
تھر کے لوگ، جن کی اپنی زندگی سختیوں سے گندھی ہوتی ہے، مہمان کے لیے نرمی اور مٹھاس کا ایک الگ خزانہ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مسافر پیاسا آئے، تو چاہے گھر میں پانی کا آخری گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، وہ پہلے مہمان کے لیے رکھا جائے گا۔ یہاں کے لوگ اپنے روایتی چادر، اونٹنی کے دودھ، اور مٹی کی خوشبو سے رچے روایتی کھانے ایسی محبت سے پیش کرتے ہیں جو کسی بھی نعمت سے بڑھ کر ہے۔ خود بھوکے رہ لیں گے، مگر آنے والے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹائیں گے۔۔ یہاں کی مہمان نوازی صرف ایک رسم نہیں، بلکہ صدیوں پرانی روایت اور فطرت کی سختیوں کے خلاف محبت کی سب سے بڑی جیت ہے۔
تھر کے لوگ مہمان کی آمد کو رحمت مانتے ہیں اور اس کے قدموں میں اپنی تنگدستی کی چادر بچھا دیتے ہیں، مگر یہی لوگ، جو اپنی آخری روٹی بھی بانٹ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں، پانی پر پہرہ بٹھانے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ نعمت ہے جو ان کے لیے ہوا سے زیادہ نایاب اور زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر ان کے دروازے کھلے ہیں، تو کنووں پر تالے کیوں ہیں؟ کیونکہ یہاں مہمان کی عزت، رسموں کا تقدس، اور دلوں کی وسعت سب کچھ پانی کی ایک بوند کے برابر ہے۔ وہ اپنے مہمان کو عزت سے بٹھائیں گے، اس کے لیے دودھ، گڑ اور چادر لائیں گے، لیکن یہاں کچھ بستیاں ایسی بھی ہیں، جہاں اگر مہمان پانی مانگے، تو لمحے بھر کے لیے آنکھوں میں ایک بے بسی کی جھلک ضرور ابھر آتی ہے۔۔ یہاں مہمان نوازی اور بقا کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چلتی ہے۔
ریت کے سمندر میں گھری یہ بستیاں، جہاں دلوں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، پانی کی شدید قلت نے انہیں پانی پر تالے لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔
تھرپارکر کے اس خشک اور بے رحم منظرنامے میں، جہاں زمین کی پیاس کبھی نہیں بجھتی، کچھ بستیاں ایسی بھی ہیں جہاں پانی پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ ننگرپارکر سے تیس کلومیٹر مشرق کی سمت، رن کچھ کے کنارے پتھاپور، گڈڑو، اٹھ کپاریو، سورا پادر اور سورے کا وانڈیا جیسے گاؤں بستے ہیں۔ یہاں کنویں محض پانی کے ذخیرے نہیں، بلکہ قیمتی خزانے ہیں جن کی حفاظت کے لیے تالے لگائے جاتے ہیں۔ ہر کنوے کی چابی گھر کے کسی فرد کے پاس ہوتی ہے، جو اسے سینے سے لگا کر رکھتا ہے، جیسے کسی نایاب زیور کی حفاظت کی جا رہی ہو۔
پیتھاپور کے ایک مکین، عبدالرحمٰن مگنھار، خشک ہونٹوں سے بتاتے ہیں، ”یہاں پانی کی ایسی قلت ہے کہ ہر خاندان کو اپنا کنواں کھودنا پڑتا ہے، اور اسے بچانے کے لیے اس پر تالا لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر کنواں کھلا چھوڑ دیں تو کوئی بھی آ کر پانی نکال سکتا ہے، اور یہاں اتنا پانی کہاں کہ دوسروں میں بانٹ سکیں!“
یہاں کے کنویں زیادہ گہرے نہیں کھودے جاتے۔ زیادہ نیچے جانے کا مطلب ہے کڑوا پانی۔۔ وہ پانی جو زندگی کی بجائے مزید پیاس پیدا کر دے۔ چھ سے سات فٹ کی گہرائی پر ملنے والا پانی محض سات سے آٹھ گیلن ہوتا ہے، جو ایک گھر اور اس کے جانوروں کے لیے بمشکل ہی کافی ہوتا ہے۔
عبدالرحمٰن نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”ہمارے کنویں زیادہ سے زیادہ پندرہ سے بیس دن تک میٹھا پانی دیتے ہیں۔ پھر یا تو پانی کڑوا ہو جاتا ہے یا کنواں سوکھ جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شام کو جو پانی میٹھا نکلا تھا، صبح وہی زہر لگنے لگتا ہے۔“
رن کچھ کے قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں زیرِ زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے، اور جو کچھ باقی ہے، وہ بھی زیادہ تر نمکین ہے۔ اس لیے یہاں کنویں محض پانی کے ذخیرے نہیں، بقا کی ضمانت ہیں۔ رات کے اندھیرے میں بعض اوقات پانی کے چور کنووں کے تالے توڑ کر چوری کر لیتے ہیں، اور جب صبح لوگ اپنے کنویں کے پاس پہنچتے ہیں تو خالی برتن انہیں چپ چاپ تک رہے ہوتے ہیں۔
”اگر کسی کے کنویں کا تالا ٹوٹ جائے، تو پورا گاؤں چور کے پاؤں کے نشان تلاش کرتا ہے۔ نشان ہمیں سیدھا اس کے دروازے تک لے جاتے ہیں، اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ اس پر کیا سزا لگے گی۔“ عبدالرحمٰن کی آواز میں صحرا کی سختی اور زندگی کی بے رحمی ایک ساتھ بول رہی تھی۔
یہاں پانی کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ اگر کسی کا کنواں سوکھ جائے یا کڑوا ہو جائے تو دوسرا کھودنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہر کنوے پر چھوٹا سا دروازہ لگایا جاتا ہے، زنجیر باندھی جاتی ہے، اور تالا جڑ دیا جاتا ہے، جیسے یہ پانی کا کوئی قید خانہ ہو۔
”بارش ہو تو چند دن کے لیے آسانی ہو جاتی ہے، مگر جب بادل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے کنویں بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ بارش کا پانی ہم ذخیرہ کرتے ہیں، مگر وہ بھی زیادہ دن نہیں چلتا۔“
ان گاؤں میں پانی قدرت کے فیصلے پر منحصر ہے۔ جہاں بارش کا پانی زمین میں جذب ہو کر جمع ہوتا ہے، وہیں کنویں کھودے جاتے ہیں۔ پیتھاپور میں چار ایسے قدرتی تالاب ہیں جہاں کنووں کا سلسلہ قائم ہے: کانگاسرو تالاب میں چالیس، دوندی تالاب میں دس اور پدمالو تالاب میں پچاس کنویں، مگر یہ سب بھی پیاس بجھانے کے لیے کافی نہیں۔
ان گاؤں میں رہنے والی برادریوں میں کمبہار، مگنھار، کولھی، بھیل، برہمن اور بجیر شامل ہیں۔ یہ علاقہ انڈیا کی سرحد کے بالکل قریب ہے جو یہاں سے صرف چار کلومیٹر دور واقع ہے۔
اس علاقے میں پانی سب سے قیمتی چیز ہے، جسے بچانے کے لیے ہر ممکن تدبیر کی جاتی ہے۔ اگر پانی نہ ہو، تو نہ مگنھار رہ سکتے ہیں، نہ کمبہار، نہ کولھی، نہ بھیل، نہ برہمن، نہ بجیر۔۔ یہ زمین اپنے مکینوں سے بس ایک ہی سوال کرتی ہے: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ اور اگر جواب ’نہیں‘ ہو، تو یہاں زندگی کا کوئی جواز نہیں۔ پھر یہاں ایک ہی ذات اور اور ایک ہی مذہب رہ جاتا ہے۔۔ پیاس!
ریت کی سلگتی چادر کے نیچے، جہاں زندگی ہر بوند کے لیے ترستی ہے، وہاں حکومت کے وعدے ریت میں سراب کی طرح جھلملاتے ہیں۔ تھر کے کنویں سوکھ رہے ہیں، ہونٹوں پر دراڑیں پڑ رہی ہیں، مگر اقتدار کے ایوانوں میں نعمتوں کے چشمے بہہ رہے ہیں، شیشے کے گلاسوں میں برف گھل رہی ہے، پائپ لائنوں میں پانی ناچ رہا ہے، اور نلکوں سے بے دریغ بہہ رہا ہے۔ یہاں بچے پیاس سے بلکتے ہیں، مائیں کنووں کی تہہ میں امیدوں سے تکتی ہیں، مگر حکومتی مشینری کی آنکھوں میں صرف اعداد و شمار کے گول چکر گھومتے ہیں۔ کوئی سکیم بنتی ہے، کوئی بجٹ پاس ہوتا ہے، کوئی تصویر کھنچتی ہے، اور پھر سب کاغذوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ پانی کے لیے ترستے یہ لوگ شاید کسی رپورٹ کا حصہ ہیں، مگر کسی کے ضمیر کا نہیں۔
اگر پیاس کے صحرا میں بسنے والے یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے ضمیر کا حصہ ہوتے تو یقیناً وہ ان کے لیے سوچتے، کیونکہ آج ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہاں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے صحرائی علاقوں میں پانی کا حصول ممکن ہو گیا ہے اور صحرائی علاقوں میں پانی کی قلت کے پیش نظر جدید ٹیکنالوجی کے کئی حل متعارف کرائے گئے ہیں جو قدرتی ذرائع سے پانی حاصل کرنے اور اس کا مؤثر استعمال ممکن بناتے ہیں۔
1. فضائی نمی سے پانی حاصل کرنا (Atmospheric Water Generators – AWG) : یہ ٹیکنالوجی ہوا میں موجود نمی کو گاڑھا کر کے پانی میں تبدیل کرتی ہے۔ AWG مشینیں خاص طور پر صحرائی علاقوں میں کارآمد ثابت ہو رہی ہیں، جہاں دن کے وقت ہوا میں نمی کم، لیکن رات کو نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مشین روزانہ 20 سے 10,000 لیٹر تک پانی پیدا کر سکتی ہے، جس کا انحصار ہوا کی نمی اور درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔
2. سولر ڈی سیلینیشن (Solar Desalination) : نمکین یا کھارے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے سولر ڈی سیلینیشن پلانٹس کام کر رہے ہیں۔ یہ پلانٹس شمسی توانائی کے ذریعے سمندری یا زیرِ زمین کھارے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بناتے ہیں۔ صحرائی علاقوں میں، جہاں سورج کی روشنی وافر ہوتی ہے، یہ ٹیکنالوجی توانائی کے کم خرچ کے ساتھ پانی کی فراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے۔
3. فوگ ہارویسٹنگ (Fog Harvesting) : کہر اور بادلوں سے پانی حاصل کرنے کے لیے نیٹ یا جالی نما ڈھانچے (Fog Nets) نصب کیے جاتے ہیں، جو ہوا میں موجود ننھے ننھے پانی کے قطروں کو جمع کر کے پینے کے قابل بناتے ہیں۔ جنوبی امریکہ، مراکش اور نامیبیا کے صحرائی علاقوں میں یہ کامیابی سے استعمال ہو رہے ہیں، اور ایک نیٹ روزانہ 200 لیٹر تک پانی جمع کر سکتا ہے۔
4. بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے جدید نظام: بارش کے محدود وسائل کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے جدید رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹمز (Rainwater Harvesting Systems) متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ زیرِ زمین ٹینک، فلٹریشن سسٹمز، اور مصنوعی جھیلوں کے ذریعے بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے خشک موسم میں استعمال کیا جاتا ہے۔
5. بایو سینڈ فلٹر اور جدید فلٹریشن سسٹمز: زیرِ زمین پانی اکثر آلودہ یا کھارا ہوتا ہے، جسے بایو سینڈ فلٹر (Bio-Sand Filter) یا ریورس اوسموسس (Reverse Osmosis) کے ذریعے پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ یہ سادہ اور کم خرچ ٹیکنالوجی صحرائی بستیوں کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
7۔ ڈریپ ایریگیشن اور اسمارٹ ایریگیشن سسٹمز: زرعی شعبے میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے ڈریپ ایریگیشن (Drip Irrigation) استعمال کی جا رہی ہے، جو مخصوص مقدار میں پانی براہ راست جڑوں تک پہنچاتی ہے۔ اسمارٹ سینسرز سے لیس یہ نظام ضرورت کے مطابق پانی کی مقدار کو خودکار طریقے سے کنٹرول کر سکتے ہیں، جس سے پانی کا زیادہ سے زیادہ مؤثر استعمال ممکن ہوتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی صحرائی علاقوں میں پانی کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، لیکن ان ٹیکنالوجیز کے نفاذ کے لیے حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان سسٹمز کو مناسب پیمانے پر لاگو کیا جائے، تو صحرائی علاقوں میں پانی کی قلت کو کم کیا جا سکتا ہے اور وہاں کے باسیوں کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
(اس فیچر کی تیاری میں انڈپینڈنٹ میں شائع خالد کنبہار کی رپورٹ سے مدد لی گئی۔ تحریر و اضافہ: امر گل)