اداسی کا مسکراتا چہرہ: لوگوں کو ہنساتے کامیڈینز کے اندر کی درد بھری دنیا

امر گل

امر جلیل کے مشہور سندھی ڈراما ’مٹیءَ جا مانڑھو‘ (مٹی کے آدمی) کا ایک مکالمہ ہے، ”میں وہ مسخرہ ہوں، جو دنیا کو ہنسا کر، پردے کے پیچھے جا کر رو پڑتا ہے۔۔“ یہ مکالمہ کامیڈینز کے مسکراتے چہرے کے پیچھے چھپے دکھ کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔

کامیڈینز کی زندگی ایک حیرت انگیز تضاد ہے۔ وہ اسٹیج پر خوشیوں کے سفیر بن کر آتے ہیں، قہقہوں کا طوفان برپا کرتے ہیں، اور سامعین کو ان کے غموں سے آزاد کر دیتے ہیں، لیکن جب پردہ گرتا ہے تو اکثر ان کے اپنے چہرے مسکراہٹ سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کا کام دلوں کو بہلانا ہے، مگر ان کے اپنے دل دکھوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت حیران کن ہے کہ جو لوگ دنیا کو خوش رکھنے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں، وہ خود اندر سے تنہائی، اضطراب اور کرب کا شکار ہوتے ہیں۔

اساطیری کہانیوں میں مذاق کرنے والے کردار ہمیشہ سماج کی روایات اور اصولوں کے درمیان موجود لکیر کو دھندلا کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ نہ صرف کشیدگی کے لمحات میں ہنسی کا جادو جگاتے ہیں بلکہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہنسی انسانی فطرت کا ایک اہم اظہار ہے، جو کشیدگی کو ختم کرکے سکون کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

تصور کیجیے، قدیم غار کے دور میں ایک انسان ایک خوفناک نوکیلے دانتوں والے خونخوار شیر سے جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ منظر گھمبیر ہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں، لیکن اچانک وہ شیر پہاڑ سے نیچے گر جاتا ہے۔ اس غیر متوقع انجام پر غار کا انسان بے ساختہ ہنس پڑتا ہے۔ ہنسی دراصل اس کے اعصابی نظام کی کشیدگی سے نجات کا ایک فطری ردعمل ہے، جو نہ صرف سکون بخشتی ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی راحت فراہم کرتی ہے۔

ہنسی کا یہ جادو لطیفوں میں بھی جھلکتا ہے۔ چاہے کوئی لطیفہ ایک پیچیدہ کہانی ہو یا صرف ایک مختصر جملہ، یہ پہلے کشیدگی پیدا کرتا ہے، سامع کے ذہن میں ایک توقع قائم کرتا ہے، اور پھر اچانک ایک غیر متوقع موڑ اسے ختم کر دیتا ہے۔ یہ غیر متوقع موڑ نہ صرف ہمیں حیران کرتا ہے بلکہ خوشی کے جذبات سے بھی بھر دیتا ہے۔

جیسے غار کا انسان ایک شیر کے خوفناک تعاقب سے بچ نکلتا ہے اور پھر ہنستا ہے، اسی طرح ہم بھی لطیفوں کے ذریعے اپنی خوفناک توقعات کو توڑتے ہیں اور دنیا کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ یہی ہنسی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کشیدگی اور سکون کے درمیان پل بنانے کا فن ہی زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔

 مشہور مزاحیہ فنکار، مزاح کے پیچھے چھپا دکھ اور تحقیق

مزاحیہ فنکار محفلوں کی جان سمجھے جاتے ہیں، لیکن جب اسٹیج کی روشنیاں مدھم ہو جاتی ہیں اور محفل ختم ہو جاتی ہے، تو ان کے دلوں کے اندر کی کہانی کیا ہوتی ہے؟ حیران کن طور پر تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مزاحیہ فنکار عام لوگوں کی نسبت ذہنی بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

اسٹینڈ اپ کامیڈین جیسن برن، جنہیں اس شعبے میں تقریباً بیس سال کا تجربہ ہے، کہتے ہیں، ”لوگ کہتے ہیں کہ مزاحیہ فنکار اکثر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، ہم اسٹیج پر ایک عام انسان کا تاثر دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں اپنے شوز میں ہم اپنی اصل شخصیت کے قریب ہوتے ہیں۔“

۔۔۔۔اور وہ اصل شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ ”بالکل پاگل!“

جیسن برن کے یہ جملے شاید غیر سنجیدہ لگیں، لیکن نفسیات کے ماہرین کو ہمیشہ یہ سوال متاثر کرتا رہا ہے کہ کیا مزاحیہ فنکاروں کی نفسیات میں واقعی کوئی خاص بات ہوتی ہے؟ کیا لوسی بیومونٹ کی سادگی اور رود گلبرٹ کی معمولی باتوں پر شدید ناراضگی، اور پھر اسپائیک ملیگن جیسے مزاحیہ فنکار، جنہیں ان کے ماہر نفسیات نے کبھی ’ذہنی طور پر غیر متوازن‘ کہا تھا، کے درمیان کوئی گہرا تعلق ہے؟

لگ بھگ ایک دہائی قبل آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نفسیات نے برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے 523 مزاحیہ فنکاروں کا آن لائن سروے کیا تاکہ ان کی نمایاں خصوصیات کو جانچا جا سکے۔ سوالات دلچسپ تھے: ”کیا آپ اکثر دوسروں کی رائے کے خلاف کچھ کرنے کا سوچتے ہیں، چاہے وہ درست ہوں؟“ یا ”کیا آپ ان جگہوں پر جانے سے گھبراتے ہیں جہاں لوگ پہلے سے موجود ہوں اور باتیں کر رہے ہوں؟“

نتائج حیران کن تھے۔ معلوم ہوا کہ مزاحیہ فنکاروں میں شیزوفرینیا اور مینک ڈپریشن کے مریضوں سے ملتی جلتی کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہی خصوصیات ان کے مزاح کی بنیاد بھی بن سکتی ہیں۔ ان کا دنیا کو دیکھنے کا مختلف انداز، روزمرہ کی چیزوں میں چھپی عجیب باتوں کو پہچاننے اور انہیں مزاح میں ڈھالنے کی غیر معمولی صلاحیت، دراصل ان کے ذہنی اتار چڑھاؤ کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی 2014 کی اس تحقیق نے انکشاف کیا کہ مزاحیہ فنکاروں میں غیر معمولی شخصیت کی ساخت پائی جاتی ہے، جو ان کی مزاحیہ صلاحیتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ تاہم، یہی ساخت انہیں ذہنی صحت کے مسائل کی طرف بھی لے جا سکتی ہے، خاص طور پر جب وہ بچپن میں تکلیف دہ حالات کا سامنا کر چکے ہوں۔

دوسری جانب ہم دیکھیں تو جم کیری جیسے مشہور فنکاروں نے بھی اپنی ڈپریشن سے طویل جنگ کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے اسے ’زندگی بھر کا امتحان‘ قرار دیا اور اپنی جدوجہد کے مختلف پہلو کھل کر بیان کیے۔ اسی طرح، سارہ سلورمین نے ڈپریشن اور اینزائٹی کے ساتھ اپنی جدوجہد کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے مزاح کا حصہ بھی بنایا۔ وہ کہتی ہیں، ”زندگی میں کوئی سانحہ نہیں، صرف مزاح ہے۔“

ماریا بامفرڈ نے بھی بائی پولر ڈس آرڈر اور اوبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر (OCD) پر کھل کر بات کی۔ ان کی نیٹ فلکس سیریز ’لیڈی ڈائنامائٹ‘ ان کے ذاتی تجربات کی عکاس ہے، جس میں وہ اپنی ذہنی صحت کی جدوجہد کو مزاح کے ذریعے بیان کرتی ہیں۔

روبن ولیمز، جو اپنی ہائی انرجی پرفارمنس کے لیے مشہور تھے، اندر سے ڈپریشن اور نشے کے مسائل کا شکار تھے۔ خودکشی کی صورت میں ان کی زندگی کے اختتام نے تخلیقی صلاحیت اور ذہنی بیماری کے درمیان تعلق پر گہری بحث چھیڑ دی۔

اسٹیفن فرائی، جو بائی پولر ڈس آرڈر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، کہتے ہیں: ”مزاح، محبت کی طرح، ہر مشکل کو برداشت کر سکتا ہے۔“ مزاح نہ صرف دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے بلکہ فنکار کے لیے ایک طریقہ بھی ہے کہ وہ اپنے اندر کے درد کو سہارا دے سکے۔

یہ مزاحیہ فنکار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہنسی کا یہ چمکتا چہرہ صرف ظاہری ہے۔ ان کی اصل طاقت اپنے اندر کے دکھ کو مزاح میں ڈھال کر دنیا کو خوش کرنے میں چھپی ہے، لیکن یہ عمل ان کی اپنی ذات کے لیے اکثر ایک گہری جدوجہد بن جاتا ہے۔

جیسن برن مزاحیہ دنیا کو ایک خیالی دنیا قرار دیتے ہیں جہاں روزمرہ کی زندگی کی عجیب باتوں کو کارٹون جیسا مبالغہ دیا جاتا ہے۔ ان کے بقول، یہی وہ موقع ہے جہاں عام لوگ جو کچھ نظرانداز کر دیتے ہیں، اسے فنکار سامنے لاتے ہیں اور اس پر بات کرتے ہیں۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاحیہ فنکاروں میں افسردگی جیسی علامات جیسے جذباتی بے حسی اور دوسروں سے دوری عام ہیں۔ تاہم، یہ زیادہ تر کام کے دباؤ سے جڑی ہوتی ہیں، نہ کہ گہری ذہنی بیماری سے۔ زیادہ تر فنکار روبن ولیمز جیسے کلینیکل ڈپریشن کے شکار نہیں ہوتے، لیکن اسٹیج سے ہٹتے ہی اکثر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دلچسپ تضاد پایا جاتا ہے: وہ ایک ہی وقت میں بہت زیادہ شرمیلے (انٹروورٹ) اور انتہائی کھلے دل کے یا ملنسار (ایکسٹروورٹ) ہو سکتے ہیں۔

کامیڈین وکی اسٹون کہتی ہیں، ”جب آپ کامیڈی کا آغاز کرتے ہیں، تو آپ ہر وقت دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، چاہے اسٹیج پر ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن وقت کے ساتھ، آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب اسٹیج پر کافی ہے۔ اس کے بعد آپ عام زندگی میں لوگوں سے دور رہنا چاہتے ہیں۔“

تخلیقی صلاحیت اور ذہنی بیماری: ایک پیچیدہ تعلق

کیا کبھی سوچا ہے کہ وہ مزاحیہ فنکار، جو ہمیں ہنسی کے سمندر میں غوطہ دیتے ہیں، خود کیوں اکثر گہرے اندھیروں میں گھرے ہوتے ہیں؟ اس کی کئی طبی اور نفسیاتی وجوہات ہیں، جن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ مزاح ایک ایسا دفاعی ہتھیار ہے جو انسان اپنے اندر چھپے درد کو دنیا سے چھپانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مزاحیہ فنکار اکثر اپنے گہرے زخموں پر ہنسی کا مرہم رکھتے ہیں، تاکہ وہ دکھ جو انہیں اندر سے کاٹ رہا ہے، دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔

مزاحیہ فنکار کی زندگی بظاہر دلچسپ اور روشن نظر آتی ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ طویل اوقاتِ کار، مستقل سفر، اور ہر روز نئے سامعین کو ہنسانے کا دباؤ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے۔ مسترد ہونے اور تنقید کے بوجھ تلے دبی یہ زندگی اکثر بے چینی اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتی ہے۔ ان کی دنیا کا یہ تضاد شاید ہمیں حیران کرے، لیکن یہ تخلیقی صلاحیت کا ایک خاص پہلو ہے۔

کیا تخلیقی ذہنوں میں ایک خاص طرح کی کشیدگی چھپی ہوتی ہے؟ تحقیق کہتی ہے: ہاں۔ ’جرنل آف افیکٹیو ڈس آرڈرز‘ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق، بائی پولر ڈس آرڈر میں مبتلا افراد تخلیقی صلاحیت کے میدان میں اکثر اوسط افراد سے آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ اشارہ کرتا ہے کہ تخلیقی صلاحیت اور ذہنی بیماری کے درمیان کوئی جینیاتی یا حیاتیاتی تعلق ہو سکتا ہے، جو فنکاروں کو منفرد بناتا ہے لیکن کبھی کبھی ان کے لیے چیلنج بھی بن جاتا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کی سربراہی کرنے والی ماہر نفسیات وکٹوریا آنڈو کا کہنا ہے، ”مزاح کے لیے ضروری ہے کہ آپ عام سوچ کے دائرے سے باہر دیکھ سکیں اور وہ تعلقات ڈھونڈ سکیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتے۔“

ان کے مطابق، یہ تخلیقی صلاحیت اور آزاد سوچ، بعض اوقات ذہنی بیماریوں کی علامات سے ملتی جلتی ہو سکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جہاں یہ علامات بیمار ذہن کے لیے تخریبی ہوتی ہیں، وہیں صحت مند مزاحیہ فنکار کے لیے یہ تخلیق اور ذہانت کا ذریعہ بنتی ہیں۔

اسٹینڈ اپ کامیڈینز کے لیے یہ کوئی راز نہیں کہ انہیں نہ صرف سامعین بلکہ اپنی اندرونی آوازوں کے منفی تبصروں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کامیڈی کے سفر میں اپنی پہچان بنانا ایک ایسا میدان ہے جہاں طنزیہ جملے اور خراب جائزے عام ہیں، لیکن اصل جنگ اکثر ان کے اپنے ذہن کے ساتھ ہوتی ہے۔

اسٹینڈ اپ کامیڈین جیسن برن اعتراف کرتے ہیں، ”سب سے بڑی مشکل؟ وہ آپ کے اپنے خیالات ہیں۔۔ اسٹیج پر میرا دماغ کئی محاذوں پر مصروف ہوتا ہے۔ ایک حصہ سامعین کی حرکات کو اسکین کر رہا ہوتا ہے، دوسرا حصہ میرے پہلے سے تیار مواد کو ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔ لیکن درمیان میں وہ ناقدانہ حصہ موجود رہتا ہے جو مسلسل شور مچا رہا ہوتا ہے: ’یہ کیا کر رہے ہو؟ کوئی نہیں ہنسا۔ تم مکمل ناکام ہو۔ یہ تمہاری زندگی کی سب سے بری پرفارمنس ہے!‘ “

یہ صرف مزاحیہ فنکار ہی نہیں، شاید ہر فنکار کو خود پر شک کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن اسٹینڈ اپ کامیڈی کی دنیا کی تنہائی اسے مزید بڑھا دیتی ہے۔ آکسفورڈ کی تحقیق نے جن اسٹینڈ اپ کامیڈینز کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ ایکسٹروورٹ (ملنسار) تو ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر انٹروورژن (تنہائی) کا پہلو کمزور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، تھیٹر کے اداکار اپنی تنقید اور تعریف دیگر ساتھیوں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں، جس سے جذباتی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔

وکٹوریا آنڈو، اس تحقیق کی سربراہ، اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں: "تھیٹر میں سامعین کی داد ایک مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے: مصنف، ہدایتکار، منظر ساز، اور دیگر اداکار سب مل کر محنت کرتے ہیں۔ لیکن مزاحیہ فنکار اسٹیج پر اکیلے لڑ رہے ہوتے ہیں، اور کامیابی یا ناکامی کا مکمل بوجھ ان کے کندھوں پر ہوتا ہے۔”

اس کے ساتھ ہی، دونوں کے سامعین سے جڑنے کے انداز میں بھی فرق ہے۔ اداکار اپنے کرداروں کے ذریعے ایک جذباتی پل تعمیر کرتے ہیں، جبکہ اسٹینڈ اپ کامیڈینز سامعین کو ہنسانے کے لیے ایک نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔ وہ اس نقاب کے پیچھے اپنی اندرونی پریشانیوں کو چھپاتے ہیں، لیکن ان کی حقیقی ذات اکثر انہی لمحوں میں سب سے زیادہ عیاں ہوتی ہے۔

جہاں تھیٹر ایک ٹیم ورک ہے، وہیں کامیڈی ایک تنہا کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ اسٹیج پر کھڑے مزاحیہ فنکار کے ہر قہقہے، ہر خاموشی، اور ہر ردعمل کا براہ راست تعلق ان کی ذاتی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ یہی ان کی کامیڈی کو طاقتور بناتا ہے، لیکن یہ ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی بن سکتا ہے۔ اس کھیل میں فتح وہی پاتا ہے جو نہ صرف سامعین بلکہ اپنی اندرونی آوازوں کو بھی ہنسانا سیکھ لے۔

بہرحال اس سارے تذکرے میں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تمام مزاحیہ فنکار یا ذہنی بیماری کے شکار افراد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ذہنی بیماری پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے، اور لوگوں کے تجربات یا پیشے کی بنیاد پر عمومی رائے قائم کرنا یا دقیانوسی تصورات اپنانا درست نہیں۔

مزاح انسان کو مشکل حالات سے لڑنے کی طاقت دیتا ہے۔ جب ہم کسی تکلیف دہ صورتحال کو مزاحیہ زاویے سے دیکھتے ہیں، تو ہم اپنی مشکلات کو کم اہم بنا لیتے ہیں اور ان کے اثر کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم اپنے حالات کے رحم و کرم پر نہیں، بلکہ ان پر قابو پانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

مزاح نہ صرف ہمارے ذہن کو سکون دیتا ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔ ’جرنل آف نیورو سائیکائٹری‘ کے مطابق، ہنسنا جسم میں اینڈورفنز کو متحرک کرتا ہے، جو قدرتی طور پر ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں۔ دیگر تحقیقات بتاتی ہیں کہ شیزوفرینیا اور PTSD کے شکار افراد میں مزاح نے بے چینی اور ڈپریشن جیسی علامات کو نمایاں طور پر کم کیا ہے۔

مزاح، طاقت اور امید
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مزاح ہمیں مایوسی میں امید تلاش کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ جب زندگی کے سب رنگ ماند پڑ جائیں، تب بھی مزاح ایک ایسا چراغ ہے جو روشنی پھیلا سکتا ہے۔ مزاحیہ فنکار اپنی کہانیوں کے ذریعے نہ صرف سامعین کو ہنساتے ہیں بلکہ ان کی زندگیوں میں وہ خوشی اور روشنی لاتے ہیں، جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

جولائیٹ برٹن، جو ایم کیو کی کاپی رائٹر اور پیشہ ور مزاحیہ فنکارہ ہیں، ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں، ”جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے مزاح کا سہارا کیوں لیا؟ کیونکہ یہ میری زندگی بچا گیا۔ جب میں اپنی سوچوں یا جذبات پر ہنسنے کے قابل نہ تھی، دوسروں کی ہنسی سننا میرے لیے اندھیرے خیالات کے سمندر میں زندگی کا سہارا تھا۔ جب میں خوشی یا آگے بڑھنے کی وجہ نہیں ڈھونڈ پاتی تھی، تو اگر میں دوسروں کو ہنسا سکتی، تو میں یاد دلا سکتی تھی کہ زندگی حیران کن ہے۔“

ان کا کہنا ہے ”ہنسی حیرت اور خوشی کا ردعمل ہے، اور یہ یاد دلاتی ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی تاریک کیوں نہ ہوں، زندگی اچانک آپ کو روشنی میں لے جا سکتی ہے۔ جیسے ایک لطیفے میں اچانک موڑ آتا ہے، ویسے ہی مشکل وقتوں میں بھی اچانک روشنی کی کرن نظر آ سکتی ہے۔ اس لیے، لطیفے کے انجام تک ساتھ رہیں، چاہے تیاری کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو۔“

(اس فیچر کی تیاری میں ایم کیو مینٹل ہیلتھ پر شائع جولائیٹ برٹن اور دی گارجین پر شائع ڈیوڈ کاکس کے آرٹیکلز سے مدد لی گئی۔ امر گل)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close