سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کا روس سے کیا تعلق ہے؟

ویب ڈیسک

گذشتہ ایک ماہ کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری جانب جنگ میں آمنے سامنے روس اور یوکرین کی حکومتوں نے مختلف مواقع پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا ہے

ایک ایسے وقت میں جب روس اور یوکرین آپس میں دست و گریباں ہیں، جبکہ مغربی دنیا روس کے خلاف ہے، سعودی عرب کی روس اور یوکرین سے قربت اور امریکہ سے دوری کا کیا مطلب ہے؟

یاد رہے کہ جو بائیڈن نے تین ماہ قبل جولائی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کا بنیادی مقصد سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادہ کرنا تھا

بائیڈن نے سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے کو کہا تھا لیکن سعودی قیادت میں چلنے والی تنظیم اوپیک کے حالیہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن کے دورے کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں ہوا

آخر سعودی عرب نے امریکی ناراضگی کیوں مول لی؟ بہت سے ماہرین اسے صرف منافع کے لیے اٹھائے گئے قدم سے تعبیر کرتے ہیں

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو بیل کاہل کی رائے ہے کہ سعودی عرب ایسا کر کے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ملک کساد بازاری کا شکار نہ ہو

خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”میکرو اکنامکس کے لحاظ سے حالیہ برسوں میں یہ اب تک کا بدترین سال رہا“

”وہ جانتے ہیں کہ یہ امریکہ کو ناراض کرے گا لیکن انہیں مارکیٹ کو بھی سنبھالنا ہوگا“

سعودی عرب میں بھارت کے سفیر تلمیز احمد کا بھی ماننا ہے کہ امریکہ سیاسی وجوہات کی بنا پر تیل کی پیداوار بڑھانا چاہتا ہے لیکن سعودی عرب خالصتاً مارکیٹ کی بنیاد پر فیصلے کر رہا ہے

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تلمیز احمد کا کہنا تھا ”سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اوپیک پلس کی پیداوار مارکیٹ کے حالات سے منسلک ہے، اس لیے جب وہ محسوس کریں گے کہ طلب کم ہے تو وہ اپنی پیداوار کم کر دیں گے۔ وہ نہیں چاہتے کہ پیداوار زیادہ ہو اور اس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی واقع ہو“

سعودی عرب اور اوپیک پلس ممالک نے پیشگوئی کی ہے کہ عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے اور تیل کی طلب کم ہو سکتی ہے

تلمیز احمد کہتے ہیں ”امریکہ پیداوار میں اضافہ جاری رکھنا چاہتا ہے، اس سے قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ امریکہ میں نومبر میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں، صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ اگر قیمتیں بڑھیں تو انتخابات میں ان کے لیے مشکل ہو سکتی ہے“

دوسرا یہ کہ اس کا براہ راست اثر امریکہ کے تیل کے ذخائر پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق: جو بائیڈن پہلے ہی اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو سے بہت زیادہ تیل نکالنے کی اجازت دے چکے ہیں اور ان ذخائر میں گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے کم تیل بچا ہے۔ طوفان یا جنگ جیسی قدرتی آفت کی صورت میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے

سعودی عرب کا حالیہ کردار

سعودی عرب کے حالیہ کردار اور اس کے امریکہ سے تعلقات کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو منظر نامہ کچھ یوں ہے:

15 جولائی 2022: امریکی صدر جو بائیڈن نے حالیہ دورہ مشرق وسطی کے دوران کہا ’سعودی عرب نے ہماری ضروریات کو سمجھ لیا ہے اور امید ہے کہ آنے والے ہفتوں میں بہتر تعلقات کی طرف قدم اٹھائے جائیں گے‘

3 اکتوبر 2022: یوکرین کے صدر زیلنسکی نے یوکرین کے 215 افراد کی رہائی میں کردار ادا کرنے پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا

5 اکتوبر 2022: اوپیک پلس میٹنگ نے فیصلہ کیا کہ تیل کی پیداوار میں بیس لاکھ بیرل یومیہ کمی کی جائے گی

5 اکتوبر 2022: اس پر امریکہ کا ردعمل کچھ یوں آیا ’یہ واضح ہے کہ اوپیک پلس روس کے ساتھ ہے‘

6 اکتوبر 2022: بائیڈن نے سعودی عرب کے فیصلے کو ’مایوس کن‘ قرار دیا

تو کیا یہ روس کی طرف جھکاؤ ہے؟

امریکہ کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کا جھکاؤ روس کی طرف بڑھ گیا ہے

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کارائن جین پیئر نے حالیہ بیان میں کہا ’یہ واضح ہے کہ اوپیک پلس روس کے ساتھ ہے‘

انہوں نے کہا ’وہ بعد میں وضاحت کریں گی کہ اس سے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا‘

دوسری جانب روس نے بھی اوپیک پلس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن سعودی وزیر عادل الزبیر نے فاکس نیوز کو ایک بیان میں کہا ’سعودی عرب تیل یا تیل کے فیصلوں پر سیاست نہیں کرتا‘

تلمیز احمد کا ماننا ہے کہ اوپیک پلس کے فیصلے کو ’سعودی عرب کے روس کی طرف جھکاؤ‘ کے طور پر دیکھنا غلط ہوگا

وہ کہتے ہیں ”امریکہ کی جانب سے جو بیانات آ رہے ہیں، وہ ایک طرح سے دھمکی کی طرح ہیں کہ اگر آپ وہ نہیں کریں گے، جو ہم چاہتے ہیں تو ہم آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے“

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سعودی عرب کا جھکاؤ روس کی جانب ہو رہا ہے

تلمیز احمد کہتے ہیں ”1945 سے لے کر پچھلے سال تک سعودی عرب ہر طرح سے امریکہ کا حامی تھا۔ سعودی عرب جانتا تھا کہ امریکہ ان کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے لیکن ٹرمپ کے چار سال میں یہ تاثر بدل گیا“

انہوں نے کہا ”اس کے ساتھ ہی، سعودی عرب ایک بالغ طاقت بن گیا ہے۔ اس میں اب پہلے جیسی گھبراہٹ نہیں رہی۔ خارجہ پالیسیوں پر اس کا مؤقف اب اعتماد سے بھرپور ہے۔ اس نے اب ایران اور ترکی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی ہے۔ جولائی میں جب بائیڈن نے دورہ کیا تو انہوں نے سوچا کہ حالات ویسے ہی ہوں گے، جیسے وہ چاہتے ہیں، یہ غلط رویہ تھا“

بائیڈن نے اپنے دورے کے بعد ’آنے والے ہفتوں میں کچھ اقدامات‘ کی امید بھی ظاہر کی تھی

تلمیز احمد کے مطابق ”مجھے نہیں لگتا کہ وہ روس کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ بھارت جس طرح سیاسی خود مختاری کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، سعودی عرب اب وہی کام کر رہا ہے“

روس اور یوکرین کی جنگ میں سعودی عرب کس کے ساتھ ہے؟

روس یوکرین جنگ کے دوران سعودی عرب نے یوکرینی قیدیوں کی رہائی میں ثالثی کی، جس پر یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بھی شکریہ ادا کیا

تلمیز احمد کا خیال ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اس جنگ میں کسی کے ساتھ نہیں

ان کا کہنا ہے ”سعودی عرب جنگ میں کسی کا ساتھ دینے کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ اسی لیے وہ نہ کسی کی حمایت کر رہا ہے اور نہ ہی کسی کی مخالفت کر رہا ہے۔ قیدیوں کی رہائی جیسی صورتحال میں وہ ثالثی کا کردار ضرور ادا کرے گا“

احمد کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے فیصلے اس کی مالی طاقت کی علامت ہیں

امریکہ کیا کر سکتا ہے؟

اس حوالے سے سیاسی ماہر ڈین ایبر ہارٹ فوربز جریدے کے لیے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے دوبارہ کوششیں شروع کر دی ہیں“

ایبر ہارٹ کا خیال ہے کہ امریکہ کے پاس اب پیداوار بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں

جبکہ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وینزویلا سے پابندیاں بھی اٹھا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومت نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا

واضح رہے کہ وینزویلا نوے کی دہائی میں تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک تھا لیکن اس کے بعد سرمایہ کاری کی کمی، بدعنوانی اور بدانتظامی کی وجہ سے اسے کافی نقصان پہنچا۔ رہی سہی کسر امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں نے پوری کردی

تاہم، قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین ویسٹن نے کہا ہے کہ جب تک وینزویلا اصلاحی اقدامات نہیں کرتا، ’امریکی پابندیوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘

لیکن اگر غور کریں تو قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کے بیان کے بین السطور وینزویلا سے متعلق امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ ہی جھلکتا ہے۔ اور یہ سب کچھ واضح کرتا ہے کہ وہ سعودی عرب سے تیل کے معاملات میں اپنی شرائط منوانے میں ناکام رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close