دہائیوں ریڈیو پر ’آواز کی دنیا کے دوستو‘ کہہ کر سامعین کو مخاطب کر کے منفرد انداز میں فلمی گیتوں کے پروگرام پیش کرنے والے معروف بھارتی براڈکاسٹر امین سیانی حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ اکیانوے سال کی عمر میں مخملی آواز خاموش ہو گئی!
”بھائیو اور بہنو! آپ کی خدمت میں امین سیانی کا آداب“ 3 دسمبر 1952 بروز بدھ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے شب ریڈیو سیلون سے سارے ہندوستان میں جو آواز سنی گئی، وہ امین سیانی کی ایسی انوکھی اور دل میں اتر جانے والی آواز تھی، جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
آج کی نسل امین سیانی کو شاید ہی جانتی ہو، اس لیے کہ اِس نسل کے کانوں سے ’بہنو، بھائیو‘ اور ’آواز کی دنیا کے دوستو‘ کا جملہ کبھی ٹکرایا نہیں ہے۔ یہ جملہ بیالیس برس تک اپنے منفرد انداز میں ’ریڈیو سیلون‘ اور ’آل انڈیا ریڈیو‘ سے ’بناکا گیت مالا‘ میں گونجتا ، اور اپنے سُننے والوں کے کانوں میں شہد گھولتا رہا۔۔
انڈیا اور اس سے باہر کے لاکھوں لوگوں کے لیے ’بناکا گیت مالا‘ کا محض ذکر ہی پرانی یادوں کی ایک لہر کو جنم دیتا ہے، جس نے انہیں فوری طور پر ایک ایسے وقت میں پہنچا دیا، جب ریڈیو کا غلبہ تھا۔ اور اس جادوئی ساؤنڈ سکیپ کے مرکز میں، ہر لفظ کے ساتھ اپنے سحر انگیز جادو کو تراشتے ہوئے، امین سیانی تھے – وہ لیجنڈری میزبان، جن کے انتقال نے ثقافتی تاریخ میں ایک خلا چھوڑ دیا ہے۔
1932 میں ممبئی میں پیدا ہونے والے سیانی کا سفر ہندی سے شروع نہیں ہوا تھا، جس زبان میں وہ بہت مہارت رکھتے تھے، تاہم اپنی نوجوانی میں انگریزی ریڈیو پروگراموں سے شروعات کی تھیں۔
امین سیانی کا سفر ہندی ریڈیو کی دنیا سے دور ایک گجراتی گھرانے میں شروع ہوا۔ تاہم، قسمت کی وجہ سے وہ 1951 میں اپنے پہلے ہندی اشتہار تک پہنچے۔ اس موقع نے ایک ایسا جذبہ جگایا جو چھ دہائیوں اور ان گنت پروگراموں پر محیط ہوا۔
1952 میں شروع ہونے والا ’بناکا گیت مالا‘ ان کی شناخت بن گیا۔ صرف ایک میوزک شو سے زیادہ، یہ ایک ثقافتی پروگرام تھا، جو سیانی کے بصیرت افروز تبصروں، مزاحیہ کہانیوں اور ہمیشہ موجود ’بہنو اور بھائیو‘ سے بُنا ہوا تھا۔
مزاح اور بصیرت افروز کہانیوں کے ساتھ مل کر موسیقی کے ساتھ بلا روک ٹوک کمنٹری کرنے کی ان کی صلاحیت نے ہر ہفتے لاکھوں لوگوں کے لیے ایک شاندار تجربہ پیدا کیا۔
ان کی آواز میں گونج تھی، جس نے انہیں ملک بھر میں رہنے والوں کا ایک قابل اعتماد ساتھی بنا دیا۔ صنعت میں ان کی خدمات کو پدم بھوشن اور پدم وبھوشن جیسے باوقار ایوارڈوں سے تسلیم کیا گیا تھا۔
ان کا اثر تفریح سے آگے تک پھیلا ہوا تھا۔ سیانی سماجی مسائل کے ساتھ احسن طریقے سے نمٹے۔ انہوں نے ریڈیو سے ٹیلی ویژن تک منتقلی کو بلاروک ٹوک آگے بڑھایا اور ’سنڈے سسپنس‘ اور ’چرچا پر چرچا‘ جیسے مختلف پروگراموں کو اپنی آواز دی۔
انہوں نے 42 سال سے زیادہ عرصے تک ہندی فلموں میں دکھائے جانے والے گانوں کا پروگرام کیا، جس سے مبصرین کے مطابق ثقافت میں فلمی موسیقی کو ایک مقام حاصل کرنے میں مدد ملی۔
امین سیانی نے 1951 میں ریڈیو سیلون سے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے اپنے منفرد اسٹائل کی وجہ سے جلد ہی شہرت پائی اور پھر نصف صدی تک انوکھے رنگ ڈھنگ کے ساتھ فلمی گیتوں کے متوالوں کے کانوں میں اپنی مخملی آواز سے رس گھولتے رہے۔
امین سیانی کا شمار نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیا کے ان براڈکاسٹرز میں ہوتا ہے، جن کے انداز اور طرزِ گفتگو کو ان کے بعد آنے والوں نے اپنانے کی کوشش کی۔
جس زمانے میں میوزک چارٹس کا وجود بھی نہیں تھا، امین سیانی اپنے شو میں گانوں کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ سننے والے ان گیت کے سُروں کے ساتھ ان کی گفتگو سے بھی محظوظ ہوتے تھے۔
’آپ کا میزبان امین سیانی‘ کے نام سے مشہور ہونے والے براڈکاسٹر ایک ہفتے کے دوران پسند کیے جانے والے گانوں کو پروگرام پیش کرتے تھے، جس میں 10 گانے شامل ہوتے تھے۔ ان کی پیش کش کی وجہ سے گیتوں کے ساتھ وہ فلمیں بھی مشہور ہوجاتی تھیں، جن سے گیتوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔
اکیس دسمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے امین سیانی ’بِناکا گیت مالا‘ سے قبل بطور انگلش براڈکاسٹر ریڈیو سے منسلک تھے۔
جب انہوں نے ریڈیو کی دنیا میں قدم رکھا تو ان کی آواز کا جادو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسٹار بن گئے
امین سیانی نے اپنے کیریئر کا آغاز ’آل انڈیا ریڈیو‘ ، ممبئی سے بطور ریڈیو پریزنٹر کیا تھا۔ وہاں ان کے بھائی حامد سیانی نے ان کا تعارف کرایا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے وہاں دس سال تک انگریزی پروگراموں میں حصہ لیا، پھر آل انڈیا ریڈیو کو ہندوستان بھر میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا
1952 میں شروع ہونے والے ’بناکا گیت مالا‘ کی شروعات کی اپنی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے؛ ایک غیر ملکی اشتہاری کمپنی کے ایک اہلکار ڈینئیل مولینا نے ’ریڈیو سیلون‘ پر صارفین کے لیے ہندی فلمی گانوں کی ایک سیریز کی منصوبی بندی کی تھی، یہ کمپنی ’ بناکا ‘ نام کا ٹوتھ پیسٹ بھی بناتی تھی۔ امین سیانی کے بھائی حامد سیانی ’ریڈیو سیلون‘ پر اُسی کمپنی کے لیے انگریزی گانوں کا پروگرام کامیابی کے ساتھ پیش کر رہے تھے، لیکن ہندی گانوں کے پروگرام کی نظامت کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا، کیونکہ اس میں صرف پچیس روپیے ملنے تھے۔ حامد سیانی نے امین سیانی کو تیار کیا اور ’بناکا گیت مالا‘ کا سفر شروع ہو گیا ، جو بیالیس برس تک جاری رہا
اس شو میں بعد میں لوگوں کے من پسند گانے پیش کیے جانے لگے، اور سُننے والے یہ جاننے کے منتظر رہنے لگے کہ کون سا گانا کِس پائیدان پر ہے۔ اس پروگرام کی مقبولیت کا سبب امین سیانی کی مخملی آواز تھی، ان کا انداز تھا، ان کا مذکورہ جملہ تھا۔
امین سیانی کے اس پروگرام کے بعد ہندی فلمی گیتوں کا کوئی بھی ریڈیو پروگرام ایسا مقبول نہ ہو سکا۔ بہت سے لوگوں نے امین سیانی کی نقل اتارنے کی کوشش کی، لیکن نقل کبھی اصل پر بھاری نہ پڑ سکی۔ امین سیانی لفظوں کی ادائیگی کے ماہر تھے، اردو زبان کے الفاظ اس خوبی سے ادا کرتے تھے کہ سُننے والے مسحور ہو جاتے تھے۔ امین سیانی کے نام پر 54 ہزار سے زیادہ ریڈیو پروگرام تیار کرنے ، موازنہ کرنے اور وائس اوور کرنے کا ریکارڈ ہے ۔ تقریباً 19 ہزار جِنگلز کو آواز فراہم کرنے پر امین سیانی کا نام ’لمکا بک آف ریکارڈز‘ میں بھی درج ہے ۔
اسے مزید مقبول بنانے کے لیے امین سیانی نے ایک اور موثر اقدام کیا۔ وہ یہ کہ سننے والوں سے تجرباتی طور پر ایک مقابلہ جاتی سوال بھی کیا جانے لگا۔ جس کا صحیح جواب ملنے پر سو روپے کا انعام دیا جاتا تھا۔ انعام پانے کی لالچ میں ملک کے کونے کونے سے ہر ہفتے ہزاروں خطوط پہنچنے لگے۔ ان خطوں کی تعداد نو ہزار سے بڑھ پچاس ہزار فی ہفتہ جا پہنچی تھی۔
سوال فلم سے ہی متعلق ہوتے تھے۔ مثلاً کس اداکار پر کسی فلم میں یہ گانا فلمایا گیا تھا؟ یا اس موسیقار کا اصلی نام کیا ہے؟ یا اس کی پہلی فلم کون سی تھی وغیرہ۔ اس طرح لوگوں کو ایک جانب تو صحیح معلومات حاصل ہو جاتی تھیں اور سننے والوں کو انعام بھی مل جایا کرتا تھا۔ بناکا گیت مالا کی روز افزوں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے امین سیانی نے ایک تجویز پیش کی اور ریڈیو سیلون اتھارٹی نے اس تجویز کے مطابق 6/جنوری 1954 کو آدھے گھنٹے سے بڑھا کر بناکا گیت مالا کو ایک گھنٹے کا کر دیا۔ ہر بدھ کی رات کو آٹھ بجے سے نو بجے تک کا وقت اس پروگرام کی نشریات کے لیے وقف کر دیا گیا۔ اسی سال سے اس پروگرام کو گیتوں کی Hit parade کی شکل بھی دے دی گئی۔ اب سات گانوں میں اضافہ کیا جا کر 16 گانے نشر ہونے لگے۔ ان متخب گیتوں کو 16 سے ایک تک کا سلسلہ نمبر دیا گیا جنہیں امین سیانی نے "پائدان” کا عنوان دیا اور یہ عنوان بھی نہ صرف عام بلکہ خاص سنے والوں میں بھی زبان زد عام ہو گیا۔ ان 16 گیتوں کو ان کے ریکارڈ کی فروختگی اور عوام میں مقبولیت کے مطابق بجایا جاتا تھا۔ یعنی معمول کے مطابق کم مقبول گیت کو 16 ویں پائدان پر رکھا جاتا تھا اور اسی مقبولیت کی بنیاد پر باقی گیتوں کو نمبر کے حساب سے پائدان دی جایا کرتی تھی اور اس ہفتے جو سب سے مقبول گیت ہوتا تھا اسے پہلی پاندان پر بجایا جاتا تھا۔ یہ اس بات کی تصدیق ہوتی تھی کہ پہلی پائدان پر بجنے والا گیت ملک بھر میں فروختگی کے لحاظ سے سب سے مقبول گیت ہے۔
بناکا گیت مالا کو جب شروع کیا گیا تو اس میوزیکل پروگرام کے لیے بہت غور و فکر کے ساتھ علامتی دھن کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا، یعنی جب پروگرام شروع ہو تو اس دن کو سب سے پہلے بجایا جائے۔ یہ اسی طرح تھا کہ جیسے کسی بادشاہ کی آمد پر باوقار الفاظ میں اعلان کیا جاتا تھا۔ یا آج کے دور میں مارچ پاسٹ کے وقت یا پرچم کشائی کے موقع پر علامتی دھن بجائی جاتی ہے۔ یہ علامتی دهن یعنی Signature Tune ، سن 1952 کی ایک فلم "آسمان” کے گیت "پوں پوں پوں پوں باجا بولے، ڈھولک بولے دھن دھن دهن” سے لی گئی تھی۔ پنچولی پروڈکشن بمبئی کی اس فلم کے ہدایت کار دل سکھ ایم پنچولی تھے۔ اور موسیقار تھے او پی نیر جن کی یہ پہلی فلم تھی۔ اس بول کے گیت کار تھے پریم دھون اور پلے بیک دیا تھا گیتا دت اور ساتھیوں نے۔ مرکزی کردار تھے ، ناصر خان، شیاما اور ویرا۔ یہ علامتی دھن بھی مقبول ہوئی۔
یہ علامتی دھن جہاں ختم ہوتی تھی، وہاں سے فوراً سیدھی دل میں اتر جانے والی دوستانہ آواز ابھرتی:
”آواز کی دنیا کے دوستو! آپ کی خدمت میں امین سیانی کا آداب“
یہ چند ابتدائی کلمات سننے کے لیے اس دور میں لوگ اس طرح خاموش گوش بر آواز ہو جایا کرتے تھے کہ جیسے وہ آواز مجسم ان کے روبرو ہے۔ لوگ اس آواز کو سن بھی رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ یہ آواز تو تھی اس پروگرام کی روح لیکن علامتی دھن بھی اس کی بالکل الگ پہچان قائم کر گئی۔ تقریباً بیس سال تک یہی علامتی دھن بجائی جاتی رہی اور پھر 1970ء میں اسے بدل دیا گیا۔
چونکہ یہ وہ دور تھا جب آٹھویں دہائی تک ٹیپ ریکارڈس اور نویں دہائی کے آخر تک ٹیلی ویژن کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ صرف ریڈیو ہی تفریح کا عام ذریعہ تھا۔
غور کیا جائے تو ساتویں دہائی تک ریڈیو بھی ہر گھر تک نہیں پہنچا تھا۔ اسی وجہ سے لوگ ایسی دوکانیں تلاش کرتے تھے اور دوکاندار سے دوستی گانٹھتے تھے، جس دوکان پر ریڈیو ہوتا تھا۔ ایک جانب تو دوکاندار خود بھی بناکا گیت مالا سنے کا شوقین ہوتا تھا ، دوسرے پان بیڑی سگریٹ کی بکری عام دنوں کی بنسبت اس دن زیادہ ہی ہو جایا کرتی تھی۔
بناکا گیت مالا کے امین سایانی نے گانوں کی مقبولیت کا جو پیمانہ وضع کیا تھا، سب سے تعجب خیز عمل یہ ہے کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ ماہرین بھی اسی پیمانے کو صحیح اور آخری مانتے تھے، کبھی کسی نے معمولی اعتراض بھی نہیں کیا۔ اسی کے ساتھ اور یہی تسلیم شدہ اعتراف بناکا گیت مالا کی ہر دلعزیز مقبولیت کا سب سے بڑا راز تھا۔
بناکا گیت مالا کے زیادہ تر پروگرام امین سایانی نے ہی پیش کیے لیکن اکثر ایسا بھی ہوا کہ امین سایانی ملک سے باہر چلے گئے یا کسی اہم مصروفیت کی وجہ سے پروگرام ان کی آواز سے محروم رہ گیا تو ان کی جگہ ریڈیو سیلون کے منوہر مہاجن یا شیوکمار سروج نے اپنی آوازوں میں پروگرام پیش کیا۔ پروگرام کو دلچسپ بنا کر پیش کرنے میں یہ دونوں اپنی جانب سے بھرپور کوشش کرتے تھے کہ امین سایانی کی کمی محسوس نہ ہو۔ ان دونوں کے علاوہ وجے کشور دوبے اور برج بھوشن کے بھی امین سایانی کی غیرموجودگی میں اپنی آوازوں کا استعمال کیا تھا۔ لیکن امین سایانی کی آواز کا سحر ہر ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ ان کی کمی سے پروگرام نشر تو ہو جایا کرتا مگر اس دلچسپی میں کمی بھی واقع ہو جایا کرتی تھی۔ 41 سال میں صرف 30 بار ایسے مواقع آئے جب امین سایانی نے بناکا گیت مالا کو اپنی آواز کی طلسماتی صدا سے محروم رکھا۔
آٹھویں دہائی تک ٹیپ ریکارڈس اور آڈیو کیسٹس کا چلن عام ہو چکا تھا۔ آڈیو کیسٹس کے توسط سے فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ غیر فلمی گیتوں نے بھی عوام میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی، کچھ غیر فلمی گانے تو فلمی گانوں سے بھی زیادہ شہرت حاصل کرنے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1981 سے ان غیرفلمی گیتوں کو بھی بناکا گیت مالا میں شامل کیا جانے لگا تھا جن کی مقبولیت فلمی گیتوں کی طرح ہو رہی تھی۔ غیرفلمی گیتوں کی شمولیت کا یہ سلسلہ 12/اگست 1981 کو نشر ہونے والے گیت مالا سے شروع ہوا۔ پہلی بار جس غیر فلمی گیت نے بناکا گیت مالا میں شمولیت حاصل کی وہ ودو کی بنائی گئی طرز پر نازیہ حسن کا گایا گیت "ڈسکو دیوانے آہا آہا” تھا اور اسی البم میں شامل نازیہ حسن کا دوسرا گیت "آؤ ناں ڈانس کریں” بناکا گیت مالا میں کئی ہفتوں تک پیش ہوا اور 1981 کے سالانہ جشن میں بھی ان دونوں گیتوں نے جگہ حاصل کی تھی۔
نازیہ حسن پاکستانی نیشنل تھیں اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی گلوکارہ کا پہلا غیرفلمی گیت بناکا گیت مالا میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ نازیہ حسن کے بعد جو دوسرا پاکستانی گلوکار اس میوزیکل گیت مالا میں اپنی گلوکارانہ خصوصیت، کیسٹس کی فروختگی اور عوام میں مقبولیت کی وجہ سے شامل ہوا وہ تھا: حسن جہانگیر۔
حسن جہانگیر کا گایا ہوا غیر فلمی گیت "ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لٹا دے” تھا۔ یہ گیت 1989 کے بناکا گیت مالا میں بجایا گیا تھا اور 24 و 31/اگست 1986 کے گیت مالا میں اس گیت کو پہلی پائدان پر پہنچنے کا فخر بھی حاصل رہا تھا۔ اس کے علاوہ یہ پہلا غیرفلمی گیت تھا جو لگاتار پچیس ہفتوں تک پیش ہونے کے بعد "سرتاج گیت” کا خطاب پانے میں کامیاب رہا تھا۔ سالانہ پروگرام میں اس گیت کو نویں پائدان پر قدم جمانے کا موقع بھی ملا تھا۔
ایک گھنٹے کے اس پروگرام میں دو یا تین بار ہی چند سیکنڈ کا پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا اور امین سیانی کا کمال تھا کہ وہ اس خشک اشتہاری موضوع کو بھی بہت دلچسپ بنا کر پیش کرتے تھے کہ سننے والا بے اختیار غیرمحسوس طور پر متاثر ہو جاتا تھا۔
امین سایانی بلاشبہ اس دور کے سب سے اہم ، سب سے بڑے اور سب سے زیاده ہر دلعزیز میزبان ثابت ہوئے تھے۔ یہ ایسی شخصیتوں میں شمار ہوئے جن میں علم و دانائی بھی پائی جاتی تھی اور فہم و عقل بھی، جو تجارتی اصولوں سے واقف رہ کر بھی اپنے وضع کردہ اصول سے منحرف نہیں ہوتے، جن کی ذات میں ایک تہذیبی نظام قائم رہتا ہے۔ جن کی بصیرت پر بیرونی ہوائیں دستک نہیں دیتیں۔ جن کے مزاج میں انکسار بھی ہوتا ہے اور نیاز مندی بھی، جو اپنے کردار کے خالق خود ہوتے ہیں مگر اپنے حقیقی خالق کے آگے سربسجود بھی رہتے ہیں۔
بناکا گیت مالا امین سایانی کی مرہون منت رہی۔ بناکا گیت مالا کو امین سایانی کی شخصیت سے الگ رکھ کر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چند پروگراموں میں، جن لوگوں نے امین سایانی کی غیر موجودگی میں پروگرام پیش کیے تھے، ان میں ان کی کمی کو صاف محسوس کرلیا گیا تھا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کامل 48 سال (1952ء سے 2001ء) ایک ہی شخص، ایک ہی پروگرام کو تنہا اپنے کاندھوں پر لے کر چلتا رہے اور اس کے اعصاب نہ تو مضمحل ہوں نہ اس پر تکان اترے اور نہ اس کے لہجے میں اکتاہٹ کا شائبہ جھلکے اور سننے والوں میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہو بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہے۔ یہ ایک حیرت ناک ہی نہیں تعجب خیز حقیقت ہے۔
انہوں نے بھوت بنگلہ، تین دیویاں، قتل جیسی فلموں میں بطور اناؤنسر بھی کام کیا تھا۔ ان کا فلمی ستاروں پر مبنی ریڈیو شو ’ایس کمارز کا فلمی مقدمہ‘ بھی کافی مقبول ثابت ہوا تھا ۔ لیکن کہتے ہیں کہ ہر عروج کا ایک زوال ہوتا ہے ، کوئی سبب ہوتا ہے ، امین سیانی کے پروگرام کے زوال کا سبب جدید دور کا ٹیلی ویژن بنا۔ ٹی وی نے جب چھوٹے پردے پر فلمی گیت دکھانے شروع کیے تو امین سیانی کا پروگرام اپنی کشش کھونے لگا، اور 1994 میں بند کر دیا گیا
تقریباً اڑتالیس برسوں تک بناکا گیت مالا اپنے مقررہ دن (بدھ) اور مقررہ وقت رات آٹھ بجے سے 9 بجے تک نشر ہوتا رہا۔ 27/اکتوبر 1988 سے اسے بدھ کے بجائے ہر جمعرات کی شب 9 بجے سے 10 بجے تک نشر کیا جانے لگا۔ دن اور وقت کی تبدیلی کی وجہ "دور درشن” بنا جس نے ٹھیک اسی دن یعنی بدھ کی شب فلمی گیتوں پر مشتمل اپنا پروگرام "چترہار” شروع کر دیا تھا جس کا وقت بھی آٹھ بجے رات ہی رکھا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ٹیلی ویژن اپنی ٹیلی کاسٹ سروس کی وجہ سے گھر گھر جگہ بنا چکا تھا۔ اس لیے نئی نسل کو ریڈیو میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ نظروں کے سامنے چلتی پھرتی تھرکتی گاتی تصاویر تھیں جنہیں دیکھنے اور سننے کے لیے شائق کو دو ڈھائی گھنٹے سینما گھر میں گزارنا نہیں پڑتے تھے۔ وہی چترہار جو وودھ بھارتی کی ریڈیو سروس پر سنا جا سکتا تھا، اب ٹیلی ویژن سیٹ پر دیکھا جانے لگا اس لیے لامحالہ ٹیلی ویژن کا اسکرین زیادہ پرکشش اور پرلطف ثابت ہوا۔
بناکا یا بعد کے دور کا کولگیٹ سباکا گیت مالا نے بالآخر ٹیلی ویژن کے بڑھتے رجحان کو بحالت مجبوری قبول کر لیا اور اکتالیس سال کا ہوشربا کن اختتام ہو گیا۔
12/مارچ 1994 کو کولگیٹ سباکا گیت مالا کا آخری پروگرام امین سایانی نے ہی پیش کیا۔ اس آخری پروگرام میں جو آخری گیت پیش ہوا وہ گانا تھا:
جادو تیری نظر خوشبو تیرا بدن (فلم: ڈر)۔
28/مارچ اور 14/اپریل 1994 کو بھی جو پروگرام پیش ہوئے وہ دراصل الوداعی پروگرام تھے، جن میں امین سایانی نے گذشتہ برسوں کے ہٹ گانوں کو یپش کیا تھا۔
اور پھر وہ آواز ۔۔۔۔ وہ طلسماتی و کرشماتی آواز ۔۔۔
جس نے مکمل 41 برسوں تک گیت اور سنگیت کا ایک عہد فتح کیا تھا، جس نے ہر شائق کو اپنی آواز کا دیوانہ بنائے رکھا تھا، جس کے اندازِ بیان اور طرزِ تخاطب سے ہر شخص مرعوب رہا، جس کی پوشیدہ شخصیت سے ہر دل نے ہر نظر نے محبت کی تھی، وہ آواز وقت کے بدلتے ماحول اور شور بھرے سنگیت کے اژدہام میں گم تو نہیں ہوئی، ہاں شوریدگی کی نذر ضرور ہو گئی۔
ٹی وی نے امین سیانی کی مخملی آواز چھین لی ، لیکن امین سیانی گمنامی میں نہیں گئے ۔ یہ نام ہر گھر میں سُنا جاتا تھا ، اس لیے اسے فراموش کرنا آسان نہیں تھا۔ ان کے پروگراموں کی کیسیٹیں بازار میں آ گئیں، مگر وہ جو ’لائیو پروگرام‘ کا اپنا ایک سحر تھا، برقرار نہیں رہ سکا۔
ادھر ایک عرصہ سے امین سیانی بیمار تھے، کمر میں شدید تکلیف تھی، اس لیے واکر سے چلتے تھے، بڑھاپا الگ پریشان کیے تھا، ہائی بلڈ پریشر اور عارضۂ قلب کے بھی مریض تھے، جس نے انہیں منگل کے روز چھین لیا۔ امین سیانی کی مخملی آواز اب خاموش ہو گئی ہے
اپنے ایک انٹرویو میں امین سیانی کا کہنا تھا کہ انہیں فلمی دنیا میں آنے کا شوق تھا، جسے انہوں نے ’بناکا گیت مالا‘ کے ذریعے پورا کیا۔
انہوں نے اس پروگرام کے توسط سے اُس وقت کے تقریباً تمام ہی بڑے بالی وڈ اسٹارز کے انٹرویو کیے، جن میں دلیپ کمار، امیتابھ بچن، مینا کماری، دیو آنند اور راج کپور شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈیو سیلون میں جانے سے قبل امین سیانی نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے آڈیشن دیا تھا، جس میں انہیں فیل کر دیا گیا تھا۔
اس بات کا انکشاف انہوں نے امیتابھ بچن سے گفتگو کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں اس وقت کیا تھا، جب بگ بی نے اپنے ناکام آڈیشن کا ذکر کیا تھا۔
امین سیانی کو اداکاری کا بھی بہت شوق تھا لیکن جب بھی وہ خود پردے پر آئے تو اناؤنسر کی حیثیت سے ہی آئے۔
اپنے فنی کریئر کے دوران انہوں ریڈیو سیلون علاوہ دنیا بھر کے معروف ریڈیو نیٹ ورکس کے ساتھ کام کیا۔
ریڈیو کے ساتھ ساتھ وہ اسٹیج کمپیئرنگ سے بھی جڑے رہے اور انہوں نے ورائٹی شوز کے ساتھ ساتھ ایوارڈ فنکشن، بیوٹی شوز اور فیشن شوز میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔
انہیں ان کی فنی خدمات کی وجہ سے کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، جن میں پدما شری، انڈیا ریڈیو فورم کا لیونگ لیجنڈ ایوارڈ، لمکا بک آف ریکارڈز کا پرسن آف دی ایئر ایوارڈ اور انڈین سوسائٹی آف ایڈورٹائزرز کا گولڈ میڈل شامل ہ