چین کے جنوب مغرب میں شنگھائی کے قریب جنکسی نامی ایک قصبے میں ایک بزرگ، ہوانگ پنگ نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کیا، جس کی وجہ سے حکومت کو اپنا نقشہ بدل کر ان کے گھر کے اطراف سے ہائی وے گزارنا پڑی۔
ہوانگ پنگ کو ایک لاکھ 80 ہزار پاؤنڈ معاوضے کی پیشکش کی گئی تھی، جسے انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد موٹر وے ان کے مکان کے اردگرد تعمیر کر دی گئی ہے۔ یہ ’ضدی‘ بزرگ اب ہائی وے کے عین درمیان میں موجود اپنے گھر میں ہی رہتے ہیں اور یہ موٹروے آئندہ بہار میں ٹریفک کے لیے کھول دی جائے گی۔
ہوانگ پنگ کا دو منزلہ گھر اب مسلسل دھول، شور کرتے مزدوروں، اور لرزتی دیواروں کے درمیان، تعمیراتی مقام میں گھرا ہوا ہے۔
ہائی وے پر جاری تعمیراتی کام کے شور شرابے اور دُھول مٹی سے محفوظ رہنے کے لیے ہوانگ پنگ اپنے گیارہ برس کے پوتے، جو ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں، کے ہمراہ دن کے اوقات قصبے کے مرکز میں گزارتے ہیں۔ دونوں دادا پوتا شام کو اس وقت گھر لوٹتے ہیں، جب ہائی وے پر کام بند ہو جاتا ہے۔
ہوانگ پنگ کو اب یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ جب ہائی وے فعال ہو جائے گی تو یہ پریشان کن شور شرابہ مستقل ہو جائے گا، جس کی وجہ سے یہاں ان کا زندگی گزارنا محال بن سکتا ہے۔
اس صورتحال نے ہوانگ کو پریشان کر دیا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ جب ابھی سے یہ حالت ہے تو موٹروے کھلنے کے بعد کیا ہوگا۔۔ ان کی یہ پریشانی، اب پشیمانی میں ڈھلنے لگی ہے۔
ہوانگ پنگ نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے معاوضے کی پیشکش قبول نہ کرنے پر کچھ پچھتاوا ضرور ہے لیکن انہوں نے اس کے باوجود اپنے گھر میں رہنے کا ہی انتخاب کیا، لیکن وہ یہ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ جب یہ ایکسپریس وے موسم بہار میں کھلے گا تو ان کی زندگی کیسی ہوگی۔
ان کا کہنا ہے، ”اگر میں وقت کو واپس پلٹا سکتا تو میں ان کی پیش کردہ انہدامی شرائط پر اتفاق کر لیتا۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ایک بڑی شرط ہار گیا ہوں۔“
ہوانگ یانگ نے یہ بھی بتایا کہ انہیں گھر کے بدلے ہائی وے حکام کی جانب سے 16 لاکھ چینی کرنسی کی پیشکش کی گئی تھی، جسے بعد میں 30 لاکھ تک بڑھا دیا گیا تھا۔
اب ہوانگ یانگ اور ان کے پوتے کو اپنے گھر تک رسائی کے لیے روڈ کے نیچے سے ایک پائپ سے گزرنا پڑتا ہے۔
گھر اور موٹروے کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گھر کی چھت موٹروے کی دو لینز کے تقریباً برابر سطح پر ہے، جو اس عمارت کے اطراف سے گزرتی ہیں اور پھر دوبارہ آپس میں مل جاتی ہیں۔
جنکسی کاؤنٹی، پارٹی کمیٹی کے سکریٹری نے پہلے بتایا کہ ہوانگ، جو اپنے 11 سالہ پوتے کے ساتھ رہتے ہیں، نے حکومت کی پیشکش پر عدم اطمینان کے باعث نقل مکانی سے انکار کر دیا۔
طویل اور بے نتیجہ مذاکرات کے بعد، حکام نے موٹروے کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے ہوانگ کے گھر کے دونوں طرف بائی پاس ڈیزائن کیا۔
اس کے بعد سے لوگ اس علاقے میں تصاویر لینے کے لیے آ رہے ہیں، اور ہوانگ کو چین میں ’نیل ہاؤس کے طاقتور مالک‘ کا لقب دیا جا رہا ہے۔
’ نَیل ہاؤس ‘ کیا ہے؟
نیل ہاؤس Nail house ایک چینی اصطلاح dīngzihù کا ترجمہ ہے (جو حرفی طور پر ’نیل ہاؤس ہولڈر‘ یا ’نیل ہاؤس‘ ہوتا ہے) یعنی کِیل کی طرح گڑا گھر۔۔ امریکہ میں اس کے لیے ہولڈ ہاؤس House کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح ایسے گھروں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جن کے مالکان کسی تعمیراتی منصوبے کے خلاف ڈٹے رہتے ہیں۔ ایسی جائیدادیں اکثر ملبے سے گھری ہوتی ہیں یا ترقیاتی کام ان کے اردگرد مکمل کر لیے جاتے ہیں۔ یہ چینی اصطلاح، جو ترقیاتی اداروں کے ذریعہ وضع کی گئی، اس حقیقت سے نکلی ہے کہ یہ گھر ایسی کیل کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں نہ نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ٹھوک کر دبایا جا سکتا ہے۔
مالکان اپنی جائیداد کو محفوظ رکھنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اٹھا سکتے ہیں، چاہے ان کے ارد گرد فلک بوس عمارتیں اور شاپنگ سینٹرز تعمیر ہو جائیں یا سڑکیں ان کے گھروں کے بیچ سے گزارنے کا منصوبہ ہو۔
تاریخی پس منظر
چین میں عوامی جمہوریہ چین (PRC) کے کمیونسٹ دور کے دوران، زیادہ تر عرصے تک جائیداد کی نجی ملکیت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت کے پاس تمام جائیداد کی ملکیت تھی اور وہ نظریاتی طور پر فیصلہ کر سکتی تھی کہ کسی جائیداد پر کس کو کنٹرول حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں، شہریوں کو قانونی طور پر یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنی جائیداد رکھیں اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی کہ انہیں چھوڑنا چاہیے (اگرچہ عملی طور پر مختلف وجوہات کی بنا پر حقوق حاصل ہوئے تھے)۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں جب معیشت میں بہتری آئی اور آزاد بازاروں کا عروج شروع ہوا، تو نجی ترقیاتی اداروں نے بڑے شہروں میں شاپنگ مالز، ہوٹلز اور دیگر ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جس کے لیے مقامی رہائشیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا ضروری تھا۔ ترقیاتی ادارے عموماً رہائشیوں کو کم قیمت پر معاوضہ پیش کرتے تھے، جو ان کی جائیداد کی ترقی سے پہلے کی قیمت یا کہیں اور متبادل رہائش حاصل کرنے کے اخراجات کے مطابق ہوتا تھا۔ اگر رہائشی مزاحمت کرتے یا اپنے سودے کی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے، تو طاقتور ترقیاتی ادارے مقامی حکام اور عدالتوں کو رہائشیوں کو زمین سے نکالنے کا حکم دینے پر راضی کر سکتے تھے۔ دوسرے معاملات میں، رہائشیوں کو جھوٹے الزامات پر گرفتار کیا جاتا یا غنڈوں کو ہائر کر کے انہیں ڈرا دھمکا کر نکال دیا جاتا۔
2007 میں چین نے جائیداد کی نجی ملکیت کو تسلیم کرنا شروع کیا، بشمول وہ متنازعہ تصور کہ مالکان کو اپنے زمین پر ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے زمین کی قیمت بڑھنے پر پیسہ کمانے کا حق ہے، یا بس نہ بیچنے کا حق ہے۔ لوگوں میں شکایات پیدا ہوئیں کہ ترقیاتی اداروں کے ذریعہ غیر قانونی طور پر زمینیں ہتھیائی جا رہی ہیں اور حکومت کے افسران کی کرپشن کی شکایات سامنے آئیں۔
مارچ 2007 میں چین نے اپنا پہلا جدید نجی جائیداد قانون منظور کیا۔ یہ قانون حکومت کو زمین لینے سے روکتا ہے، سوائے جب یہ عوامی مفاد میں ہو۔ اس قانون نے نیل ہاؤس مالکان کی پوزیشن کو مضبوط کیا، مگر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا نجی تجارتی ترقیات کے لیے جگہ بنانا عوامی مفاد میں آتا ہے جس کے لیے زمین کا حصول ضروری ہو۔
چین میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ چند اہم نیل ہاؤسز نے چینی پریس میں بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی۔ 2007 میں، چنگدو کے ایک علاقے میں ایک خاندان نے چھ منزلہ شاپنگ مال کی تعمیر کے مقام پر 280 دیگر خاندانوں کے ساتھ دو سال تک اپنے تین نسلوں پر محیط گھر کو خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ ترقیاتی اداروں نے ان کی بجلی اور پانی بند کر دیے، اور ان کے گھر کے ارد گرد 10 میٹر چوڑا کھڈا کھود دیا۔ مالکان نے تعمیراتی مقام میں گھس کر اپنے گھر کا قبضہ دوبارہ حاصل کر لیا، اور اس پر چینی پرچم لہرا دیا۔ یانگ وو، ایک مقامی مارشل آرٹس چیمپئن، نے ننجاکس استعمال کرتے ہوئے اپنے گھر تک سیڑھیاں بنائیں، اور حکام کو دھمکی دی کہ جو بھی انہیں نکالنے کی کوشش کرے گا، وہ اسے پیٹ دے گا۔ ان کی بیوی، ریسٹورنٹ مالکہ وو پنگ، نے ایک ریسٹورنٹ کھولنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اکثر میڈیا میں انٹرویو اور پریس ریلیز دے کر اس معاملے کو مشہور کیا۔ مالکان نے 3.5 ملین یوآن (تقریباً 453,000 امریکی ڈالر) کے معاوضے کی پیشکش کو رد کر دیا، لیکن آخرکار 2007 میں ترقیاتی اداروں کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔
اس واقعے کی اہمیت اس بات میں تھی کہ یہ چین میں شہری حقوق اور جائیداد کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی علامت بن گیا۔ حکومت اور ترقیاتی اداروں کے خلاف اس نوع کی مزاحمت نے شہریوں میں اپنی جائیداد کے حقوق کے بارے میں آگاہی بڑھائی اور نیل ہاؤس ایک قسم کا مزاحمتی نشان بن گیا۔
ایک اور مثال میں، ایک نیل ہاؤس چانگشا میں رہا، یہاں تک کہ ایک شاپنگ مال اس کے ارد گرد تعمیر ہو گیا، اور اب یہ مال کے احاطے میں موجود ہے۔ شینزین کے ایک مالک نے سات منزلہ عمارت بیچنے کے لیے 10 سے 20 ملین یوآن (1.3 ملین سے 2.7 ملین امریکی ڈالر) وصول کیے، جو اس نے دس سال قبل 1 ملین یوآن (130,000 امریکی ڈالر) میں بنائی تھی۔ رہائشی نے بے دخلی کے حکم کے بعد کئی ماہ تک مزاحمت کی، اور اسے ہراسانی اور جبری طور پر نکالنے کی کوششوں کا سامنا رہا، حتیٰ کہ اس نے معاہدہ کر لیا تھا۔
ایک اور نیل ہاؤس زہجیانگ صوبے کے وینلنگ میں ایک نئی سڑک کے درمیان آ گیا۔ بزرگ جوڑے نے 2001 سے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی قیمت پر جائیداد بیچنے سے انکار کیا تھا۔ آخرکار نئی ٹرین اسٹیشن کی طرف دو لائنوں والی سڑک اس گھر کے ارد گرد تعمیر کی گئی۔ گھر کی تصاویر انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئیں اور چینی میڈیا میں بڑے پیمانے پر شائع ہوئیں۔ یہ جائیداد دسمبر 2012 میں اس وقت منہدم کی گئی جب مالکان نے 41,000 امریکی ڈالر کے معاوضے کی پیشکش قبول کی۔
2017 میں، شنگھائی میں ایک مشہور نیل ہاؤس کو مسمار کر دیا گیا، جو تقریباً 14 سال تک ایک وسیع سڑک پر ٹریفک کے لیے رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ رہائشیوں نے 2003 سے ہر پیشکش کو مسترد کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ معاوضہ ناکافی ہے۔ لیکن بالآخر، انہوں نے تین لاکھ پاؤنڈ لے کر وہاں سے منتقل ہونے پر اتفاق کر لیا۔
نیل ہاؤسز کو چینی پریس میں غیر معمولی سطح پر کوریج حاصل ہوئی۔ چنگدو کے واقعے کو ابتدا میں ایک بلاگر نے "تاریخ کا سب سے خوبصورت نیل ہاؤس” قرار دیا، جس کے بعد یہ واقعہ چین بھر کے بڑے میڈیا اداروں کی نظر میں آیا، بشمول حکومتی اخبارات، اور یہ ایک قومی سنسیشن بن گیا۔ سینا ڈاٹ کام پر ایک پول کے جواب دہندگان میں سے 85 فیصد نے جوڑے کی حمایت کی نہ کہ ترقیاتی اداروں کی۔ بعد میں، تاہم، چینی حکومت نے اخبارات کو اس واقعے پر رپورٹنگ سے منع کر دیا۔ ایک اور بلاگر، سبزی فروش ژو شوگوانگ، اپنے گھر سے ہنان صوبے سے ٹرین کے ذریعے اس واقعے کی کوریج کرنے آیا، جس کی فنڈنگ اس کے قارئین کی طرف سے کی گئی۔ ژو نے ’زوولا‘ کے قلمی نام سے لکھا اور شرکاء کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے انٹرویو کیا جو وہاں جمع ہوئے تھے اور دیگر جنہیں اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اسے عوامی طور پر چین کے پہلے ’سویلین صحافی‘ کے طور پر جانا گیا حالانکہ اس کی ویب سائٹ بھی بلاک کر دی گئی۔ دیگر افراد نے بھی اس پابندی کو نظرانداز کیا، بشمول اسپورٹس ایلومینیٹڈ کا چینی ایڈیشن، جس نے اس واقعے کا ایک نرم حوالہ اپنے میگزین کے سرورق میں دیا۔
امریکی ہولڈ آؤٹس بمقابلہ چینی نیل ہاؤسز
چین کے علاوہ جس ملک میں ایسی ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں، وہ اس کا حریف ملک امریکہ ہے۔ امریکہ میں بھی اس نوعیت کی مزاحمت عام ہے اور اس کی تاریخ چین سے پرانی ہے، اور اس کی وجوہات بھی واضح ہیں۔ ملک کی اقتصادی خوشحالی، تیزی سے ہونے والی تجارتی ترقی، اور ان لوگوں کو دلکش پیشکشیں جو کسی منصوبے کے راستے میں آتے ہیں، انہیں راستے سے ہٹانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکی ذہنیت میں موجود آزاد خود مختاری کا منفرد جذبہ بھی اس رجحان کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہیں کہ امریکہ کو مواقع اور آزاد تجارت کی سرزمین مانا جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ شہری کے اپنے گھر—اپنی زمین—کے دفاع کے حق کی سرزمین ہے۔
یہ ایک دلچسپ تضاد ہے کہ اگر دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو مزاحمت کرنے والے گھر مالکان میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے، تو وہ سرمایہ داری اور جائیداد کے حقوق کے بالکل برعکس کہلانے والا ملک، کمیونسٹ چین ہے۔ اگرچہ چین میں اس رجحان کا پس منظر کچھ مختلف ہے، لیکن بنیاد ایک جیسی ہے—یا تو جذباتی وجوہات کی بنا پر اپنے گھر سے وابستگی رکھنا یا معاوضے کے لیے مزاحمت کرنا۔ چین میں ایسی جگہوں کو "نیل ہاؤسز” کہا جاتا ہے، اور آج کل یہ اتنے عام ہو چکے ہیں کہ یہ خبر کا حصہ بھی نہیں بنتے۔
ایک وقت تھا جب چین میں نجی ملکیت کے حقوق مکمل طور پر انکار کر دیے گئے تھے، اور جو کچھ حکام چاہتے تھے، وہ حاصل کر لیتے تھے۔ اگر وہ کسی کا گھر گرانا چاہتے، تو بس گرا دیتے۔ لیکن 1990 کی دہائی میں بہتر حالات نے حکومتی کنٹرول سے آزاد مارکیٹوں کو جنم دیا، اگرچہ ابتدا میں اس کا فائدہ عوام کو نہ ہوا۔ دھوکہ باز ڈویلپرز اور بدعنوان مقامی حکام جو نئی تعمیراتی منصوبوں کے لیے زمین مختص کرتے تھے، گھر مالکان کو کم ترین معاوضے پر راضی کرنے کے لیے دھونس دیتے تھے۔ تاہم، اس آزاد تجارتی نظام نے نجی ملکیت کے مضبوط حقوق کے ابھرنے اور گھر مالکان کو یہ احساس دلایا کہ اپنے گھروں کو جتنا زیادہ ممکن ہو، برقرار رکھنا ایک منافع بخش عمل ہو سکتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آمریت کے خلاف مزاحمت کی یہ طاقتور علامت عام ہو گئی۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ چینی نیل ہاؤسز اپنے امریکی ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔ ان عمارتوں کا ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے، اور بدعنوانی اور دھونس ابھی بھی عام ہے۔ چین نے حالیہ برسوں میں اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لیے جلد بازی کی ہے، جس کے نتیجے میں نیل ہاؤسز کے مالکان پر منتقل ہونے کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چینی نیل ہاؤسز اتنے دیرپا نہیں ہوتے جتنے امریکی ہولڈ آؤٹس ہوتے ہیں۔ تاہم، ان عمارتوں کی تعمیراتی کام کے درمیان موجودگی کی شدت اور دلکش منظر نمایاں طور پر زیادہ ہوتی ہے۔
بہرحال نیل ہاؤس Nail House ایک ایسا مظہر ہیں جو پچھلے چند دہائیوں میں بڑھا ہے، اور شاید یہ ایک اچھا نشان ہے۔ یہ عمارتیں بڑے ملٹی نیشنل کمپنیوں، لالچی کارپوریٹ مفادات اور جارحانہ حکومتوں کے مقابلے میں چھوٹے جرات مندانہ لوگوں کے استقامت کی علامت ہیں۔
نوٹ: فیچر کی تیاری میں دی کنورزینشن، دی انڈپینڈنٹ، وکیپیڈیا اور اولکیشن میں شائع آرٹیکلز اور رپورٹ سے مدد لی گئی۔