک تھا۔“ بعد میں، جولیا کو ایکواڈور سے ملک بدر کر دیا گیا۔

2003 میں، جولیا نے ٹیکس ری ڈائریکشن (یعنی ٹیکس کی رقم کو حکومت کے بجائے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں دینے) کی حمایت کی۔ انہوں نے 150,000 ڈالر کے وفاقی ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور یہ رقم اسکول کے بعد کے تعلیمی پروگرامز، آرٹ اور ثقافت کے منصوبوں، کمیونٹی گارڈنز، مقامی امریکیوں کے لیے پروگرامز، قیدیوں کے متبادل اصلاحی منصوبوں، اور ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں میں عطیہ کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں وہی رقم لے کر، جو IRS کا کہنا ہے کہ انہیں جانی چاہیے، ان جگہوں پر دیتی ہوں جہاں میرے خیال میں میرے ٹیکس جانے چاہئیں۔“

2006 میں، جولیا نے ساوتھ سینٹرل فارم کی فروخت کے خلاف احتجاج کیا اور 14 ایکڑ پر پھیلے اس زرعی رقبے کو ڈیولپرز سے بچانے کی کوشش کی۔

جولیا بٹر فلائی ہل کا لُونا کے ساتھ گزارا گیا وقت دنیا میں کسی بھی درخت پر گزارے گئے طویل ترین وقت کا ریکارڈ توڑ چکا تھا۔ پہلے کا 90 دنوں کا ریکارڈ، ہل کے 738 دنوں کے قیام کے مقابلے میں آٹھ گنا کم تھا۔ اس تجربے نے انہیں اتنا گہرا متاثر کیا کہ وہ اب اپنی زندگی کو ”درخت سے پہلے“ اور ”درخت کے بعد“ کے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔

”میں جب درخت پر چڑھی تھی اور جب نیچے اتری، ان دونوں حالتوں کے درمیان اتنا بڑا فرق تھا کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں دنیا میں دوبارہ کیسے ایڈجسٹ کر پاؤں گی،“ جولیا نے 2012 میں ’دی سن‘ کو بتایا۔ ”جب میں زمین پر اتری، تو جذبات کا ایک طوفان تھا۔ ایک طرف بےحد خوشی تھی کہ ہم نے درخت اور اس کے اردگرد کے جنگل کو بچا لیا تھا، حالانکہ بہت سے لوگ کہتے تھے کہ یہ ناممکن ہے۔ لیکن دوسری طرف اداسی بھی تھی۔ میں اس درخت کا ایسا حصہ بن چکی تھی، اور وہ میرا ایسا حصہ بن چکا تھا، کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں دوبارہ عام لوگوں کے ساتھ فٹ ہو سکوں گی۔“

ہل نے ’واٹس یور ٹری‘ نامی منصوبہ شروع کیا تاکہ لوگوں کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ اگر وہ کسی درخت پر دو سال نہیں گزار سکتے، تب بھی وہ کسی ایسے مقصد کے لیے کام کر سکتے ہیں جو انہیں زندگی میں آگے بڑھائے۔

”واٹس یور ٹری لوگوں کو ان کے مقصد اور جذبے کو واضح کرنے میں مدد دیتا ہے، اور پھر اس پر عمل کرنے کے لیے متحرک کرتا ہے،“ جولیا نے ’دی سن‘ کو بتایا۔ ”ہم سب کے پاس اپنا ایک درخت ہوتا ہے، ایک ایسا مشن جو ہمیں اپنی توقعات سے بھی بڑھ کر بننے کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں اپنے خوابوں سے بھی زیادہ حیرت انگیز زندگی تخلیق کرنے کے لیے بلاتا ہے۔“

آج، جولیا ہل 51 سال کی ہو چکی ہیں اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک اہم آواز کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ان کی کہانی اب بھی گونج رہی ہے۔

لونا، جولیا کا بارہ سو سال قدیم درخت وہیں کھڑا ہے، جہاں تھا، وہی درخت، وہی سرخ جنگل، وہی فطرت کی خاموشی۔۔ ایک ایسی خاموشی، جس میں جولیا کی مزاحمت کی کہانی گونجتی ہے۔

آج بھی، جولیا کی میراث زندہ ہے۔ ان پر کئی دستاویزی فلمیں، انٹرویوز، اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں، جن میں ان کی 2000 کی خود نوشت ’دی لیگیسی آف لُونا‘ بھی شامل ہے۔ وہ کئی موسیقاروں اور فنکاروں کو بھی متاثر کر چکی ہیں۔

جولیا نے ایک انٹرویو میں کہا ”اگر آپ اکیلے بھی رہ گئے ہیں مگر آپ کی امید زندہ ہے تو سمجھیں سب ٹھیک ہے کیونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔“

جولیا اب بھی کئی مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، لیکن اب زیادہ تر پسِ پردہ رہ کر، کیونکہ وہ پچھلے حادثے میں پیچھے سے ٹکرائے جانے کی چوٹوں سے متاثر ہو چکی ہیں۔ اور یہ صرف ایک بار نہیں، بلکہ اس کے بعد دو مزید کار حادثوں میں بھی ایسا ہوا۔ ان میں سے کسی بھی حادثے میں ان کی کوئی غلطی نہ تھی۔

اس کے علاوہ، انہیں شدید دمہ لاحق ہے، جو اس وقت اور زیادہ بگڑ گیا جب وہ لُونا پر موجود تھیں اور کلئیر کٹنگ کے نتیجے میں جلنے والے دھوئیں کو مسلسل سانس کے ذریعے اندر لے رہی تھیں۔ انہیں دو بار کولہے کی ہڈی تبدیل کرانی پڑی اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ لیٹ اسٹیج لائم بیماری (Lyme Disease) میں مبتلا ہیں، جس نے ان کی صحت کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس بیماری کے باعث انہیں دل کا دورہ پڑا اور ان کے دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ وہ کافی عرصے تک دماغی دھندلاپن (Brain Fog) اور ذہنی انتشار کا شکار رہیں۔

اس کے باوجود، وہ آج بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے لڑ رہی ہیں۔

”چڑھائی جتنی مشکل ہوتی ہے، وہاں سے نظارہ اتنا ہی خوبصورت ہوتا ہے۔“ یہ جولیا کے الفاظ ہیں، اور شاید ان کا سب سے بڑا سبق بھی۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں بریٹینکا اور گنتھر پبلیکیشن پر شائع آرٹیکلز سے مدد لی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close