مقبول ڈرامے ’عشق مرشد‘ میں مزاحیہ کردار ادا کرنے والے اداکار علی گل ملاح نے انکشاف کیا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد انہوں نے محض سولہ سال کی عمر میں خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔
اداکار نے بتایا کہ جب وہ نو عمر تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، جس وجہ سے وہ مکمل طور پر یتیم ہوگئے، کیوں کہ بچے والد کے بجائے والدہ کی موت کے بعد مکمل طور پر یتیم بن جاتے ہیں۔
حال ہی میں نادر علی کے پوڈکاسٹ میں علی گل ملاح نے والدہ کے انتقال کی بعد کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کئی کئی دن تک بھوکے رہتے تھے، ان سے کوئی کھانے تک کا نہ پوچھتا تھا اور انہیں لگتا تھا کہ وہ کسی کو عزیز نہیں۔
علی گل ملاح کے مطابق انہوں نے والدہ کے انتقال سے قبل ہی اسٹیج ڈراموں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن والدہ کے انتقال کے بعد انہیں لگا کہ ان کی زندگی اب اہم نہیں رہی، وہ پورا پورا دن بھوکے رہتے ٹھے، کوئی ان کا خیال ہی نہیں رکھتا تھا، اس لیے انہوں نے خودکشی کا ارادہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خوشحال خٹک ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہ ان کے آبائی شہر کندھ کوٹ کے قریب سے گزر کر خیبرپختونخوا کے شہر پشاور جاتی تھی۔
ان کے مطابق پہلے انہوں نے کرائے پر سائیکل لی اور ٹرین کی پٹڑی پر خودکشی کرنے نکل پڑے لیکن پھر انہیں کرائے پر حاصل کی گئی سائیکل واپس کرنے کا خیال آیا اور وہ وہاں سے لوٹ آئے۔
انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں وہ پیدل خودکشی کرنے نکل پڑے، لیکن راستے میں انہیں ڈراما لکھاری حمید بھٹو مل گئے، جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے نیا ڈراما لکھا ہے، جس میں وہ انہیں ہیرو کے طور پر لیں گے۔
علی گل ملاح کا کہنا تھا کہ ڈرامے کا ذکر سنتے ہی ان کے ذہن سے خودکشی کا خیال نکل گیا اور یوں وہ خودکشی کرنے سے بچ گئے
خیال رہے کہ ڈرامے عشق مرشد میں علی گل ملاح نے فضل بخش نامی مزاحیہ کردار ادا کیا ہے جو کہ ہیرو بلال عباس خان کی مزاحیہ انداز میں مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں اور وہ ہر تھوڑی دیر بعد ’بھلے‘ کا ڈائلاگ بولتے دکھائی دیتے ہیں۔
’بھلے‘ سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنی رضامندی اور اتفاق ہے، یعنی جب کوئی کسی بات یا کام سے اتفاق کرتا ہے تو وہ مختصراً ’بھلے‘ کہتا ہے۔
اداکار علی گُل ملاح ہم ٹی وی کے مقبول ڈرامہ سیریل ’عشق مُرشد‘ کی تقریباً ہر قسط میں صرف ایک سین میں نظر آتے ہیں، لیکن اُن کا کردار سوشل میڈیا پہ وائرل ہے
مقبولیت کے بعد لوگ اُنھیں ’بھلے‘ کہہ کر بھی مخاطب کرتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا اپنا اور کردار کا بھولا پن لوگوں کو بھا گیا ہے۔
ٹی وی پر شاندار ریٹنگ اور یوٹیوب پر اربوں ویوز حاصل کرنے والے ڈرامہ سیریل ’عشق مرشد‘ کی کہانی ڈرامہ نگار عبدالخالق خان نے تحریر کی ہے جبکہ اسے فاروق رند نے ڈائریکٹ کیا ہے۔
علی گُل ملاح ڈرامہ سیریل’عشق مُرشد‘ میں اپنے کردار فضل بخش کی کامیابی کا سارا کریڈٹ ڈائریکٹر فاروق رند کو دیتے ہیں۔
اُن کے مطابق ڈرامے میں اُن کا کردار لکھا ہوا نہیں تھا، فاروق رند خود اُن کے لیے دو سین لکھے تھے۔ ”انھوں (فاروق رند) نے کہا کہ کیریکٹر ڈرامہ میں نہیں ہے لیکن اگر چل گیا تو اس کو آگے بڑھائیں گے۔ فی الحال یہ دو سین میں آپ کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ایک ہیرو ہے وہ اپنا روپ تبدیل کرے گا تو میں چاہ رہا ہوں کہ وہ کوئی زندہ کیریکٹر ہو، ایسے ہی روپ تبدیل کر کے غریب نہ بنے۔“
اپنے کردار کی مقبولیت پر علی گل ملاح کہتے ہیں ”بڑے عرصے کے بعد ڈرامے میں ایک ایسا کیریکٹر آیا، ایسی کامیڈی ہوئی، جو آپ بہو بیٹیوں کے ساتھ دیکھ سکیں، جس میں بے ہودگی نہیں تھی اور لفظوں کا اچھا چناؤ تھا۔ تو اِس وجہ سے بھی اس کامیڈی کو پسند کیا گیا۔“
فضل بخش کے کردار کا منفرد انداز میں بولا گیا لفظ ’بھلے‘ بے حد وائرل ہوا۔ جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہےکہ وہ اسے پہلے بھی اپنی یوٹیوب وڈیوز کے خاکوں میں استعمال کر چکے تھے۔ فاروق رند نے لفظ ’بھلے‘ مستعار لیا البتہ بقایا اسکرپٹ اُن کا اپنا تھا۔
علی گُل ملاح کے بقول ’بھلے کا مطلب ہے اوکے۔ یس، بھلے، ٹھیک ہے۔اس کا مطلب ایسے ہے سندھی میں۔‘
ایک حالیہ قسط میں فضل بخش کے کردار نے جب ’بھلے‘ کا لفظ استعمال کیا تو سوشل میڈیا پہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی۔ علی بتاتے ہیں ”وہ ایک معنی خیز لفظ تھا۔ تو لوگوں نے وائرل کیاکہ یہ کہہ رہا ہے کہ بلے کو ووٹ دے دو۔ مگر ایسا نہیں تھا۔“
علی گُل ملاح کا ماننا ہے کہ اُن کے کردار کا ڈرامے کے مرکزی کردار بلال عباس خان کے کردار سے جُڑ جانا ہی کامیابی کی کنجی ثابت ہوا۔اسی لیے اُنھیں ڈرامے میں اصلی اور نقلی دونوں فضل بخش پسند ہیں
سندھی ڈراموں میں اپنے مزاحیہ کرداروں کے حوالے سے شہرت رکھنے والے علی گُل ملاح کئی دہائیوں بعد اردو ڈرامے میں ملنے والے اس ایک موقعے نے اُن کی شہرت کو اردو دان طبقے تک وسعت دی ہے اور وہ اُس کو بھرپور انداز میں منا رہے ہیں۔ عام لوگوں سے ملنے والے فیڈ بیک کے بارے میں ان کا کہنا ہے ”لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے تھے۔ یہی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ بہت سارے جو ہمارے سندھی کمیونٹی کے ہیں، وہ تو کہتے ہیں کہ بھئی آپ کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ مجھے وائرل بھی سندھی کمیونٹی کے لوگوں نے بہت کیا۔ تو اُن کی بہت مہربانی ہے۔“
وہ مزید بتاتے ہیں ”جتنے لوگ ملتے ہیں میرے تو آنسو نکل جاتے ہیں، اتنی خوشی دیتے ہیں، اتنا پیار دیتے ہیں، بہت بڑے شاپنگ مالز میں جاتا ہوں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں جب جاتا ہوں وہاں بڑی بڑی فیملیز ہوتی ہیں۔ جو خواب ہوتا ہے ایک آرٹسٹ کا۔“
پاکستانی اداکار علی گُل ملاح انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمانے قریباً تیس سال پہلے سندھ کے پسماندہ ضلع کندھ کوٹ کے ایک دیہات سے کراچی آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ندیم بیگ جیسا فلم اسٹار بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے
نوعمری میں اپنی والدہ کی وفات کے بعد علی گُل ملاح کو ان کے ماہی گیر والد نے پالا پوسا۔ چائلڈ ایکٹر، سائیڈ ایکٹر، تھیٹر، کامیڈی اور نجانے کیا کیا کرنے والے علی گل ملاح نے اپنی نوجوانی کی کہانیاں سناتے ہوئے کہا کہ وہ صرف فلمی رسالے خریدنے کے لیے ہر پندرہ روز میں کندھ کوٹ سے سکھر تک دوسو کلومیٹر کا سفر کیا کرتے تھے ”میں وہ رسالے لے جاتا تھا اور پڑھتا تھا کہ ٹی وی میں کیا ہوا، فلموں میں کون سے اداکار کی کون سی فلم آ رہی ہے، پھر ان کی اسٹوریز، اُن کی زندگی کے بارے میں پڑھنا، پھر ان کی پینٹنگ کرنا۔ بڑے مجھے ڈانٹتے تھے کہ کیا کر رہے ہو، آؤ ادھر مچھلی پکڑو، یا کام کرو۔“
اپنے دیہات اور والد کی باتیں کرتے ہوئے ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ سٹیج پر مورت کے کردار کے لیے اُنہیں اپنی مونچھیں صاف کروانی پڑیں، پھر کسی رشتہ دار کی شادی میں جانا پڑا تو وہ منہ چھپا کے گھوم رہے تھے۔ ”میرے والد نے دیکھا تو اُس نے بوٹ اتار کے مجھے مارا کہ یہ تو نے کیا کر دیا ہے، سارے لوگ ہنس رہے ہیں کہ یہ تو عورت بن گیا ہے۔“
بعد میں وہ اپنے والد کو تھیٹر دکھانے لے گئے، جہاں کسی عہدیدار نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ علی گل ملاح تھیٹر کے آرٹسٹ ہیں، ہمارے کندھ کوٹ کی عزت ہیں۔ ”میرے ابو نے اس دن مجھےگلے لگا کے کہا کہ بھئی تیری تو بڑی عزت ہے، میں نے کہا ہاں ابو یہ اور فیلڈ ہے۔“
عل گل ملاح سن چھیانوے میں کندھ کوٹ سے کراچی شفٹ ہوئے اور کئی سال تک پی ٹی وی کے ساتھ چھوٹے موٹے رول کرتے رہے۔
سن 2002 میں ایک پرائیویٹ چینل کے ساتھ تھوڑا بہت کام کیا۔ سن 2003 میں ایک دوسرا پرائیویٹ چینل کھلا، جس نے اُنہیں اور اُن کے دوست سہراب سومرو کو پیسوں کی ادائیگی کے یقین کے ساتھ کسی پروگرام کا پائلٹ ریکارڈ کرنے کے لیے بُلایا لیکن صبح گیارہ سے رات گیارہ تک اُس کی ریکارڈنگ نہیں ہو سکی
وہ بتاتے ہیں ”گیارہ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک اُن کی کوئی ان بن تھی، ڈائریکٹر نے غصہ سے بولا کہ بھئی پیک اپ ہے، نہیں کریں گے، آپ لوگ جاؤ، سارے جاؤ۔ ہم نے کہا کہ ہم تو اس کے آسرے پہ آئے تھے، کھانا بھی نہیں کھایا، ابھی پیسے بھی انھوں نے نہیں دیے، نہ ہی کام کرایا، اب کیا ہوگا۔۔ بارہ بج گئے اور رکشہ میں واپسی کے پیسے نہیں تھے تو آئی آئی چندریگر سے پیدل نکل چلے اور صبح چار بجے حسن اسکوائر آکے رُکے۔ جو چند پیسے جیب میں تھے، اُس سے چائے پراٹھا کھایا اور ایک بار پھر حسن اسکوائر سے گلستانِ جوہر میں بھٹائی کالونی تک کا پیدل سفر کیا۔ کچھ انرجی آئی تو ہم نے باقی سفر کیا آگے۔ لیکن خوشی تھی ہمیں، باتیں کر رہے ہیں کہ یہ کام کریں گے، پھر ہم ایسے بنیں گے جیسے جاوید شیخ ہے، ندیم بیگ صاحب کا میں بہت پرستار تھا، میں تو ندیم بیگ تھا اور میرے دوست کو عمر شریف اور معین اختر بننے کا شوق ہوتا تھا۔ تو ایسے ہمارے خواب تھے۔“
علی گل ملاح نے اپنے کریئر کا بیشتر کام سندھی میڈیا کے ساتھ ہی کیا ہے۔ وہ اب بھی اپنے دوست سہراب سومرو کے ہمراہ سندھی چینل پر ایک کامیڈی شو کرتے ہیں اور اُن کے بقول اُس شو سے اُنہیں اچھا معاوضہ ملتا ہے
علی گُل ملاح اپنے وی لاگز اور چھوٹے چھوٹے سکٹس کی ویڈیوز کی وجہ سے سوشل میڈیا پہ بھی کافی مقبول ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ انھیں فیس بُک پر اور چورانوے ہزار سے زیادہ یوٹیوب پہ فالو کرتے ہیں۔ اُن کے بقول ٹی وی اور یوٹیوب کےمعاوضہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ سندھی انڈسٹری کے مقابلے اُنھیں اردو انڈسٹری میں پروفیشنل ازم محسوس ہوا اور فنکاروں کے پروٹوکول اور سہولیات کا فرق نظر آیا۔ ”جیسے وینیٹی وین ہے اُس میں بیٹھے ہوئے ہیں، سین ہورہا ہے پھر بُلا رہے ہیں آپ کو، منرل واٹر کی بوتل مل رہی ہے، کپڑے استری ہو رہے ہیں۔“ زور سے ہنستے ہوئے بولے کہ ”اُدھر (سندھی میڈیا) تو ہم خود ہیروئن کے کپڑے استری کرلیتے تھے۔“
انھوں نے خوشی سے بتایا کہ ’عشق مرشد‘ کے بعد انھیں کافی کام مل رہا ہے جس میں ڈرامے اور فلمیں دونوں شامل ہیں۔