بلیک ہسٹری

ڈاکٹر مبارک علی

افریقی غلاموں کو جب امریکہ لایا گیا تو اُن کی قبائلی شناخت مذہب اور زبان کو تبدیل کر کے اُن کے ناموں کو بھی بدل دیا گیا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں یہ سیاہ فام باشندے اپنے ماضی اور تاریخ سے محروم ہو گئے۔

امریکہ میں افریقی غلاموں کو اس وقت آزادی ملی جب خانہ جنگی کی وجہ سے غلامی کا خاتمہ ہوا۔ غلامی کے پورے دور میں نہ اُن کی کوئی شناخت تھی، نہ کسی قسم کی آزادی اور ان کے لکھنے پڑھنے پر بھی پابندی تھی۔ جب ان میں سے کچھ غلاموں پر حد سے زیادہ ظلم بڑھ جاتا تھا، وہ یا تو فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے یا محدود بغاوتیں کرتے تھے۔ غلامی کے خاتمے کے بعد بھی ان کے مسائل کم نہیں ہوئے۔ اب انہیں نئے روزگار کی تلاش تھی۔ K.K.K کے لوگ انہیں ہراساں کرتے تھے۔ نسلی تعصب کی وجہ سے نہ تو وہ سفید فام اسکولوں میں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اُن کے گرجا میں جا سکتے تھے۔ رنگ کی بنیاد پر علیحدگی (Segregation) کی پالیسی اختیار کی گئی تھی۔

اس ماحول میں امریکی افریقیوں کی تاریخ لکھنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ان کا ماضی غلامی کا تھا، جس میں ان کے لیے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس لیے افریقی مورخوں نے بلیک ہسٹری کی نئی بنیادیں تلاش کیں۔ اُنہوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ امریکہ کی معاشی ترقی میں ان کا حصہ ہے، کیونکہ انہوں نے کاشتکاری اور زرعی پیداوار میں اضافہ کر کے معیشیت کو ترقی دی، ان کی محنت و مشقت سے جنوب کی ریاستوں کے سفید فام لوگوں نے فائدہ اُٹھایا اور اپنا امیرانہ کلچر پیدا کیا، اس لیے افریقیوں کا اُن پر احسان ہے، جسے اُنہیں یاد رکھنا چاہیئے۔

اسی دوران افریقیوں کے اہم راہنما سامنے آئے۔ افریقیوں کی ترقی کے لیے ضروری تھا کہ اُن میں افریقی شناخت کا جذبہ ہو جو اُنہیں آپس میں مُتحد کرے۔ دوسری اہم بات جس پر توجہ دی گئی، وہ تعلیم تھی۔ تعلیم کے ذریعے اُنہیں ناصرف ہُنرمند بنایا جائے بلکہ علم اور ادب و آداب بھی سکھایا جائے۔ راہنما جنہوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا، وہ جارج واشنگٹن، ولیم فریڈرک ڈگلس اور بوکر۔ ٹی واشنگٹن تھے۔ بوکر۔ ٹی واشنگٹن کی کتاب سوانح عمری "Up Slavery” اس کے عہد کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس عہد کی اہم شخصیت ڈو بوئس Du Bois کی تھی۔ یہ پہلا امریکی افریقی تھا، جس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ اس کی کتاب "Soules of Black Folk” بڑی مشہور ہوئی۔ امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ اس شخص پر نظر رکھنا کیونکہ یہ کمیونسٹ خیالات رکھتا ہے۔

افریقی رہنماؤں میں یہ اختلاف تھا کہ حالات کے تحت کون سی پالیسی اختیار کی جائے۔ کچھ کا خیال تھا کہ سفید فام لوگوں سے سمجھوتے کے ساتھ رہنا چاہیے اور جب تک وہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ نہ ہو جائیں، انہیں سفید فام معاشرے میں رہتے ہوئے ان سے سیکھنا چاہیے۔ لیکن Du Bois اس سے متفق نہیں تھا اور اس کی دلیل تھی کہ افریقیوں کو معاشرے میں مساوی مقام مِلنا چاہیے۔ Du Bois افریقی شناخت کی تلاش میں افریقہ جا پہنچا۔ یہاں وہ گاؤں اور دیہاتوں میں پھرا، کسانوں اور عام لوگوں کے ساتھ رہا، اور اُن کے کلچر کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب افریقی ممالک نو آبادیات سے آزاد ہوئے تھے۔ گھانا میں Nkrumah کی حکومت تھی۔ اُس نے Du Bois کو گھانا آنا کی دعوت دی۔ پہلے یہ رُوس گیا۔ جہاں اُسے لینن پرائز دیا گیا۔ گھانا میں رہتے ہوئے اُس نے ’انسائیکلوپیڈیا آف افریقانس‘ لکھنے کا منصوبہ بنایا، جو اس کی زندگی میں تو مکمل نہیں ہوا مگر بعد میں دوسرے اسکالرز نے اسے شائع کیا۔ امریکی حکومت نے Du Bois کی شہریت ختم کر دی اور اس کا پاسپورٹ کینسل کر دیا۔ گھانا میں Du Bois کی وفات 1963 میں ہوئی۔

اس دوران امریکہ میں پروفیشنل افریقی تاریخ دان سامنے آئے، جن میں Clark G. Woodson اور Henry Rodger قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اکیڈمِک ہسٹری پر کام کیا اور بلیک ہسٹری کو امریکہ کی جامعات میں روشناس کرایا۔ ان مورخوں نے افریقی کمیونٹی کی تاریخ کے ماخذ جمع کیے۔ ان میں سوانح عمریاں، ڈائریاں، اخبارات کے مضامین، خط و کتابت اور دوسرے اہم ماخذ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کم از کم 10 سے 12 جامعات میں افریقی تاریخ کی دستاویزات محفوظ ہو گئی۔ ان مورخوں نے مزید ریسرچ جرنلز شائع کرنا شروع کیے۔ کانفرسوں کا انعقاد کیا اور اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کیا۔ کیونکہ امریکی پبلشرز نے ان کی کتابیں چھاپنے سے انکار کر دیا تھا۔

ویسٹ انڈیز کے دو مُصنفوں نے کافی شہرت حاصل کی ان میں سے ایک C.L.R James قابل ذکر تھا، جس کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ جن میں سے ایک "The Black Jacobins” ھے۔ جو ہیٹی کے انقلاب پر لکھی گئی تھی۔ جس کا لیڈر Toussaint Louverture تھا۔ اس کی دوسری کتاب ‘کرکٹ’ پر ھے، جس کے تمام کھلاڑی سیاہ فام تھے اور کرکٹ کے بے مثال کھلاڑی تھی۔ دوسرا اہم مصنف Frantz Fanon تھا، جس کی کتاب "Rachet of the Earth” نو آبادیاتی نظام کے خلاف ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ افریقہ صرف اسی وقت آزاد ہو گا، جب یہاں سے یورپی سامراج کے تمام نشانوں کو مِٹا دیا جائے۔ Fanon خود بھی الجزائر چلا گیا تھا، جہاں اس نے فرانس کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا تھا۔

1960ء کی دہائی میں افریقیوں کی سول رائٹس کی تحریک چلی۔ اس نے دو اہم راہنما پیدا کئے۔ ایک Malcolm X جو انتہائی جذباتی مُقرر تھا، اور دوسرا Martin Luther King Jr جو عدم تشدّد کا حامی تھا اور جس کی تقریر (I have a dream) نے سننے والوں کو بے انتہا متاثر کیا۔ لیکن دونوں رہنمائوں کا انجام افسوس ناک ہوا۔ Malcolm X کو 1965 میں اور Martin Luther King Jr کو 1968ء میں قتل کر دیا گیا۔

اِن تمام نشیب و فراز کے باوجود امریکی۔ افریقی مسلسل سرگرم رہے ہیں۔ انہوں نے اَدیب، آرٹسٹ، فِلم اسٹار، موسیقار اور کھلاڑی پیدا کئے۔ جنہوں نے عالمی شہرت حاصل کی۔ اِن کی مُزاحمت جاری رہی اور موجودہ دور میں بھی افریقی کمیونٹی سے زندگی کے ہر شعبے میں ماہر سامنے آ رہے ہیں۔ اب یہ اپنی نئی تاریخ مرتب کر رہے ہیں، جس میں ان کی اپنی شناخت ہے اور اپنی قومیت پر فخر بھی ہے۔ اس سلسلے میں الیکس ہیلی کے ناول "The Roots” پر ٹی وی سیریز بھی بنی اور فلم بھی، جس نے بلیک ہسٹری کو مقبول کیا۔ اس رائٹر نے ہی "Malcom X” کی سوانح حیات بھی لکھی ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close