ایک نئی تحقیق، جو بتاتی ہے کہ کہکشاؤں کے بھی دل اور پھیپھڑے ہوتے ہیں!

ترجمہ و ترتیب: امر گل

ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کہکشائیں ابتدائی موت سے بچتی ہیں کیونکہ ان کے پاس ’دل اور پھیپھڑے’ ہوتے ہیں جو ان کی ’سانس لینے‘ کو مؤثر طریقے سے منظم کرتے ہیں اور انہیں قابو سے باہر بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات بہت تیزی سے بوڑھی ہو جاتی اور آج ہم صرف بڑی ’زومبی‘ کہکشائیں دیکھتے، جو مردہ اور مرتے ہوئے ستاروں سے بھری ہوتیں۔

یہ ایک نئی تحقیق کے مطابق ہے جو کائنات کے بڑے رازوں میں سے ایک کی تحقیق کرتی ہے — کیوں کہکشائیں اتنی بڑی نہیں ہوتیں، جتنی ماہرین فلکیات کی توقع ہوتی ہے۔

رائل ایسٹرانامیکل سوسائٹی کے جولائی کے ماہانہ نوٹسز میں ایک نیا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے، جس کے مصنفین
یونیورسٹی آف کینٹ کے سینٹر آف ایسٹرو فزکس اینڈ پلینٹری سائنس میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور محقق کارل رچرڈ اور مائیکل ڈی سمتھ ہیں

اس تحقیق کے مطابق کہکشائیں وقت سے پہلے مردہ ہونے سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ان محققین کا کہنا ہے کہ کہکشاؤں کے یہ ’دل اور پھیپھڑے‘ ان میں ستارے بننے کی رفتار کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری کائنات اپنی عمر سے بہت پہلے بوڑھی ہو جاتی اور کائنات میں ہر جانب زومبی کہکشائیں ہوتیں، جن میں مردہ یا دم توڑتے ستاروں کی بھرمار ہوتی۔

اس تحقیق کے بارے میں
سائنسی لکھاری، ماہرِ فلکیات اور فلکیاتی یو ٹیوب چینل ’زیب نامہ‘ کے روحِ رواں شاہزیب صدیقی کا کہنا ہے کہ بگ بینگ کے تقریبا تیس سے چالیس کروڑ سال بعد جو کہکشائیں بنیں، وہ بہت چھوٹے سائز کی تھیں اور ان میں مادے کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔

شاہزیب صدیقی وضاحت کرتے ہیں کہ چھوٹے سائز اور مادے کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث ان میں بے تحاشا ستارے بننے چاہیے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سالہا سال کی تحقیق سے آج ماہرینِ فلکیات یہ جان چکے ہیں کہ جو اولین ستارے ان کہکشاؤں میں بنے تھے ان کی عمر زیادہ نہیں تھی۔

یہ ستارے چند لاکھ سال بعد پھٹ کر سپر نووا بنے اور اس سے جو مادہ بنا، اس سے پھر اگلی جنریشن کے ستارے وجود میں آئے۔ اصولاﹰ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے بعد کائنات میں ستارے بننے کا عمل بند ہو جاتا اور ہر جانب ایسی کہکشائیں ہوتیں، جن میں ستارے بننا بند ہو گئے ہوتے یا صرف مردہ ستارے ہوتے جنہیں ’زومبی کہکشاں‘ بھی کہا جاتا ہے۔

شاہزیب صدیقی کے مطابق اس کے برعکس ماہرینِ فلکیات نے مشاہدہ کیا کہ اولین کہکشاؤں میں ستارے بننے کا عمل بہت تیز نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے پھر کچھ پوشیدہ عوامل تھے جو اس عمل کو کنٹرول کر رہے تھے۔ سائنسدان ایک طویل عرصے سے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جس کا جواب یونیورسٹی آف کینٹ کے سائنسدانوں نے نئے مشاہدات اور ماڈل کی مدد سے ڈھونڈا ہے۔

اس مقالے کے محققین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی چیز ستاروں میں تبدیل ہونے کے لیے جذب ہونے والی گیس کی مقدار کو محدود کر کے ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو دبا رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ حد سے زیادہ بڑھتی جائیں، ان کے اندر کی کوئی چیز اس کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، جو خیال کیا جاتا تھا کہ کشش ثقل کی لازمی کھینچ ہے۔

اب، کینٹ یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات کو یقین ہے کہ انہوں نے یہ راز افشا کر دیا ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ کہکشائیں حقیقت میں اس بات کو کنٹرول کر سکتی ہیں کہ وہ کیسے ’سانس لیتی‘ ہیں۔

اپنی تشبیہ میں، محققین نے کہکشاں کے مرکز میں موجود سپر ماسیو بلیک ہول کو اس کے دل سے تشبیہ دی اور اس کے دو بائپولر سپرسونک جیٹس کو پھیپھڑوں کو خوراک فراہم کرنے والے راستے کے طور پر تشبیہ دی۔

بلیک ہول — یا ’دل‘ — کی نبضیں جیٹ شاک فرنٹس کو دونوں جیٹ محوروں کے ساتھ آگے پیچھے جھولنے کا باعث بن سکتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انسانی جسم میں چھاتی کا ڈایافرام سینے کے گہا کے اندر اوپر نیچے حرکت کرتا ہے تاکہ دونوں پھیپھڑوں کو پھیلایا اور سکڑایا جا سکے۔

یہ جیٹ توانائی کو وسیع پیمانے پر ارد گرد کے ماحول میں منتقل کر سکتی ہیں، جیسے ہم گرم ہوا باہر نکالتے ہیں، جس کے نتیجے میں کہکشاں کی گیس-ایکریشن اور نمو کو سست کیا جا سکتا ہے۔

پی ایچ ڈی طالب علم کارل رچرڈز نے یہ نظریہ اس وقت پیش کیا جب انہوں نے نئی، پہلے سے کبھی نہ کی جانے والی تخیلات تیار کیے تاکہ سپرسونک جیٹس کے کردار کی تحقیق کی جا سکے جو کہکشاں کی ترقی میں رکاوٹ ڈال سکتی ہیں۔

یہ بلیک ہول یعنی کہکشاں کے ‘دل’ کو نبض دینے اور جیٹس کو اعلیٰ دباؤ میں ہونے کی اجازت دینے کے عمل میں شامل تھے –اگر انسانی جسم کی تشبیہ دی جائے تو یہ ایک قسم کی ہائپر ٹینشن کی مانند ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے جیٹس دھنکنی (بیلوز) کی طرح کام کرتی ہیں، صوتی لہروں کو ’پانی کی سطح پر لہروں کی مانند‘ بھیجتی ہیں۔

یہ مظاہر زمینی صوتی اور شاک لہروں کے برابر ہیں جیسے شیمپین کی بوتل کھولنے، کار کے چیخنے، راکٹ کے اخراج اور دباؤ کے تحت بند خالی جگہوں کے پنکچر سے پیدا ہوتی ہیں۔

رچرڈز نے کہا، ”ہم نے محسوس کیا کہ جیٹ طیاروں کے جسم کو سہارا دینے کے لیے کچھ ذرائع ہونے چاہئیں — کہکشاں کے آس پاس کی محیطی گیس — اور یہی چیز ہم نے اپنے کمپیوٹر سمیلیشنز میں دریافت کی“

”جب ہم نے اعلیٰ دباؤ کی کمپیوٹر سیمولیشنز کا تجزیہ کیا اور دل کو نبض دینے کی اجازت دی تو غیر متوقع رویہ ظاہر ہوا۔“

”اس نے اعلیٰ دباؤ والے جیٹس میں ایک دھارا بھیجا، جس نے بیلوز (دھونکنی) کی مانند عمل کی وجہ سے جیٹ شاک فرنٹس کے تبدیلی کی شکل دی۔“

محققین نے کہا کہ یہ زیادہ دباؤ والے جیٹ طیارے ’ہوا سے بھرے پھیپھڑوں کی طرح‘ مؤثر طریقے سے پھیل گئے۔

روایتی کائناتی سیمولیشنز اس طرح کہکشاؤں میں گیس کی بہاؤ کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں، جو کائنات کے بڑے رازوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتی ہے، اس لئے یہ ایک کہکشاں کے دل میں موجود انتہائی فعال بلیک ہول پر انحصار کرتی ہے تاکہ کچھ مزاحمت فراہم کر سکے۔

محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ کہکشاں کی زندگی کو اس کے ‘دل اور پھیپھڑوں’ کی مدد سے بڑھایا جا سکتا ہے، جہاں اس کے مرکز میں موجود سپر ماسیو بلیک ہول انجن نمو کو روکنے میں مدد کرتا ہے کیونکہ یہ ابتدائی مرحلے سے ستاروں میں تبدیل ہونے والی گیس کی مقدار کو محدود کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس نے وہ کہکشائیں بنانے میں مدد کی جو ہم آج دیکھتے ہیں۔

اس طرح کے میکانزم کے بغیر، کہکشائیں اب تک اپنا ایندھن خرچ کر چکی ہوتیں اور ختم ہو چکی ہوتیں، جیسا کہ کچھ ‘سرخ اور مردہ’ یا ‘زومبی’ کہکشاؤں کی شکل میں کرتی ہیں۔

جب شاہزیب صدیقی سے پوچھا گیا کہ کہکشاؤں کے دل سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا ”رائل ایسٹرانامیکل سوسائٹی کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہر کہکشاں کے مرکز میں ایک بڑا بلیک ہول ہوتا ہے، جسے سپر میسِو بلیک ہول بھی کہا جاتا ہے۔ اس بلیک ہول کو یونیورسٹی آف کینٹ کے سائنسدانوں نے ’دل‘ سے تشبیہ دی ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سپر میسو بلیک ہول کے پولز سے گیسیں اور ریڈی ایشن مسلسل خارج ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ وہی مادہ ہوتا ہے جو بلیک ہول کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے لیکن بلیک ہول کی مقناطیسی فیلڈ کچھ مادے کو پولز کی جانب دکھیل کر وہاں سے خارج کرتی ہے۔ یہ اخراج سپر سونک جیٹس کی صورت میں ہوتا ہے۔ جسے ان سائنسدانوں نے کہکشاں کے عمل تنفس سے تشبہہ دی ہے۔

شاہزیب صدیقی کہتے ہیں ”آسان الفاظ میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک سپر میسو بلیک ہول ان جیٹس کو اس طرح باہر کی طرف پھینکتا ہے، جیسے انسانی دل دھڑکتا ہے۔ یہ جیٹس کہکشاں کے اندر سے گزرتے ہوئے توانائی کو کہکشاں میں ہر جانب اس طرح بکھیر دیتے تھے، جیسے ایک کنکر پھینکنے سے لہریں تالاب میں بکھر جاتی ہیں۔ یعنی سپر سونک جیٹس کی انرجی بلیک ہول کے اندر سفر کرتے ہوئے ان بادلوں یا نیبولا کو مضطرب کرتی تھی، جس سے ستاروں کے ایک جگہ اکھٹے ہونے کےعمل کی رفتار سست پڑ جاتی تھی۔

کہکشاؤں میں عمل تنفس کے بارے میں شاہزیب صدیقی کا کہنا ہے کہ اولین کہکشاؤں میں ستارے بننے کا عمل جس میکینزم سے کنٹرول ہوتا تھا وہ انسانی نظام تنفس سے مشابہہ ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جیسے سانس لینے کے دوران ہمارے پھیپھڑے پھولتے ہیں اور ان کا سائز چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح بلیک ہولز میں جیٹس کی انرجی پھیل کر ہلچل پیدا کرتی تھی۔ یہ انرجی ان نیبولا کے اندر پھیل کر گریویٹی کے مخالف کام کرتی اور مادے کو بکھیر رہی ہوتی تھی۔

شاہزیب کے مطابق، ”ابتدا میں سائنسدانوں کا صرف اندازہ تھا کہ اولین کہکشاؤں میں اس طرح کوئی عمل ہوا ہوگا، جس کے باعث کہکشائیں مردہ نہیں ہوئیں۔ بعد ازاں انہوں نے اس کا کوئی ثبوت حاصل کرنے کے لیےجدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی۔ سالہا سال کے نئے مشاہدات سے سائنسدانوں کو ایسے گلیکسی کلسٹرز یا کہکشاؤں کے ہجوم ملے، جن میں ستارے بننے کا عمل مسلسل جاری تھا اور جہاں زومبی کہکشائیں بھی تھیں۔“

وہ کہتے ہیں کہ آکسفورڈ اکیڈیمک کی اس تحقیق میں باقاعدہ ثبوت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اولین کہکشاؤں میں موجود بلیک ہول اور سپر سونک جیٹس انہیں مردہ ہونے سے کیسے بچاتے تھے۔

زومبی کہکشاؤں کی وضاحت کرتے ہوئے شاہزیب صدیقی نے کہا کہ ’زومبی کہکشاں‘ کوئی سائنسی یا فلکیاتی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ ذرائع ابلاغ میں زیادہ استعمال ہونے کے باعث یہ نام زبان زد عام ہوگیا ہے۔“

انہوں نے کہا ”کچھ کہکشاؤں میں نئے ستارے بننے کے لیے مادہ تو موجود ہوتا ہے، مگر کسی وجہ سے ان میں نئے ستاروں کی پیدائش بند ہو جاتی ہے۔ بعد ازاں کسی دوسری کہکشاں کے ساتھ ٹکراؤ سے ان میں دوبارہ سے ستارے بننے لگتے ہیں۔ یہ بلکل ایسے ہی ہے، جیسے زومبی زندہ رہنے کے لیے دوسرے جانداروں کو کھا جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسی کہکشاؤں کو زومبی کہکشاں کہا جاتا ہے۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے منتھلی نوٹسز، سائنس ڈیلی اور ڈی ڈبلیو میں شائع مضامین سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close