سزائے موت سے قبل تین سو مجرموں کے آخری الفاظ سننے والی امریکی صحافی کیا کہتی ہیں

ویب ڈیسک

امریکی صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں سزائے موت پانے والے خطرناک مجرموں سے عین موت سے قبل بات کی اور ان کے آخری الفاظ نوٹ کئے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ان میں سے بعض جملے ان کے لاشعور کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ بہت تکلیف دہ ہیں

نوجوانی میں وہ ہنٹس ویلی آئٹم نامی اخبار سے وابستہ تھیں، لیکن جلد ہی وہ ٹٰیکساس کے شعبہ جرائم سے وابستہ ہوئیں

سال 2000ع سے 2012ع کے درمیان ان کے سامنے تین سو افراد کو سزائے موت دی گئی، اور مشیل نے ان سے ملاقات کی اور ان کے آخری الفاظ نوٹ کئے

اس طرح وہ دنیا میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی معلومات، نفسیات اور ان کے اہلِ خانہ اور متاثرین کے اہلِ خانہ سے واقف ماہرین میں غیرمعمولی رتبہ پا چکی ہیں

مشیل نے اپنی کتاب ’ ڈیتھ رو‘ میں ان تمام باتوں کا انکشاف کیا ہے

مشیل اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ مجرموں کی اکثریت کو انجیکشن دے کر موت کی نیند سلایا گیا۔ انہیں 30 سے 45 سیکنڈ کے دوران تین انجیکشن لگائے جاتے تھے۔ اکثر افراد کو شام چھ بجے موت دی گئی۔ اس دوران مجرم کے پانچ اہلِ خانہ کو یہ سارا واقعہ دیکھنے کی اجازت تھی۔ اس کے ساتھ ہی مقتولین کے پانچ لواحقین بھی بلائے جاتے تھے، مجرموں کو پہلے گہری نیند کا ٹیکہ دیا جاتا تھا جس سے وہ نیند میں چلے جاتے تھے۔ اس کے بعد پٹھوں کو سکون دینے والا انتہائی مہلک ٹیکہ دیا جاتا تھا جس سے پھیپھڑے اور سینے اور پیٹ کا درمیانی حصہ تباہ ہوجاتا تھا۔ تیسری دوا سب سے زہریلی ہوتی جس سے دل کی دھڑکن رک جاتی تھی

مشیل بتاتی ہیں ’میں نے سزائے موت پانے والوں کی بیویوں، بچوں اور عزیزوں کو آخری لمحات میں روتے اور بلکتے دیکھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ بعض معاملات میں سزائے موت درست ہوتی ہے، لیکن اس کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے. ‘

مشیل نے لکھا ہے کہ موت کے کمرے میں جانے سے قبل بہت کم مجرموں نے بات کی، حالانکہ انہیں اہل ِخانہ سے دو منٹ کی گفتگو کی اجازت دی جاتی تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے معافی مانگی، کچھ مجرم روتے ہوئے دکھائی دیئے اور کچھ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ غلط کیا

"ڈیتھ رو” کی مصنفہ کا کہنا ہے کہ جب انہیں اپنے اہلِ خانہ سے ملنے دیا گیا تو وہ بہت پچھتائے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے جرم کی وجہ سے اہلِ خانہ شدید مصائب کا شکار ہوئے ہیں، البتہ ایک مجرم نے جیل کے وارڈن سے گفتگو کے لیے اضافی وقت مانگا اور بیس منٹ تک اپنے بچوں اور بیوی سے بات کرتا رہا

مشیل کے مطابق انہوں نے دو افراد کو دیکھا جو موت سے چند لمحے قبل لطیفے سنا رہے تھے اور ایک شخص ٹیکساس کا مقبول گانا گارہا تھا۔ لیکن بہت سے مجرم ایسے بھی تھے، جنہیں چپ لگ گئی تھی اور وہ ایک لفظ بھی نہ بول پائے تھے

مشیل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ دو سفاک مجرم ایسے تھے جو مقتول کے اہلِ خانہ کو بددعا دیتے ہوئے موت کے کمرے میں گئے۔ ایک نے مقتول کے خاندان والوں سے کہا کہ جب تم واپس جاؤ تو راستے میں تم سب کو حادثہ ہوجائے اور تم سب مر جاؤ۔ دوسرے شخص نے مقتول کے خاندان والوں کو گالیاں دیں اور نہایت برے الفاظ ادا کئے

مشیل کے مطابق بعض مجرم آخری وقت پر بہت پشیمان بھی تھے اور پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے اور مقتول کے وارثوں سے معافی مانگتے رہے تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close