قدیم جرمن اور جدید فرانسیسی کو ’جوڑنے والی‘ پنجابی

مقبول ملک

کسی بھی زبان کا کوئی ایک لفظ لیجیے، اس کی تاریخ اور لسانیاتی آغاز پر نظر ڈالیے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کُل کے مختلف اجزاء پر مشتمل ہے۔ مختلف برِاعظوں کے قدیم اور جدید معاشروں میں صدیوں کے لسانی ارتقاء سے گزرنے والی زبانوں میں کبھی کبھی ایسی حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ زبانیں انسانوں کی نقل مکانی کے ساتھ کس طرح، کس کس قسم کا ارتقائی سفر کرتی ہیں اور ان کے لسانی اور فکری نتائج کیسے ہوتے ہیں، یہ بات ماہرینِ لسانیات کے لیے بالخصوص اور اگر عام لوگ کچھ تفکر کریں تو ہر کسی کے لیے بالعموم اپنے اندر ایسی ایسی وضاحتوں، معانی اور سیاق و سباق کے رشتے لیے ہوتی ہے کہ یہی بات کسی بھی ڈیوڈ کاپرفیلڈ کی جادوگری سے کہیں زیادہ مسحور کن لگنے لگتی ہے۔

جغرافیائی طور پر مغربی یورپ میں جرمنی کے مغرب میں واقع ایک ملک بیلجیم بھی ہے، جہاں فرانسیسی کے علاوہ فلیمش زبان بھی بولی جاتی ہے اور اس کے بعد رودبار انگلستان کے پار برطانیہ ہے، جہاں بولی جانے والی زبان انگریزی شروع میں صرف انگلستان یا انگلینڈ کی زبان تھی اور اسی لیے انگلش کہلائی۔

آج کی انگریزی زبان کے اس کی موجودہ شکل میں وجود کی تقریباً پچاس فیصد وجہ قدیم جرمن زبان ہے، جس نے اپنے جسم سے جنم دے کر اس بچے کو پروان چڑھایا، جس کا نام آج ’انگریزی‘ ہے۔ ماہرینِ لسانیات متفق ہیں کہ موجودہ انگریزی یا انگلش ماضی میں ایک اینگلو سیکسن زبان ہوتی تھی۔ اینگلو انگلینڈ سے اور سیکسن موجودہ جرمنی کے وفاقی صوبے سیکسنی کی زبان کی وجہ سے، جو انگریزی میں سیکسن اور جرمن میں ’زَیکسِش‘ کہلاتی ہے۔ پھر قدیم انگریز اور سیکسن معاشروں کی سماجی قربت، خاندانی رشتے داریوں اور ان کے لسانی امتزاج سے پہلے اینگلوسیکسن زبان وجود میں آئی، جو اول تو اینگلو سیکسَیز بنی اور آخر میں مزید بدلتی ہوئی پہلے اَینگلَیس اور پھر انگلش کے ناموں سے بھی جانی جانے لگی۔

انسانوں کی بنائی ہوئی زبانیں نسل در نسل انسانوں ہی کے کندھوں پر سوار کس طرح طویل جغرافیائی فاصلے طے کرتی ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے ایک عام سی مثال ہی کافی ہوگی۔ جرمن زبان میں گھر کا متبادل لفظ ہاؤس (Haus) ہے، جو مغرب کی طرف جاتا ہوا بیلجیم کی فلیمش زبان میں پہلے ہُوئیس (huis) بنا تو انگلش چینل کے پار جا کر اَینگلَیس یا بعد میں انگلش میں ہاؤس (house) بن گیا۔

تیرہویں صدی عیسوی کی ایک معروف جرمن صوفی شاعرہ کا نام مَیشتِھلڈ فان ماگڈے برگ تھا، جو وسطی یورپ کی آج تک کی معروف ترین روحانیت پسند جرمن شاعرہ ہیں۔ ان کی قدیم جرمن زبان میں شاعری کی ایک کتاب کا نام ’خدائیت کی بہتی ہوئی روشنی‘ ہے۔ فان ماگڈے برگ نے اپنی شاعری میں کئی بار ’پائن‘ (Pein) کی اصطلاح کئی ملتے جلتے صوفیانہ معانی کے ساتھ استعمال کی ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ کی مقابلتاً ارفع جرمن زبان میں Pein یا پائن کا مطلب شدید جسمانی یا روحانی تکلیف تھی، یعنی بہت زیادہ درد۔ وہی درد جو آج بھی جدید انگریزی زبان میں ’پین‘ (pain) کہلاتا ہے۔ ویسے انگریزی زبان میں عالم نباتات سے ایک لفظ پائن (Pine) بھی ہے، جس کی اپنی ہی ایک علیحدہ کہانی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی کی pain بالکل انہی ہجوں کے ساتھ فرانسیسی زبان میں ’پَئیں‘ کہلاتی تو ہے لیکن فرانسیسی میں اس لفظ کا مطلب بریڈ یا روٹی ہے۔ عجیب بات لیکن یہ ہے کہ قدیم جرمن زبان میں درد کا جدید فرانسیسی میں روٹی سے کیا تعلق ہے؟ (جدید جرمن زبان میں درد یا تکلیف کے لیے لفظ ’شمَیرسَن‘ (Schmerzen) استعمال ہوتا ہے) درد اور روٹی کا آپس میں تعلق؟ وہی جو جسم کا احساس اور پیٹ کا بھوک سے ہوتا ہے۔ روٹی پیٹ کی بھوک کا علاج ہے تو جسمانی یا فکری درد کا احساس دل اور روح کو ان محسوسات اور غیر مادی سچائیوں سے متعارف کراتا ہے، جو زندگی اور اس کے تجربات کی ذہنی تفہیم کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

انسان نے جب بولنا شروع کیا تھا تو زبان کا ارتقاء بھی مختلف معاشروں میں ابلاغ کے لیے ایک ہی طرح کی انسانی ضروریات کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا۔ زندگی، موت، صحت، بیماری، ہجر، وصل اور احساسات سبھی معاشروں میں ہمیشہ سے ہی زندگی، موت، صحت، بیماری، ہجر، وصل اور احساسات ہی تھے اور رہیں گے کیونکہ یہ سب انسانی تجربات اور محسوسات ہیں اور انسان ہر جگہ ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ ان سب حالتوں کا انسانی جذباتی ادراک ایک سا تھا مگر لسانیاتی سطح پر لفظ مختلف ہو چکے تھے۔

یوں قدیم جرمن زبان میں ’پائین‘ یا درد کو اور جدید فرانسیسی میں ’پَئیں‘ یا روٹی کو جس پنجابی اظہار نے آپس میں ’جوڑا‘، وہ شاہ حسین کی ’دُکھاں دی روٹی‘ تھی۔ دُکھوں کی اسی روٹی کے بعد شاہ حسین نے ’سُولاں دا سالن‘ اور ’آہیں دا بالن‘ کی بات بھی کی ہے۔ دُکھوں کی روٹی کے ساتھ کھانے کے لیے کانٹوں کا سالن جو آہوں کے ایندھن پر پکایا گیا ہو! لیکن کانٹوں کے بارے میں اسی سے ملتی جلتی بات تو انگریزی زبان کے شاعر پی بی شَیلی نے بھی کی ہے، جو خارگاہِ حیات میں گر گیا تھا:

’’میں زندگی کے کانٹوں پر گر گیا
میرا خون بہنے لگا۔‘‘

تو پھر کیا شیکسپیئر اور مِلٹن کبھی پاکستان آئے تھے، کبھی نہیں! کیا گوئٹے اور ہَیرمین ہَیسے کبھی پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب گئے تھے؟ کبھی نہیں! کیا رُوسو اور والٹیئر نے کبھی سندھو کی وادی کی سیر کی تھی؟ ظاہر ہے کبھی نہیں! لیکن یہ سب سوچنے والے، محسوس کرنے والے، شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، فلسفی اور مصنفین تھے، جن کے انسانوں کے طور پر محسوسات اور تجربات وقت اور جگہ کی حدود سے بالاتر تھے۔ وہ سب پاکستان، پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب اور سندھو کی وادی کی سیاحت کر چکے تھے، ویسے ہی جیسے شاہ حسین، سلطان باہو اور بلھے شاہ نے بھی اپنے براعظم سے باہر کبھی بھی قدم نہ رکھنے کے باوجود لندن، برلن اور پیرس نامی شہر جیسے سبھی دیکھ رکھے تھے۔

ایک وقت اور ایک جگہ پر بہت سے حساس دماغوں کی موجودگی ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ ہزاروں میل کے جغرافیائی فاصلوں کے باوجود، ایک دوسرے کے وجود سے بھی لاعلم رہتے ہوئے، قلبی محسوسات، روحانی تجربات اور فکر کے دھاروں کا ایک سا یا قریب قریب ایک سا ہونا بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اسی طرح دیکھا جائے تو دنیا میں کوئی بھی جذباتی یا روحانی تجربہ بالکل نیا یا ایک سا نہیں ہے مگر ساتھ ہی سب کچھ ایک ہی طویل سلسلے کی مختلف کڑیوں پر مشتمل بھی ہے، جو ایک ہی بڑے کُل کا حصہ بھی ہے، جیسے دنیا کے تمام انسان، حیوانات اور نباتات آپس میں مختلف اور متنوع ہوتے ہوئے بھی ایک ہی شناخت کا حصہ ہیں، جو جاندار مادہ یا living matter کہلاتی ہے۔

جب سب کچھ زندگی ہی سے جڑا ہوا ہے اور گندمی رنگت، گہری سیاہ جلد، سنہری بالوں، نیلی آنکھوں، سفید رنگ، موٹے ہونٹوں، چوڑے نتھنوں اور باریک سلائیوں جیسی آنکھوں والے انسانوں میں دراصل کوئی فرق نہیں ہے، تو یہ پنجابی ہی ہے جس نے آج بھی انسانی محسوسات کو ان کے عالمگیر اظہار کے حوالے سے قدیم جرمن اور جدید فرانسیسی کو بھی اپنے ساتھ جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔

جو کچھ بھی تقسیم کر دینے والا اور ادنیٰ ہے، وہ ہر اس شے اور فکر سے کم تر ہے، جو جوڑ دینے والی، اعلیٰ اور برتر ہے۔ جب انقلاب فرانس نے زنجیروں میں جکڑے ہوئے فرانسیسیوں کو آزاد کرایا تھا، تو وہ صرف فرانسیسی نہیں تھے، اس انقلاب نے زنجیروں میں جکڑی ہوئی ساری انسانیت کو رہائی دلائی تھی۔

اپنے وطن کو مقدس جاننے والا کوئی بھی انسان یا فوج کسی دوسرے کے وطن پر حملہ کیسے کر سکتے ہیں، اپنی ماں یا بہن کی مرتے دم تک حفاظت کرنے والے انسان کسی دوسرے کی ماں، بہن یا بیٹی کو ریپ کیسے کر سکتے ہیں، تخلیقِ آدم سے لے کر یا پہلے حیاتیاتی سالمے سے ارتقاء کے بعد آج تک وجود میں آنے والا انسان یہی نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہی خلاف اپنی یہ جنگ آج تک جیت کیوں نہیں سکا؟

یہ سوال شیکسپیئر کا بھی ہے اور مِلٹن کا بھی، گوئٹے کا بھی اور ہَیرمن ہَیسے کا بھی، والٹیئر کا بھی اور رُوسو کا بھی، اور شاہ حسین اور بلھے شاہ بھی تو یہی پوچھ رہے ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close