ایک نئی تحقیق میں یوکرین میں ایک آثارِ قدیمہ کے مقام سے ملنے والے پتھر کے اوزاروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ چودہ لاکھ سال پرانے ہیں، جو یورپ میں انسانی موجودگی کا قدیم ترین ثبوت ہے۔
سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے یورپ میں پہلے انسانوں کی آمد کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ وہ کہاں سے آئے تھے۔
یہ دریافت اس مفروضے کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ ابتدائی انسانی آباؤ اجداد کی یورپ میں پہلی ہجرت مشرق یا جنوب مشرق سے ہوئی تھی۔
ابتدائی انسان، وہ گروہ جس میں جدید انسان اور ہمارے قریبی آباؤ اجداد جیسے نینڈرتھال شامل تھے، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دس سے بیس لاکھ سال پہلے یوریشیا کے خطے میں پہنچے تھے، لیکن یورپ میں ان کے آمد کے صحیح وقت کے بارے میں معلومات جاننا آج تک مشکل ہے۔
جب کہ جدید انسان تقریباً دو لاکھ ستر ہزار سال پہلے افریقہ سے نکلے تھے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ہمارے انسانی آباؤ اجداد یورپ میں کب داخل ہوئے تھے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ اس دور کے آثار قدیمہ کے مقامات کا دریافت نہ ہونا ہے۔
ایسی ہی نایاب مقامات، جہاں بڑی کھدائیاں کی گئی ہیں، مغربی یوکرین میں کورولیوو کا خطہ ہے، جہاں سے 1970ع کی دہائی میں پتھر کے زمانے کے اوزار دریافت ہوئے تھے۔
70 کی دہائی میں محققین نے اس جگہ سے ٹوٹے ہوئے پتھروں کو نکالا تھا، جن کو آتش فشاں چٹانوں سے ڈھالا گیا تھا۔
اب سائنسدانوں نے تقریباً چودہ لاکھ سال پرانے اوزاروں پر جمی چٹانی گرد کی تہوں کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نئے طریقے استعمال کیے ہیں۔
ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی سے وابستہ محقق اور مطالعہ کے شریک مصنف میڈس فاؤرشو نوڈسن نے اس حوالے سے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ”یہ یورپ میں کسی بھی انسان کے بارے میں قدیم ترین ثبوت ہے۔“
تاہم یہ ابھی تک غیر یقینی ہے کہ ابتدائی انسانی آباؤ اجداد میں سے کس نے ممکنہ طور پر یہ اوزار بنائے گئے تھے۔
محققین کو شبہ ہے کہ یہ ہومو ایریکٹس ہو سکتے ہیں، جو سیدھا چلنے اور آگ کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے والی پہلی انسانی نسل تھی۔
مطالعے کی قیادت کرنے والے مصنف رومن گاربا نے ایک بیان میں کہا، ”ہمارے قدیم ترین آباؤ اجداد یعنی ہومو ایریکٹس تقریباً بیس لاکھ سال پہلے افریقہ چھوڑ کر مشرق وسطیٰ، مشرقی ایشیا اور یورپ کا رخ کرنے والے پہلے ابتدائی انسان تھے۔“
ان کے بقول، ”آب و ہوا کے ماڈل اور فیلڈ پولن کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم نے تین ممکنہ گرم برفانی ادوار کی نشاندہی کی ہے جب پہلی ابتدائی انسان دریائے ڈینیوب کی نقل مکانی والی راہداری کے ذریعے کورولیوو تک پہنچ سکتے تھے۔“
اس بات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہ کورولیوو کا مقام کیسے بیس لاکھ سالوں میں ان کی رہائش گاہ میں تبدیل ہوا ہوگا، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ابتدائی انسانی آباؤ اجداد نے ممکنہ طور پر زمین کے گرم ادوار کا فائدہ اٹھایا تھا، جنہیں انٹرگلیسیئلز کے نام سے جانا جاتا ہے تاکہ ان بلند عرض بلد مقامات کو قابل رہائش بنایا جا سکے۔
کورولیوو سائٹ نیٹو ممالک رومانیہ اور ہنگری کے قریب ہونے کی وجہ سے اب تک روسی افواج کی یوکرین پر یلغار اور تباہی سے بچایا ہوا ہے۔
ڈاکٹر گربا نے ہسپانوی روزنامہ ایل پیس کو بتایا ”روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہاں ایک بھی بم نہیں گرا۔“
یہ خبر بھی پڑھیں
اس قدیم دور کی کہانی، جب سردی نے انسانوں کو یورپ کے براعظم سے دو لاکھ سال کے لیے بے دخل کر دیا تھا!