سیاسی جماعتوں میں اختلافی آوازیں: اصولی یا اشارہ؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں کچھ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے سیمینار کے سلسلوں نے نہ صرف ایک نئی پارٹی کی تشکیل کی افواہوں کو ہوا دی ہے بلکہ اس کی وجہ سے سیاسی عدم رواداری پر بھی بحث کی جارہی ہے

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کو سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں میں کھل کر بولنے اور اختلاف رائے رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لیے انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے دوسرے راستے تلاش کرنا پڑتے ہیں، جس میں ان میں اور جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ناراضگی اور دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں

واضح رہے کہ مسلم لیگ نون کے رہنما و سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، پی پی پی کے رہنما مطصفٰی نواز کھوکر اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق رہنما حاجی لشکر رئیسانی کی طرف سے ملک کے طول وعرض میں ملکی مسائل پر سیمینار کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس حوالے سے پہلا سیمینار کوئٹہ میں منعقد کیا گیا

اختلافی آوازوں کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مفتاح اسماعیل کے حوالے سے حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز نے بہت سخت زبان استعمال کی تھی

کراچی سے تعلق رکھنے والے اس لیگی رہنما کو مریم نواز اور اسحاق ڈار نے بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا جب کہ شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بھی یہ چہ مگوئیاں ہیں کہ وہ اپنی پارٹی سے کئی امور پر شدید اختلافات رکھتے ہیں

دوسری جانب بلاول بھٹو کے سابق ترجمان مصطفٰی نواز کھوکر اپنی سینیٹ کی نشست سے استعفٰی دے چکے ہیں اور اکثر وبیشتر پی ڈی ایم کی حکومت پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں

کچھ برس سے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اپنی پارٹی سے ناراض ہیں اور انہوں نے گزشتہ انتخابات بھی آزاد حیثیت میں لڑے تھے اور اب بھی انہوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے

جمعیت علمائے اسلام کے بھی کئی سرکردہ رہنما مولانا فضل الرحمٰن سے ناراض ہیں، جن میں سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی، سابق رکن قومی اسمبلی مولانا گل نصیب اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد سمیت کئی رہنما شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین، فیصل وواڈا، علیم خان اور محمد سرور سمیت مرکزی رہنما پارٹی سے ناراض ہوئے بیھٹے ہیں

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں عدم جمہوریت کی بنیاد پر جماعتوں کے مرکزی رہنما اکثر و بیشتر اپنی قیادتوں سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ کچھ کی یہ ناراضگی اصولی ہوتی ہے جب کچھ کی پسند نا پسند یا ذاتی مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہے

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر مختار باچا کا کہنا ہے کہ ماضی میں سیاسی افق پر نظریاتی پارٹیاں جلوہ گر تھیں، اس لیے ناراضگی اور اختلافات اصولوں اور نظریات پر ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا ”معراج محمد خان، حنیف رامے اور مختار رانا نے بھٹو سے نظریات کی بنیاد پر اختلاف کیا جبکہ ممتاز بھٹو اور غلام مصطفیٰ کھر کے اختلافات پسند نا پسند یا ذاتی نوعیت کے تھے۔‘‘

مختار باچا کے مطابق ”چوہدری اعتزاز احسن کے بھی پی پی پی سے اختلافات رہے, لیکن اعتزاز کوئی نظریاتی آدمی نہیں ہیں اور ان کے اختلافات کی بنیاد بھی ذاتی ہے۔ ان دنوں سیاسی جماعتوں میں زیادہ تر اختلافات سیاسی مفادات کے لیے ہی ہوتے ہیں۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد خان کہتے ہیں ”سیاسی جماعتوں میں عدم رواداری کا فقدان شروع سے ہی ہے۔ نواب افتخاز حسین ممدوٹ کو لیاقت علی خان پسند نہیں کرتے تھے اور وہ دولتانہ کو لے کر آنا چاہتے تھے جبکہ میاں افتخار الدین نے مسلم لیگ سے اختلاف اصولی اور نظریاتی بنیادوں پر کیا۔ میاں افتخار نے مسلم لیگ پر الزام لگایا تھا کہ وہ زرعی اصلاحات کے وعدے سے پھر رہی ہے اور امریکی کیمپ میں جارہی ہے‘‘

ڈاکٹر توصیف کے مطابق ”موجودہ دور میں مصطفٰی نواز کھوکر کا اختلاف اور ناراضگی بالکل اصولی ہے۔ میرے خیال میں انہوں نے اصولی سیاست کی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر مختلف مسائل پر ایک سیاسی پوزیشن لی، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی ان سے ناراض ہوئی اور اختلافات بڑھے‘‘

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی میں عموماً اختلاف ہوتے ہیں لیکن کچھ اختلافات پارٹی رہنما غیر مرئی قوتوں کے اشاروں پر بھی کرتے ہیں

ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق ”چوہدری اعتزاز اور چوہدری نثارعلی خان کے اپنے پارٹیوں سے اختلافات اشاروں کا نتیجہ تھے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے زرداری سے اختلافات بھی کسی کے اشارے کا نتجہ تھے۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور آفاق احمد کے درمیان اختلافات بھی غیر مرئی قوتوں کے اشاروں کی وجہ سے ہوئے تھے‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close