کیا آپ سمپورن سنگھ کالڑا کو جانتے ہیں؟ شاید نہیں جانتے ہونگے۔۔ لیکن گلزار کو نہ جانتے ہوں، ایسا ممکن نہیں۔۔ گلزار کے نام سے جانے جانے والے مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ، معروف شاعر، ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، منفرد فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار کا اصل نام سمپورن سنگھ کالڑا ہے، دع روز قبل ان کی 90ویں سالگرہ منائی گئی۔
شاعر، افسانہ نگار، گیت کار، فلم اسکرپٹ رائٹر، ڈراما نویس، پروڈیوسر، مکالمہ نگار، ہدایت کار، دانشور اور ہر میدان عمل میں اپنی انفرادیت اور جدّت طرازی کے لئے مشہور گلزار کی شخصیت عجوبہِ روزگار ہے۔ ان کا فن، خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں، دراصل زندگی کے مشاہدات کو شاعرانہ احساس کی پلکوں سے چن کر، انہیں حرف و صوت کا جامہ پہنانے کا طلسماتی عمل ہے۔
انڈین سنیما کے سب سے بڑے ’دادا صاحب پھالکےایوارڈ‘ ، ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ ، گریمی ایوارڈ، اکیس مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ، انڈیا کے قومی یکجہتی کے اندرا گاندھی ایوارڈ، ادب کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور ہندوستان کے تیسرے سب سے بڑے سویلین خطاب ’پدم بھوشن‘ سے نوازے جا چکے گلزار خود کو ادیب و شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ کاغذ پر پختہ روشنائی سے چَھپے لفظ کی عمر سلولائڈ پر مرتسم تصویروں اور آوازوں سے زیادہ پُر اثر اور دیرپا ہوتی ہے۔
مشاعروں اور محفلوں سے ملی شہرت اور کامیابی نے موٹر میکینک کا کام کرنے والے گلزار کو گزشتہ دہائیوں میں فلمی دنیا کا ایک مشہور ومعروف شاعر اور نغمہ نگار بنا دیا ہے۔ اردو شاعری کو ایک نئی جہت دینے والے ہندوستان کے مشہور نغمہ نگار اور ہدایتکار گلزار ضلع جہلم (اب پاکستان) کے ایک چھوٹے سے قصبے دینہ میں کالڑا اروڑہ سکھ خاندان میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے مکھن سنگھ کے گھر 18 اگست 1934 کو پیدا ہوئے۔
ان کے والد کپڑے چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ گلزار کی والدہ کا انتقال تبھی ہو گیا تھا، جب وہ دودھ پیتے بچے تھے اور سوتیلی ماں کا سلوک ان کے ساتھ اچھا نہیں تھا، اس لئے گلزار اپنا زیادہ وقت باپ کی دکان پر گزارتے تھے۔
تخلیقی ذہن کے مالک گلزار کو نصابی کتابوں سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ انٹرمیڈئیٹ میں فیل بھی ہوئے۔ سمپورن سنگھ کالڑا (گلزار) کو اسکول کے دنوں سے ہی شعر و شاعری اور موسیقی کا بے حد شوق تھا۔ کالج کے دنوں میں ان کا یہ شوق مزید بڑھا اور وہ اکثر مشہور ستار نواز روی شنکر اور سرود نواز علی اکبر خان کے پروگراموں میں جانے لگے۔
ان کے پسندیدہ لکھاریوں میں رابندر ناتھ ٹیگور اور شرت چند شامل تھے۔ دراصل اسی بنگلہ- پنجابی پیوند کاری سے جو چمن آباد ہوا، اس کا نام گلزار ہے۔
1947ع میں ہندوستان کی تقسیم کی ہولناکیوں سے گزرتے ہوئے گلزار کا خاندان پہلے امرتسر اور پھر دہلی میں خیمہ زن ہوا۔ دہلی میں یہ لوگ سبزی منڈی کے علاقہ میں رہتے تھے۔ گلزار کی تعلیم کا خرچ مکھن سنگھ برداشت کرنے سے قاصر تھے، اس لئے بیٹے کو اک پٹرول پمپ پر ملازمت کرنی پڑی۔
کچھ عرصہ بعد گلزار کے بڑے بھائی ممبئی منتقل ہو گئے۔ گلزار بھی اُن کے ساتھ ممبئی چلے آئے، بھائی کے ساتھ بن نہ سکی تو اپنی راہ لی۔
یہ کہانی شروع ہوتی ہے ممبئی کے ایک موٹر گیراج سے، جہاں نوجوان سمپورن سنگھ غمِ روزگار کے لیے گاڑیوں پر رنگ کیا کرتا تھا، فرصت ملتی تو کبھی کرشن چندر تو کبھی راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں سے زندگی کے رنگ کشید کرتا، نثر سے جی اُکتا جاتا تو شاعری پڑھنے لگتا اور کبھی کبھی تو جی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کچھ لکھ بھی لیتا۔ یوں وہ گاڑیوں کو رنگتے رنگتے سپنے دیکھنے لگے اور پھر اُن کی تعبیر بھی پانے میں کامیاب رہے۔
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب انجمنِ ترقی پسند مصنفین کا اتوار کو ہونے والا ہفتہ وار اجلاس ادب سے شغف رکھنے والے نوجوانوں کی ادبی آبیاری کرنے کا اہم ترین ذریعہ تھا۔ گلزار اکثر انجمن کے اجلاس میں چلا جاتا اور جب کرشن چندر کے پڑھے گئے افسانے پر ظؔ انصاری تنقید کرتے ہوئے کہتے، ”کرشن دیکھو، اس میں ادیب جھلکتا ہے، ادیب بولتا ہے، کردار نہیں بولتا۔“ تو نوجوان سمپورن حیران ہوتا کہ کرشن چندر پر بھی کوئی تنقید کر سکتا ہے!
ہفتہ بھر کام کرنے کے بعد انجمن کا یہ اجلاس نوجوان ذہنوں کے لیے روزمرہ کے معمول سے نجات کا ایک ذریعہ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کی ادبی وفکری آبیاری بھی ہوتی تھی۔ ظاہر ہے اس ماحول میں نوجوان سمپورن کی ادب میں دلچسپی بڑھنے لگی۔ گاڑیوں کو رنگتے ہوئے دو مختلف رنگوں سے ایک اور رنگ تخلیق کرنے والے گلزار نے اب اپنے خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لینا شروع کیا۔
دہلی ہو یا بمبئی، گلزار کو شاعر بننے کی دھن تھی اور یہی ان کی اصل محبت تھی۔ بمبئی آ کر گلزار نے ادبی حلقوں میں اثر رسوخ بڑھایا، وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے۔ اس طرح انہوں نے کئی ادیبوں سے تعلقات پیدا کر لئے تھے، جن میں ایک شیلندر بھی تھے جو اس وقت جانے مانے فلمی گیت کار تھے، اور ان کی کہانی بھی گلزار سے کچھ مختلف نہ تھی
شیلندر کے فلمی گیت نگار بننے کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ان کا خاندان بھی راولپنڈی چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا تھا۔ ماں کی ناگہانی موت نے شیلندر کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ یوں بھی وہ ایک حساس طبیعت کا مالک تھا۔ اسکول کے زمانے سے ہی وہ شاعری میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ گھر میں ہر طرف افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے شیلندر نے بمبئی ریلوے یارڈ میں بطورِ ویلڈر کام کرنا شروع کر دیا
اسی دوران شیلندر معاشرے میں زورآوروں اور کمزوروں کے درمیان فرق اور اس فرق کی وجوہ جاننے کا موقع ملا۔ اس کے سماجی شعور کو مزید تقویت اس وقت ملی جب وہ انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن (IPTA) میں شامل ہو گیا۔ اس گروپ کا واضح جھکاؤ بائیں بازو کی طرف تھا۔ اس سے وابستہ افراد سماجی تفریق کی وجہ ذرائع کی غیر منصفانہ تقسیم کو قرار دیتے تھے۔ IPTA ان نوجوانوں کی تنظیم تھی جو آرٹ برائے زندگی کے قائل تھے۔ شیلندر کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ جن دنوں وہ ویلڈر کے طور پر کام کرتا تھا ویلڈنگ کے دوران اڑنے والی آگ کی چنگاریوں سے اس کی قمیص پر سوراخ بن جاتے تھے۔ اس مشقت کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری کا شوق دبا نہیں تھا۔ جب بھی وقت ملتا وہ شعر کہتا اور دوستوں کی محفل میں سناتا۔ اس رات بھی ایک ایسی ہی محفل تھی۔ مشاعرے کا آغاز تھا جب شیلندر کا نام پکارا گیا۔ تب شیلندر کی شہرت کو ابھی پَر نہیں لگے تھے۔
شیلندر نے اس روز مشاعرے میں اپنی نظم ’جلتا ہے پنجاب‘ سنائی۔ نظم کیا تھی لوگوں کے دلوں کی آواز تھی۔ اسی محفل میں معروف فلمساز اور اداکار راج کپور بھی بیٹھے تھے۔ نظم کا ایک ایک شعر ان کے دل میں اتر رہا تھا۔ ان دنوں وہ اپنی فلم ’آگ‘ بنا رہے تھے، جو بعد میں 1949ء میں ریلیز ہوئی۔ راج کپور مشاعرے کے بعد شیلندر سے ملے اور اسے کہا: ”میں تمہاری نظم اپنی فلم ’آگ‘ میں استعمال کرنا چاہتا ہوں اور اس کی قیمت بھی ادا کروں گا“ لیکن شیلندر نے، جو ان دنوں IPTA کے نظریاتی حصار میں تھا اور ہندوستان کے مین اسٹریم سینما کو وقت کا ضیاع سمجھتا تھا، نظم دینے سے انکار کر دیا۔ اس انکار سے راج کپور کو حیرت تو ہوئی؛ تاہم اس کے دل میں شیلندر کا مقام اور بڑھ گیا۔۔
لیکن یہ زندگی ہے، جس میں بعض اوقات حالات کی سختی نظریات کی برف کو پگھلا دیتی ہے اور آدرش کے سپنوں میں بھی دراڑ پڑ جاتی ہے۔ ہوا یوں کہ شیلندر کی بیوی سخت بیمار پڑ گئی۔ ہسپتال میں مناسب علاج کے لیے خاصی رقم درکار تھی۔ شیلندر کے دوست بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اسے ادھار دے سکتے۔ اس کسمپرسی کے عالم میں اچانک امید کی ایک کرن جاگی۔ اس کے ذہن میں مشاعرے کی رات ملنے والے راج کپور کا چہرہ آ گیا اور پھر ضرورت کی زنجیر اسے راج کپور کے دروازے پر لے آئی۔ راج کپور نے، جو پہلے ہی شیلندر کو پسند کرتا تھا، شیلندر کی بات سنی اور اسے پانچ سو روپے دیے۔ پانچ سو کی رقم اس زمانے میں اچھی خاصی تھی۔ شیلندر نے بیوی کا علاج کرایا اور وہ صحت یاب ہو گئی۔ جب شیلندر رقم کی واپسی کے لیے راج کپور کے گھر گیا تو راج کپور نے ایک بار پھر اس سے درخواست کی کہ وہ اس کی فلم کے لیے گیت لکھے۔ شیلندر کے دل میں راج کپور کی تکریم بڑھ گئی تھی کہ اس نے مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا۔ شیلندر نے گیت لکھنے کی ہامی بھر لی۔ راج کپور کی فلم ”برسات‘‘ زیرِ تکمیل تھی۔ شیلندر نے پانچ سو کے عوض فلم کے دو گیت لکھنے کا معاہدہ کر لیا اور یہی دو گیت شیلندر کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئے۔
سمپورن کی طرح شیلندر نے بھی ہجرت کا غم سہا تھا۔ دونوں میں جلد دوستی ہو گئی۔ گلزار کی لیجنڈ موسیقار، کہانی کار اور گیت نگار سلیل چوہدری سے بھی ان دنوں ہی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ وہی سلیل چوہدری ہیں، جنہوں نے عظیم بنگالی ہدایت کار بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کی ناصرف کہانی لکھی تھی بلکہ اس کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔
’دو بیگھہ زمین‘ انڈین سنیما کی اولین حقیقت پسندانہ رجحانات کی حامل فلم ہے، جس میں راولپنڈی کے ہی بلراج ساہنی نے شمبھو کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔
1960 کی دہائی کے اوائل میں مشہور فلمساز بمل رائے ’بندنی‘ بنا رہے تھے، جس کے میوزک ڈائریکٹر مایہ ناز موسیقار ایس ڈی برمن اور گیت کار شیلندر تھے۔ اتفاق سے کسی بات پر برمن کی شیلندر سے ان بن ہو گئی اور شیلندر روٹھ کر ان سے الگ ہو گئے۔ لیکن اس فلم سے اپنی جذباتی وابستگی کی وجہ سے انہوں نے گلزار سے کہا کہ وہ اس فلم کے لئے گیت لکھنے کے لئے بمل رائے سے ملیں۔ بمل رائے نے ابتدائی تأمل کے بعد صورتحال سمجھا کر ایک گانا لکھنے کا کام گلزار کو سونپ دیا۔
اس طرح گلزار نے اپنا پہلا گانا ’مورا گورا انگ لیئ لے، موہے شیام رنگ دیئی دے‘ لکھا، جو ایس ڈی برمن اور بمل رائے کو بہت پسند آیا اور بعد میں خاصا مشہور بھی ہوا۔ یہ اس فلم میں گلزار کا لکھا ہوا اکلوتا نغمہ تھا کیونکہ بعد میں شیلندر اور ایس ڈی برمن کی صلح ہو گئی تھی۔
دوسری جانب بمل رائے کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اک ہونہار نوجون اک موٹر گیرج میں کام کرے، لہٰذا انہوں نے گلزار کو وہ ملازمت ترک کرنے کا حکم دیا اور اپنا اسسٹنٹ بنا لیا۔ غالباً یہاں بمل رائےکی بنگالیت اور بنگالی زبان سے گلزار کی محبت نے اپنا رنگ دکھایا تھا۔ گلزار کا کہنا ہے کہ وہ بمل رائے کے اس مخلصانہ طرز عمل پر رو پڑے تھے۔
بمل رائے کو سمپورن کا موٹر گیراج میں کام کرنا اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے نوجوان سمپورن سے کہا کہ وہ ہدایت کاری کی جانب آ جائیں مگر سمپورن کے لیے اس وقت یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ وہ تو صرف اور صرف ادب ہی تخلیق کرنا چاہتے تھے، جس پر بمل رائے نے ان کو اپنے اسسٹنٹ کے طور پر رکھ لیا۔
بات شیلندر کی ہو رہی تھی، جن کی حوصلہ افزائی پر ہی نوجوان سمپورن نے گیت نگاری شروع کی۔ وہ مگر ابتدائی فلموں میں کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جن میں یادگار فلم ’کابلی والا‘ بھی شامل ہے۔ یہ بلراج ساہنی کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور اس کے گیت نگاروں میں پریم دھون بھی شامل تھے جو تقسیم سے قبل عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کے معاون رہ چکے تھے۔
تاہم سال 1963میں ریلیز ہونے والی بمل رائے کی یادگار فلم ’بندنی‘ کے لیے گلزار کا لکھا گیت ’مورا گورا انگ لئی رے‘ سراہا گیا، جس کی موسیقی عظیم موسیقار ایس ڈی برمن نے دی تھی، جب کہ لتا جی نے اپنی آواز دی تھی۔ یہ بمل رائے کی آخری فلم تھی تو ہندی سنیما کے مہان گیت نگار، کہانی کار اور ہدایت کار گلزار کو اسی فلم کے ذریعے نئی پہچان ملی تھی اور موٹر مکینک سمپورن سنگھ کالڑا اب گلزار کے کے نام سے جانا جانے لگا تھا، جن کی جادوئی شہرت کا سفر شروع ہوا سال 1969 میں ریلیز ہوئی فلم ’خاموشی‘ سے۔ انہوں نے اس فلم کے لیے گیت ہی نہیں لکھے تھے بلکہ اس فلم کے مکالمے بھی گلزار نے ہی لکھے تھے۔
اس فلم کے شاہکار گیت، ’ہم نے دیکھی ہے اُن آنکھوں کی مہکتی خوشبو، ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو‘ نے گلزار کو اس عہد کے صف اول کے گیت نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
بمل رائے کے بعد گلزار رشی کیش مکھرجی کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے اور ان کی فلموں آشیرواد، آنند اور گڈی جیسی فلموں کے اسکرین پلے اور گیت لکھے۔ ان کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی ’آنند‘ کے لیے ہی ملا تھا جسے وصول کرنا ان کے لیے آسان ثابت نہیں ہوا اور ان کے لیے اسٹیج پر پہنچنا کسی معرکے کو سرانجام دینے سے کم نہ تھا۔
جس زمانے میں گلزار بمل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے، ان کا سامنا مینا کماری سے ہوا، جو بمل رائے کی فلم ’بے نظیر‘ کی ہیروئن تھیں۔
سال 1971 میں گلزار کے فنی سفر نے ایک نیا رُخ اختیار کیا جب فلم ’میرے اپنے‘ ریلیز ہوئی۔ یہ گلزار کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی۔ ملکۂ جذبات مینا کماری کی یہ آخری فلموں میں سے ایک تھی، جس کی ریلیز کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ جگر کے عارضے کے باعث چل بسی تھیں
کہتے ہیں کہ گلزار اور مینا کماری کا تعلق بے نام بلندیوں تک پہنچ گیا، جسے ’رشتوں کا الزام‘ دئے جانے کے گلزار خلاف ہیں۔ بہرحال یہ تعلق اس نوعیت کا تھا کہ جب مینا کماری بیمار تھیں تو گلزار وقت پر ان کو دوا پلانے کے لیے ان کے گھر پہنچتے تھے اور جب رمضان میں دن کے وقت دوا پینے سے مینا کماری نے انکار کیا تو گلزار نے ان سے کہا کہ بیماری میں ان پر روزے فرض نہیں ہیں، وہ فدیہ دے سکتی ہیں اور ان کی جگہ وہ روزے رکھیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ تب اور مینا کماری کے انتقال کے بعد بھی گلزار رمضان کے روزے رکھتے رہے۔ دوسری طرف مینا کماری نے اپنی متاعِ سخن کا وارث گلزار کو بنایا اور اپنی ڈائریاں اور کاپیاں، جن پر ان کی غزلیں اور نظمیں تھیں، گلزار کے حوالے کر دیں۔ ان کو بعد میں مدون کر کے گلزار ہی نے شائع کرایا۔ گلزار کی ہدایت میں بننے والے پہلی فلم ’میرے اپنے‘ میں مرکزی کردار مینا کماری نے ہی ادا کیا تھا۔
مینا کماری کے ساتھ فلم ’میرے اپنے‘ میں گلزار کی وہ فکری تربیت نظر آئی جس کی آبیاری ترقی پسند سیاست نے کی تھی۔ وہ اگرچہ کبھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رُکن نہیں رہے مگر ان کے دوستوں میں سے بہت سے ترقی پسند سیاست سے وابستہ تھے۔
سال 1972 میں فلم ’پریچے‘ ریلیز ہوئی جس میں گلزار نے فلم کی ہدایت کاری تو کی ہی تھی، بلکہ اس کے مکالمے اور گیت بھی لکھے تھے جب کہ فلم کا اسکرین پلے بھی گلزار نے ہی لکھا تھا۔ فلم کی کہانی ایک بنگالی ناول سے ماخوذ تھی، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ گلزار کے تخلیقی سفر میں بنگالی ادب کا اہم کردار رہا۔
یہی وہ فلم تھی، جس سے گلزار اور سنجیو کمار میں ایک ایسا یادگار تخلیقی رشتہ قائم ہوا، جو اگلے کئی برسوں تک برقرار رہا۔ اس فلم کے یوں تو سب گیت ہی یادگار رہے مگر یہ گیت تو اَمر ہو چکا ہے: ’مسافر ہوں یارو
نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ،
مجھے چلتے جانا ہے
بس چلتے جانا ہے‘
اور اسی سال گلزار کی ایک اور یادگار فلم ’کوشش‘ ریلیز ہوئی، جس میں جیا بہادری کے ساتھ مرکزی کردار میں نظر آئے سنجیو کمار جنہوں نے اس فلم کے لیے بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ حاصل کیا جب کہ بہترین کہانی اور ہدایت کاری کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے گلزار کو نامزد کیا گیا۔ اس فلم کی کہانی ایک گونگے اور بہرے جوڑے اور اس کو پیش آنے والی مشکلات کے گرد گھومتی ہے۔
گلزار اس وقت تک فلمی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام بن چکے تھے، جب ان کی زندگی میں راکھی آئیں۔ بنگالی حسن نے جادو کا کام کیا اور دونوں اپریل 1973 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ بندھن مگر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔
اس شادی سے ان کی اکلوتی بیٹی میگھنا گلزار ہیں، جو اب خود جانی مانی ہدایتکارہ ہیں۔ میگھنا عرف ’بوسکی‘ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد گلزار اور راکھی میں علحدگی ہو گئی، لیکن طلاق کبھی نہیں ہوئی۔ مینا کماری سے قرب اور راکھی سے فاصلے کی اصل نوعیت، مختلف افواہوں سے قطع نظر، گلزار کی شخصیت کے کئی دوسرے پہلوؤں کی طرح صیغۂ راز میں ہے۔
گلزار نے شادی سے قبل راکھی کو اسکول کے زمانے کی اپنی اس رجعت پسند سوچ کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا کہ راکھی کو شادی کے بعد اداکاری ترک کرنا ہو گی کیوں کہ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ شادی شدہ عورتوں کے لیے فلموں میں کام کرنا مناسب نہیں اور ظاہر ہے یہ اصول راکھی پر بھی لاگو ہوتا تھا۔
راکھی نے اگرچہ اس شرط پر سرِتسلیم خم کیا تھا مگر انہیں امید تھی کہ وہ گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں میں کام کرنے میں کامیاب رہیں گی مگر گلزار نے ان کو اپنی کسی فلم میں کام کرنے کی پیشکش نہیں کی، جب کہ دوسری جانب پروڈیوسرز ان سے تاریخ لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔
فلم آندھی کی شوٹنگ کے دوران اس بات کو لے کر دونوں کے درمیان کافی لڑائی ہوئی۔ وہ بھی اس وقت جب یش چوپڑا نے راکھی کو ’کبھی کبھی‘ میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ گلزار کے انکار کے بعد بھی راکھی نے جب فلم سائن کی تو دونوں نے راستے جدا کر لیے۔
گلزار اور راکھی کی پانچ سال تک چلنے والی محبت کے بعد ہوئی شادی صرف ایک سال ہی چل سکی لیکن علیحدگی کے بعد بھی ان دونوں کی ایک دوسرے سے محبت ختم نہیں ہوئی۔
نہ گلزار نے دوسری شادی کی اور نہ ہی راکھی دوبارہ شادی کے بندھن میں بندھیں۔ راکھی نے اسٹارڈسٹ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ”ہم بہت سے شادی شدہ جوڑوں سے زیادہ ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔ گلزار اور میں ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔“
”وہ اب بھی مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے۔ جیسے ہی اس کا فون آتا ہے کہ میں نے دوستوں کو رات کے کھانے پر بلایا ہے اور کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مجھے جلدی سے جھینگے کا سالن بھیج دو۔ اور میں جلدی سے ایسا کرتی ہوں۔ میں ان کی پسند کی کھیر بناتی ہوں اور بھیج دیتی ہوں۔ مجھے یہ سب پسند ہے۔“
گلزار کی بیٹی اور فلمساز میگھنا گلزار نے اپنے والد کی زندگی پر ایک کتاب ’بیکاز ہی اِز‘ لکھی ہے۔ اس میں میگھنا نے بتایا ہے کہ سنیل دت راکھی کے بھائی کیسے بنے اور شادی ایس ڈی برمن اور جی پی سپی فیملی کی نگرانی میں ہوئی۔ میگھنا نے ماں راکھی اور والد گلزار دونوں کی 1968 میں پہلی ملاقات سے لے کر ان کی علیحدگی تک کی تفصیلات لکھی ہیں۔
بیٹی کی کتاب کی رونمائی کے موقع پر گلزار نے یاد کرتے ہوئے کہا ”جب ہمارا پیار شروع ہوا تو میں اسے ساڑھیاں تحفے میں دیا کرتا تھا، ایسا کرتے ہوئے میں ساڑھیوں سے مانوس ہو گیا، بہترین ساڑھیاں تحفے میں دیتا تھا اور آج بھی تحفے دیتا ہوں۔“
میگھنا بتاتی ہیں کہ میری ماں راکھی نے پنویل میں اسی جگہ ایک فارم ہاؤس خریدا جہاں وہ پہلی بار گلزار سے ملی تھیں۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ الگ رہنے کے بعد بھی گلزار اور راکھی دونوں نے اپنی بیٹی پر اس کا اثر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی اپنے پیشہ ورانہ کام میں کوئی کمی محسوس کی۔
سال 1975 میں گلزار کی دو یادگار فلمیں ’آندھی‘ اور ’موسم‘ ریلیز ہوئیں۔ سنجیو کمار اور سچترا سین کی فلم ’آندھی‘ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ انڈیا کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی زندگی پر مبنی ہے۔ یہ فلم گلزار کی بہترین ہدایت کاری، آر ڈی برمن کی موسیقی، کشور اور لتا کی سحر انگیز گائیکی اور سب سے بڑھ کر سنجیو کمار اور سچترا سین کی اداکاری کے باعث یاد رکھی جائے گی۔ یہ سچترا سین کی آخری ہندی فلم تھی، جن کا شمار بنگالی سنیما کی تاریخ کی بڑی اداکاراؤں میں کیا جاتا ہے۔ بالی وڈ اداکارائیں ریا سین اور رائما سین اُن کی نواسیاں ہیں۔
فلم ’آندھی‘ کی ریلیز کے کچھ ہی مہینوں بعد وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی، جس کے باعث فلم پر بھی پابندی لگ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کا اندرا گاندھی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس فلم میں ایک خاتون سیاست دان کے سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد کا احاطہ کیا گیا تھا۔
یہ بطور ہدایت کار گلزار کی چند یادگار فلموں میں سے ایک ہے جس کے گیت
’تیرے بنا زندگی سے کوئی
شکوہ تو نہیں
شکوہ نہیں
تیرے بنا زندگی بھی لیکن
زندگی تو نہیں
زندگی نہیں‘،
’تم آ گئے ہو
نور آ گیا ہے
نہیں تو
چراغوں سے لو جا رہی تھی‘
یا
’اس موڑ سے جاتے ہیں
کچھ سست قدم رستے
کچھ تیز قدم راہیں‘
دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔
گلزار کی اسی برس ایک اور یادگار فلم ’موسم‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کے گیت،
’دل ڈھونڈتا ہے
پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصورِ جاناں کیے ہوئے،‘
اور
’رُکے رُکے سے قدم
رُک کے بار بار چلے
قرار لے کے
تیرے در سے بے قرار چلے‘
ہندی فلمی سنگیت میں سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ گلزار نے اپنے ایک انٹرویو میں ’دل ڈھونڈتا ہے‘ کو ان کے چند یادگار ترین گیتوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ ان گیتوں کے لیے موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی، جو اُسی برس چل بسے تھے۔
گلزار تجربات کرتے رہے۔ سال 1982 میں ریلیز ہونے والی فلم ’انگور‘ مزاح سے بھرپور تھی تو اسی برس ریلیز ہونے والی فلم ’نمکین‘ میں گلزار نے اپنی فلم ’کتاب‘ کی طرح ایک اہم سماجی مدعے کو پیش کیا تھا۔ ’انگور‘ اور ’نمکین‘ میں سنجیو کمار تو تھے ہی مگر یہ تمام فلمیں گلزار پر بنگالی ادب کے گہرے اثر کا بھی پتہ دیتی ہیں۔
گلزار کی سال 1987 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اجازت‘ ہو یا سال 1991 میں ریلیز ہونے والی فلم ’لیکن‘، ان فلموں کی کہانیاں بھی بنگالی ادب سے ہی مستعار لی گئی تھیں۔ انہوں نے اس بارے میں انڈین ٹیلی ویژن چینل راجیہ سبھا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’بنگالی سے ویسے بھی میری بڑی اٹیچمنٹ تھی۔ اسکول کے زمانے سے ہی ٹیگور میرے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھے، ٹیگور کے تراجم بہت پڑھے تھے۔ ایک خواہش تھی کہ ٹیگور کو اب اوریجنل میں پڑھا جائے تو اس وجہ سے بنگلہ سیکھی، جس کے باعث مجھے وہ گرائونڈ مل گئی جسے کہہ سکتے ہیں کہ ادب کے ساتھ جڑا ہوا سنیما تھا۔“
فلم ’اجازت‘ گلزار کی سابقہ فلموں کا ہی تسلسل تھی جس میں رومان تھا، جدائی تھی، کسک تھی جسے آر ڈی برمن کی موسیقی، گلزار کی شاعری اور آشا بھوسلے کی آواز نے یادگار بنا دیا جیسا کہ
’میرا کچھ ساماں
تمہارے پاس پڑا ہے
او، ساون کے کچھ کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں
اور میرے اِک خط میں لپٹی
راکھ پڑی ہے
وہ راکھ بھجا دو
میرا وہ ساماں لوٹا دو‘،
’قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے
بہنے دو
پیاسی ہوں میں، پیاسی رہنے دو‘
اور
’چھوٹی سی کہانی سے
بارشوں کے پانی سے
ساری وادی بھر گئی‘
اُس تخلیقی اظہار کا تسلسل ہیں جو صرف گلزار کا ہی خاصا ہیں۔
انہوں نے اس دوران انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل دور درشن کے لیے اردو زبان کے کلاسیکی شاعر مرزا اسداللہ خان غالب پر ڈرامہ سیریل بنائی، جس میں مرکزی کردار نصیرالدین شاہ نے ادا کیا۔ اس ڈرامے کو کلٹ کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور اس میں شامل یہ نظم گلزار کا اردو کے عظیم شاعر کو ایک بے مثل خراجِ تحسین ہے:
بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں
سامنے ٹال کی نکڑ پہ بٹیروں کے قصیدے
گڑگڑاتی ہوئی پان کی پیکوں میں وہ داد وہ واہ وا
چند دروازوں پہ لٹکے ہوئے بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے
ایک بکری کے ممیانے کی آواز
اور دھندلائی ہوئی شام کے بے نور اندھیرے سائے
ایسے دیواروں سے منہ جوڑ کے چلتے ہیں یہاں
چوڑی والان کے کٹرے کی بڑی بی جیسے
اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں سے دروازے ٹٹولے
اسی بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے
ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے
ایک قرآنِ سخن کا صفحہ کھلتا ہے
اسد اللہؔ خاں غالبؔ کا پتا ملتا ہے
اور سال 1996 میں فلم ’ماچس‘ ریلیز ہوئی۔ یہ گلزار کی بطور ہدایت کار آخری دور کی اہم ترین فلموں میں سے ایک ہے، جو اپنی غیر روایتی پیشکش اور موضوع کی ندرت کے باعث ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ فلم میں خالصتان تحریک کے پس منظر میں نوجوانوں کا نوحہ بیان کیا گیا ہے جو ایک متشدد تحریک میں شامل ہوتے ہیں اور پھر ماچس کی تیلیوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔
یہ فلم اپنے گیتوں ’چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں‘، ’چپہ چپہ چرخہ چلے،‘ یا ’پانی پانی رے‘ کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ فلم کی موسیقی اس وقت نوآموز موسیقار وشال بھردواج نے دی تھی جو آنے والے برسوں میں ایک ہدایت کار اور پروڈیوسر کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ ’مقبول‘، ’اومکارہ‘ اور ’حیدر‘ ان کی یادگار فلموں میں شامل ہیں، جن کے گیت گلزار نے ہی لکھے۔
گلزار کی بطور ہدایت کار آخری فلم ’ہو تو تو‘ اگرچہ باکس آفس پر تو کامیاب نہ ہو سکی مگر یہ ناقدین کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہی۔
کہا جاتا ہے کہ گلزار کو آنند کے لیے پہلی بار فلم فیئر ایوارڈ ملا تو وہ اتنے نروس تھے کہ اسے وصول کرنے کے لیے اسٹیج تک نہیں جا سکے، تاہم بعد میں انھیں یہ ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے 19 مرتبہ سٹیج پر چڑھنا پڑا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلزار کو اپنے پہلے اعزاز کے بعد ایوارڈز لینے کی عادت پڑ گئی۔
گلزار نے اگرچہ اس کے بعد ہدایت کاری سے کنارہ کشی اختیار کر لی مگر وہ فلموں کے لیے گیت لکھتے رہے۔ سال 2008 میں ’سلم ڈاگ ملینئر‘ کے لیے لکھے گیت ’جے ہو‘ کے لیے آسکر اور گریمی ایوارڈ حاصل کیے۔ وہ گیت نگاری پر 13جب کہ مکالمہ نگاری پر چار فلم فیئر ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے کہ وہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے 51 بار نامزد ہوئے، چھ بار نیشنل ایوارڈ حاصل کیا، جب کہ انڈین سنیما کا سب سے بڑا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور ادب کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔ ان کا یہ سفر رکا نہیں اور سال 2023 میں وشال بھردواج کی فلم ’خفیہ‘ اور اپنی بیٹی میگھنا گلزار کی فلم ’سام بہادر ‘ کے گیت گلزار ہی نے لکھے تھے۔
گلزار ادبی کہانیوں اور خیالات کو فلموں میں بخوبی پیش کرتے ہیں۔ ان کی فلم انگور شیکسپیئر کی کہانی ’’كامیڈي آف ایررس‘‘ فلم موسم اے جے كروننس کے ’’ جوڈاس ٹری‘‘ اور فلم پریچے ’’ہالی ووڈ کی کلاسک فلم ’’دی ساؤنڈ آف میوزک‘‘پر مبنی تھی۔
اپریل 2013 میں ان کو آسام یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔
گلزار ہمیشہ سفید کپڑوں میں ہی نظر آتے ہیں۔ اس بارے میں گلزار نے نسرین مُنّی کبیر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ دوسرے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں تو ’ایسا لگتا ہے کہ کوئی اجنبی آ کر کندھے پر بیٹھ گیا ہے۔‘
ٹی وی پر جب ٹینس اور کرکٹ کے میچ آتے ہیں تو گلزار کوئی اور کام نہیں کرتے۔ وہ راجر فیڈرر، آندرے اگاسی اور جان میکنرو جیسے اسٹارز کے مداح رہے ہیں۔ ساتھ ہی کرکٹ کے میدان میں وہ سنیل گواسکر اور وسیم اکرم کے مداح رہے ہیں۔ گلزار کا کرکٹ سے لگاؤ اتنا گہرا ہے کہ وہ خوابوں میں کئی بار خود کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
گلزار کی شخصیت میں ایک اور خاص بات ہے۔ پرسکون اور شریف نظر آنے والے گلزار کو تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کی عادت ہے اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ گاڑی لیتے ہیں اور لانگ ڈرائیوز پر نکل جاتے ہیں۔ وہ گاڑی پر پورا انڈیا گھوم چکے ہیں
برسوں تک گلزار کو انگریزی نہیں بولنی آتی تھی، اس لیے وہ بیرونِ ملک جانے سے گریز کرتے رہے لیکن جب انھوں نے اس دنیا کو دیکھنا اور سمجھنا چاہا تو پاجامہ اور کُرتا پہن کر دنیا کے کئی ملک دیکھنے نکل پڑے
قلم اور کاغذ ہو تو آج بھی کچھ نیا، کچھ منفرد تخلیق کرنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے، جنہیں ادبی حلقوں کی جانب سے زبردست پذیرائی حاصل ہو چکی ہے اور وہ اپنا پہلا تعارف ایک ادیب کے طور پر ہی کروانا پسند کرتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ گلزار پر دوسروں کی نقل کرنے کا الزام بھی لگا ہے۔ چاہے وہ گانا ’ابن بطوطہ، پہن کے جوتا‘ ہو یا ’سسرال گیندا پھول‘۔
گلزار نے غالب کے شعروں کا اس قدر استعمال کیا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں، ”مجھے غالب کے نام پر پنشن مل رہی ہے جو غالب کو خود کو نہیں مل سکی۔“
گلزار کی امیجری، لفظوں کو برتنے کا سلیقہ، نئے اور منفرد استعاروں کے استعمال میں مہارت اور خیال کی ندرت ان کی شاعری کو ان کے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے اور ان کی فلموں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔
گلزار کے فن میں جمود نہیں ہے اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ سنیما کو اپنی زبان، اپنا ادب تخلیق کرنا چاہیے۔ ان کی فلموں میں رومان ہے، سماجی مسائل کا بیاں ہے، سیاست کا ذکر ہے اور سب سے بڑھ کر ادبی رنگ نمایاں ہے جیسا کہ انہوں نے کہانی کہنے کا اپنا مختلف انداز اختیار کیا۔
انہوں نے منی کول، کمار شاہانی ،ایم ایس ستھیو، شیام بینیگل یا گووند نہلانی کی طرح کا متوازی سنیما تو تخلیق نہیں کیا اور نہ ہی مسالہ فلمیں بنائیں بلکہ درمیانی راہ نکالی اور یوں اپنے مضبوط اور منفرد کرافٹ کی وجہ سے منفرد سنیما تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔
گلزار فلموں میں اپنی بےمثال کامیابی اور شہرت کے باوجود سنجیدہ ادب کی طرف سے کبھی غیرسنجیدہ نہیں ہوئے۔ اپنے طویل فلمی سفر کے ساتھ ساتھ گلزار ادب کے میدان میں نئی نئی منزلیں طے کرتے رہے ہیں۔ نظم میں انہوں نے اک نئی صنف ’تروینی‘ ایجاد کی ہے، جو تین مصرعوں کی غیر مقفیٰ نظم ہوتی ہے۔ گلزار نے نظم کے میدان میں جہاں بھی ہاتھ ڈالا، اپنی جدت سے نیا گل کھلایا۔
اردو زبان میں گلزار کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ ’’دھواں‘‘ کو ۲۰۰۲ءیں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ گلزار نے اپنی شاعری کو ایک نئے انداز میں پیش کیا جسے ’’تروینی‘‘کہا جاتا ہے۔ہندوستانی سنیما کی دنیا میں قابل ذکر شراکت کو دیکھتے ہوئے گلزار فلم انڈسٹری کے اعلیٰ ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔
شروع میں ان کی ادبی تخلیقات پاکستان کے رسالوں میں شائع ہوئیں۔ ’فنون‘ کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے بطور خاص ان کی سرپرستی اور رہنمائی کی۔ گلزار نے انہیں اپنا ’بابا‘ بنا لیا اوران کے زبردست عقیدتمند بن گئے۔
احمد ندیم قاسمی کے بقول گلزار کی شاعری کی اک اہم خصوصیت، لفظ اور مصرعے کے تاثراتی تصور کو مہارت اور چابکدستی سے اشعار میں اجاگر کرنا ہے۔ ان کی شاعری میں فطرت گلزار کے ہمزاد کا کام کرتی ہے، ان کے یہاں فطرت کےمظاہر جیتے جاگتے سانس لیتے اور انسانوں کی طرح جانداروں کا روپ دھارتے محسوس ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ سے وہ بچوں کی نظم و نثر کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوئے ہیں۔ ’جنگل بک‘ کے لئے ان کا ٹائٹل سانگ:
’جنگل جنگل بات چلی ہے، پتہ چلا ہے
چڈھی پہن کے پھول کھلا ہے، پھول کھلا ہے۔‘
یہ گیت بچے بچے کی زبان پر ہے۔
انہون نے ’ایلس ان ونڈر لینڈ اور” پوٹلی بابا‘ کے لئے بھی نظمیں اور مکالمے لکھے ہیں وہ جسمانی طور پر معذور بچوں کے ادارے ’آروشی‘ اور تعلیم کے لئے کام کرنے والی این جی او ’ایکلویا‘ سے بھی وابستہ ہیں۔
بہرحال گلزار کا بنیادی حوالہ جمالیاتی احساس ہے، جس کی بیش بہا تمثیلیں ان کی تخلیقات میں ملتی ہیں۔
گلزار کو اپنی زندگی میں ہی جو شہرت عزت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔بہرحال ادبی قدر کا حتمی فیصلہ ہمعصر قاری نہیں، مستقبل کا قاری کرتا ہے۔