انسانی تاریخ میں پہلی بار فضا میں اڑنے والے عباس ابنِ فرناس کی کہانی

ویب ڈیسک

فضاؤں میں پرواز کئی صدیوں سے انسانوں کا خواب رہا ہے۔ تاریخ اساطیری داستانوں اور افسانوں سے بھری پڑی ہے، جن میں انسانوں کو پروں کے ساتھ آسمان میں غیر معمولی کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یونانی افسانوں میں، خیال کیا جاتا ہے کہ Icarus اپنے والد کی تنبیہہ کے باوجود سورج کے اتنا قریب اڑ گیا تھا، کہ اس کے مومی پنکھ پگھل گئے، جس کی وجہ سے وہ بعد ازاں سمندر میں ڈوب گیا۔

جب اڑان کی عملییت کی بات کی جائے تو پہلا ایسا تجربہ، جہاں ایک شے ہوا میں ’اڑی‘ تھی، درحقیقت دو چینی فلسفیوں موزی اور لو بان نے کیا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پتنگ کے موجد ہیں۔ پانچویں صدی میں اپنے اہم طریقوں کے نتیجے میں، وہ حریف ریاستوں سے ملٹری انٹیلیجنس جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔

رائٹ برادران نے ہو سکتا ہے کہ پہلا موٹرائزڈ ہوائی جہاز ایجاد کیا ہو، لیکن نویں صدی کے انجینئر عباس ابن فرناس کو پہلا انسان سمجھا جاتا ہے جو ریشم، لکڑی اور اصلی پروں سے بنے پروں کے جوڑے کی مدد سے اڑے تھے۔

ابن فرناس جن کا پورا نام عباس قاسم ابن فرناس تھا۔ وہ ایک موجد، مہندس، طیارچی، حکیم ، شاعر، موسیقار، ماہرِ فلکیات، طبعیات دان اور کیمیا دان تھے۔

مورخین کے مطابق جب ابن فرناس کی عمر 65 سے 70 سال کے درمیان تھی، اس نے یمن کے جبل العروس پہاڑ سے ایک چٹان سے چھلانگ لگائی اور ہوا میں اچھل کر کم از کم دس منٹ تک پرواز کرتے رہے۔

انہوں نے محسوس کیا کہ چونکہ اس نے لینڈنگ کے میکینکس کو نظر انداز کر دیا تھا، اس لیے وہ ہوا میں اپنی پرواز کا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور کریش لینڈنگ کا خاتمہ ہوا۔

اگرچہ یہ اس زمانے میں ایک بڑا کارنامہ تھا، لیکن وہ پرواز کے مختصر وقت سے مطمئن نہیں تھے۔

ابن فرناس مزید بارہ سال زندہ رہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سست لینڈنگ دم اور پروں کے درمیان باہمی تعاون کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، یہ نتیجہ پرندوں کی پرواز اور ان کے اترنے کے کئی دہائیوں کے مطالعے کے بعد عملی صورت تک پہنچا۔ یہ فرناس ہی ہیں، جو کامیابی کے ساتھ اس نظریہ کے پیچھے ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں، جنہوں نے اورنیتھاپٹر ornithopter بنایا، ایک ایسا ہوائی جہاز جو پرندوں کی نقل کرتا ہے اور اپنے پروں کو پھڑپھڑا کر اڑتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں ان کے فلائنگ مشین ڈایاگرام ایوی ایشن انجینئرنگ کی سنگ بنیاد بن گئے۔

ابن فرناس کو اب بھی اپنے میدان میں سب سے آگے سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ ہوا سے زیادہ بھاری مشین کے ساتھ اڑان بھرنے والے پہلے ہوا باز تھے۔

کچھ تاریخی بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ الفرناس، خلیفہ عبدالرحمان دوئم کے زیر سرپرستی 852ء میں ایک بہادر شخص، جن کا نام ارمن فرمان (Armen Firman) تھا، سے متاثر تھے، جو نہ تو سائنس دان تھے اور نہ ہی پولی میتھ۔۔ بلکہ فطرت کا بغور مشاہدہ کرنے والے شخص تھے۔ دراصل یہ فرمان ہی تھے، جنہوں نے سب سے پہلے ریشم اور پرندوں کے پروں میں لپٹے لکڑی کے تختوں سے بنے پر بنائے۔

انہوں نے پروں کی طرح کی ایک بڑی سی چادر کے ذریعے قرطبہ کی ایک اونچی عمارت سے اڑنے کی کوشش کا مظاہرہ کیا، اس کے لیے لوگوں سے شرط بھی لگائی۔

850 کی دہائی کے اوائل میں، فرمان قرطبہ میں مسجد کے سب سے اونچے مینار کی چوٹی پر چڑھ گئے اور پروں کو پہن کر چھلانگ لگا دی۔ اگرچہ ان کی کوشش تیزی سے ناکام ہو گئی اور وہ زمین پر گر گئے، فلائنگ مشین وقت کے ساتھ ہی فلائی ہوئی اور اس کے نزول کو سست کر دیا۔ البتہ وہ خوش قسمت تھے کہ ان کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ ان کی لینڈنگ میں تاخیر کسی حد تک جان بچانے والی ثابت ہوئی۔ ارمن کو معمولی سی چوٹیں آئیں، تاہم وہ کسی حد تک اپنی شرط جیت گئے تھے۔ ان کو دنیا کا سب سے پہلا پیرا شوٹر بھی کہا جاتا ہے۔

ابن فرناس نے فرمان کی مہم جوئی کو دیکھا، جب وہ بھی وہاں جمع، متوجہ ہجوم کے درمیان کھڑے تھے، جو سب حیرت سے اوپر آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ فرمان کے نتائج سے متاثر ہو کر ابن فرناس نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ہوا میں اڑنے کے عمل کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ابن فرناس نے بھی اڑان پر تجربات کرنا شروع کر دیے اور تئیس سال بعد ان کا تجربہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔

انہوں نے تئیس سال تک مختلف پرندوں اور اشیاء کی پرواز کے نمونوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی فلائنگ مشین بنائی اور اپنی ترقی کے سالوں کے باوجود یمن میں جبل العروس سے چھلانگ لگا دی۔

کئی صدیوں بعد، ایک عثمانی ترک احمد سیلبی نے کامیابی سے اڑان بھری اور 1630 میں باسفورس کے پار اترے۔

وہ اندلس (مسلم اسپین) کے شہر اذن ۔ رند ۔ اوندا (Izf-Rand Onda) میں 810 ء میں پیدا ہوئے اور بعد میں ’قرطبہ‘ میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے اپنی بالغ زندگی کا بیشتر حصہ امارت قرطبہ میں گزارا، جو اموی خلافت کے دوران سیکھنے کا ایک بڑا مرکز تھا۔

ابن فرناس بربر نسل سے تھے۔ ان کے نام کی جڑ افرناس ہے، جو آج کل مراکش اور الجزائر دونوں میں ایک عام اور وسیع پیمانے پر سنا جانے والا نام ہے۔

عباس ابن فرناس بربر نژاد اور جنوبی اسپین کے ضلع تکرنہ (Ronda) کا باشندے تھے۔ انہوں نے اپنی تمام عمر قرطبہ میں بسر کی اور اپنے علم و حکمت کی بنا پر اُس زمانے کا عظیم ترین سائنسدان کہلائے ۔ ان کی ایجادات اور اختراعات بے شمار ہیں اور اگر انہیں اپنے زمانے کا نابغہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

◼️ابن فرناس کی دوسری ایجادات اور کارہائے نمایاں

وہ علم ریاضی ،شاعری ، طبعیات ، پراسرار علوم کا ماہر اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ انہوں نے پانی کی گھڑی ایجاد کی، کرسٹل بنانے کا فارمولا بنایا اور تو اور اپنی تجربہ گاہ میں انہوں نے شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنایا، جس میں لوگ بیٹھ کر ستارے، بادلوں کی حرکت اور ان کی گرج چمک کا مظاہرہ دیکھ سکتے تھے۔

ابن فرناس کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں گہری دلچسپی نے انہیں پانی سے چلنے والی گھڑیاں ایجاد کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے ان خصوصیات کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ریت اور کوارٹج کرسٹل کے ساتھ بھی تجربہ کیا۔ بہت سے مورخین انہیں شفاف شیشے بنانے کا سہرا دیتے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر اندلس کے مشہور شیشوں کے پیچھے بھی سرخیل تھے، جو آج بھی مانگ اور استعمال میں ہیں۔ بصارت سے محروم افراد نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا، کیونکہ اسے لینز بنانے کا سہرا دیا جاتا ہے، جس سے پڑھنے میں مدد ملتی ہے۔

ان کی ریاضی میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ایک دفعہ ایک تاجر بلادِ مشرق کے سفر سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل بن احمد کی کتاب اپنے ساتھ لائے۔ خلیل ایک عالم، شاعر اور ماہر لسانیات تھے، جو آٹھویں صدی میں بغداد میں ہو گذرا تھے۔ ان کا ایک کارنامہ عربی کی پہلی لغت تیار کرنا ہے۔ انہوں نے شاعری میں علم عروض اورحسابی تقطیع کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ کتاب اسپین میں بالکل نئی آئی تھی اور کوئی اس کے مندرجات سے واقف نہیں تھا اور نہ اس کی تشریح کرنے پر قادر تھا، چنانچہ یہ کتاب ابن فرناس کے سپرد کی گئی۔ وہ اسے لے کر ایک گوشے میں چند ساعت کے لئے بیٹھ گئے اور اس کے بعد اُنہوں نے اس کتاب کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب بڑی وضاحت سے اپنے حاضرین کو بیان کیے، جسے سن کر وہ ان کی مہارت اور یادداشت پر ششدر رہ گئے۔

822 میں جب نیا خلیفہ عبدالرحمان دوئم تخت نشین ہوے تو انہوں نے دنیا سے تمام با صلاحیت افراد کو اکٹھا کرنا شروع کیا، تو ان میں سے ایک ابن عباس تھے۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ میں پہلی انسانی پرواز ہے۔ وہ گھنٹوں پرندوں کو محو پرواز دیکھ کر انہیں کی طرح اڑنے کا خواہشمند تھے ۔ انہوں نے کئی برس پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ایروڈائنامیکس کا بغور مطالعہ کیا اور ایک دن یہ اعلان کیا کہ انسان بھی پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے ۔ جب ان کے ناقدین نے اُن کا مذاق اڑایا تو انہوں نے اپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ بذات خود کرنے کا اعلان کر دیا۔

انہوں نے پرندوں کے سے دو پر سائز میں اپنے وزن کے مطابق تیار کئے اور ان کے فریم ریشم کے کپڑے سے منڈھ دیے۔ پھر قرطبہ سے دو میل دور شمال مغرب میں واقع امیر عبدالرحمن الداخل کے بنائے ہوئے محل رصافہ کے اوپر واقع ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور کئی سو تماش بینوں کی موجودگی میں چٹان کے اوپر کھڑا ہو کر دونوں پر اپنے جسم کے ساتھ باندھ لئے ۔ تماشائی بڑی حیرت اور تعجب سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہے تھے ان کا خیال تھا کہ ابھی اسی کوشش میں اس پاگل سائنسدان کی ہڈیاں تک سلامت نہیں بچیں گی ۔

اپنی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد ابن فرناس نے تماشائیوں کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر پہاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنے پروں کی مدد سے ہوا میں کچھ دیر تیرتے رہے اور پہاڑ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک میدان میں بحفاظت اتر گئے۔ اگرچہ ان کی کمر لینڈنگ کے دوران دباو کی وجہ سے تھوڑی بہت متاثر ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 65 یا 70 برس بیان کی جاتی ہے ۔ یہ واقعہ نویں صدی کے دوسرے ربع میں پیش آیا اور اس طرح وہ انسانی تاریخ کا ہوا میں پہلے اڑنے والے انسان کہلائے۔

انہوں نے اپنا تجربہ اسی جگہ پر ارمین فرمان کی چھلانگ کے تقریبا تئیس برس بعد کیا ۔ یہ جگہ ایسی پہاڑیوں پر مشتمل تھی، جس کے نیچے ایک بہت بڑا ہموار قطعہ زمیں واقع تھا ۔ اس جگہ ہوا نیچے زمین سے ہو کر پہاڑیوں سے ٹکراتی تھی اور اس کے بعد بلندی کی جانب جاتی تھی ۔

وہاں پرندے ہوا کی اس قوت کی وجہ سے دوران پرواز فضا میں معلق رہنے کا مزہ اٹھاتے تھے ۔ ابن فرناس نے پچھلے تئیس برس ایروڈانامیکس کا مطالعہ کرتے ہوئے گذارے تھے ۔ مقررہ دن چھلانگ لگانے کے بعد ابن فرناس ہوا میں کچھ دیر پرواز کرتے رہے مگر لینڈنگ کے دوران زمین سے بری طرح ٹکرائے ۔ ان کی کمر اور چند دوسری ہڈیاں متاثر ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ ایک عرصہ صاحب فراش رہے ۔ مگر وہ کچھ مدت بعد اپنی اس معذوری اور بڑھاپے کے باوجود چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے ۔ یہ درد اور معذوری اس کی بقیہ عمر کے بارہ سال تک اس کے ساتھ رہی۔

قدامت پرست لوگوں کا کہنا تھا کہ خدا نے ان کو سزا دی ہے کیونکہ اس نے فانی انسان ہوتے ہوئے خدا کی دوسری مخلوق کی طرح بلندی پر جانا چاہا تھا ۔ اس طرح کے طعنے وہ اپنی بقیہ عمر جب بھی عوام کے درمیان جاتے، لوگوں سے سنتے رہے۔ اپنی جسمانی تکلیف کو کم کرنے کی خاطر وہ ادویات کا سہارا لیتے رہے، تاہم ان بقیہ سالوں میں اس نے اپنے پلانیٹیریم کو امیر اندلس کی فرمائش پر موبائل بنایا ۔ ریت سے بلور بنانے کا کام جاری رکھا ، پانی اور دوسری قسم کی گھڑیاں بنانا بھی جاری رکھا ۔

اپنے فارغ وقت میں وہ اکثر غور کرتے کہ آخر پرواز کرنے والے سوٹ میں کیا خرابی تھی، جس کی وجہ سے انہیں چوٹ کا صدمہ اٹھانا پڑا۔

ان کی سمجھ میں یہی آیا کہ پرندے اپنی پرواز اور لینڈنگ کے دوران اپنی دم کا استعمال کرتے ہیں ۔ انہوں نے پر تو بنا لئے تھے مگر دم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے تھے ۔ انہیں اپنی اس غلطی کا احساس شاید آخری سانس تک رہا ۔

ابن فرناس کے گزرنے کے کئی سال بعد تقریبا 1010ء میں ایک یورپی راہب ایلمر مالسمبری (Eilmer of Malmesbury)نے بھی عباس ابن فرناس کے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق اڑن مشین بنائی ۔ اور اس کے مزید کچھ صدیوں بعد پندھویں صدی میں لیونارڈو ڈاؤنچی نے اس میں اضافہ کیا ۔

علم ہئیت اور فلکیات (Astronomy) اور علوم نجوم (Astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ علی بن خلاق اندلسی اور مظفرالدین طوسی کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، مگر ان سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba)کے عظیم سائنسدان ”عباس بن فرناس“ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گارہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔

عباس بن فرناس وہ عظیم سائنسدان ہیں، جنہوں نے دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بناکر اڑایا۔ بعد ازاں البیرونی (Al-berouni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے (Equatorail Instruments) کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اس نے قلمی چٹانوں کو توڑنے کے لیے مشین بنائی اور تال ترازُو (Metribine) بھی بنائی ۔ اس کے علاوہ آبی گھڑی بھی ایجاد کی۔

◼️ ابنِ فرناس کے بارے میں مختلف ماہرین کی رائے

امریکی مستشرق فِلپ حِتی کے مطابق تاریخ میں پہلے شخص، جنہوں نے سائنسی طور پر پرواز کی کوشش کی۔

ہیوسٹن یونیورسٹی سے منسلک جان ایچ لین ہارڈ کہتے ہیں کہ تب ایک شمالی پٹی کے علاوہ موجودہ سپین اور پرتگال کے تمام علاقے پر قرطبہ کی اندلسیہ خلافت قائم تھی۔

’یہ اسلامی فن اور سائنس کے عروج کا دور تھا۔ قرطبہ اور بغداد دنیا کے جڑواں ثقافتی مراکز تھے۔‘ 822 میں عبدالرحمٰن ثانی نے تخت سنبھالا اور تعمیرات عامہ کے بہت سے کام کروائے۔

حِتی لکھتے ہیں کہ ’یہاں پکی سڑکیں اور پختہ شاہراہیں تھیں۔ ان شاہراہوں کو مِیلوں تک منور رکھا جاتا تھا حالانکہ اس زمانے سے 700 سال بعد بھی لندن شہر کی کسی شاہراہ کو کوئی پبلک لیمپ نصیب نہیں ہوا تھا اور شہر پیرس کی سڑکوں کی بھی صدیوں تک ایسی حالت رہی کہ بارش کے موسم میں جو کوئی اپنی دہلیز سے نیچے اترتا اس کے پاؤں ٹخنوں تک کیچڑمیں دھنس جاتے۔‘

علوم کے سرپرست ان ہی خلیفہ نے فلکیات، طب اور بہت سی ٹیکنالوجیز کی تشکیل کو فروغ دیا۔

مورخ گلیئر ڈی اینڈرسن لکھتی ہیں کہ قرون وسطیٰ کی فکری اور فنکارانہ اختراع کے اس دور نے آخر کار یورپ کے سائنسی انقلاب کی تشکیل کی۔

خیالات سے بھر پور نوجوان بربر فلکیات دان اور شاعر عباس ابنِ فرناس اسی منظر نامے میں داخل ہوئے۔

اسلامی فنون اور فن تعمیر کی مورخ گلیئر ڈی اینڈرسن کے مطابق ابن فرناس بہت سی صلاحیتوں کے حامل تھے: شاعر، موسیقار، فلسفی اور ’سائنسدان‘ جنھوں نے بہترین سائنسی آلات تیار کیے۔

مورخ اور فلسفی ول دورانٹ نےالجزائر کے مورخ احمد المقری کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابن فرناس نے عینک، پیچیدہ وقت پیما اور ایک اڑنے والی مشین بھی ایجاد کی۔

لین ہارڈ کے مطابق ابنِ فرناس نے بے رنگ شیشے کی تیاری کا ایک طریقہ وضع کیا، شیشے کے مختلف پلانیسفیئرز ایجاد کیے۔ راک کرسٹل کاٹنے کا طریقہ وضع کیا جس سےاندلس کو کٹائی کے لیے کوارٹز (سنگ مُردہ) مصر بھجوانے کی ضرورت نہ رہی۔ انھوں نے المقاتہ، ایک پانی کی گھڑی، بھی بنائی۔ انھوں نے ایک آلہ بنایا جس سے ستاروں اور سیاروں کی حرکت کا پتا چلتا۔

اسی لیے ابنِ فرناس کو ’حکیم الاندلس‘ بھی کہا جاتا تھا یعنی اندلس کے صاحب عقل۔

گلیئر ڈی اینڈرسن ابنِ فرناس پر اپنی کتاب ’اے برِج ٹو دا سکائی‘ میں لکھتی ہیں کہ انھوں نے سائنس اور آرٹ کے امتزاج سے دلچسپ تجربات کیے۔

’انھوں نے اپنے گھر میں ایک چیمبر بنایا جو قرون وسطیٰ کا تھری ڈی ورچوئل ریئلٹی تجربہ تھا۔ دیکھنے والے یہ تصور کرتے کہ وہ ستارے بجلی اور بادل دیکھ رہے ہیں اوربادلوں کی گھن گرج سن رہے ہیں۔‘

گلیئر ڈی اینڈرسن لکھتی ہیں کہ کئی لوگوں کے یہ باعث حیرت ہو گا کہ نشاۃ ثانیہ کے اٹلی میں لیونارڈو ڈاونچی کے پرندوں کی پرواز اور اڑنے والی مشینوں کی تصویرکشی سے صدیوں پہلے اسپین کے شہر قرطبہ میں کئی علوم کے ماہر ایک نڈر شخص نے انسانی اڑان کا ابتدائی تجربہ کیا۔

المقری کہتے ہیں کہ نویں صدی کی ایک نظم میں دراصل فرناس کی پرواز کی جانب اشارہ ہے۔ یہ نظم ایک درباری شاعرمومن ابن سعید نے لکھی تھی جو ابن فرناس سے واقف تھے اور عام طور پر ان پر تنقید کرتے تھے۔

ایک شعر کا مفہوم ہے کہ ’وہ اپنی پرواز میں ققنس سے زیادہ تیزی سے اڑا، جب اس نے گِدھ کے پر پہنے۔‘

حِتی لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے اڑنے کی جو مشین بنائی اس میں دو پر لگے ہوئے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی مدد سے انھوں نے ہوا میں دور تک پرواز کی مگر جب وہ نیچے آئے تو گر کر زخمی ہوگئے کیونکہ اس مشین میں دُم نہیں تھی۔‘

ان کی موت 890 اور 895ع کے درمیان کسی وقت ہوئی اور بہت سے مورخین کا کہنا ہے کہ ان کی موت اس کی چوٹ کی وجہ سے جلدی ہوئی ہوگی۔

بہرحال اسی کارنامے کے اعتراف میں خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک میں کئی ہوائی اڈوں، پلوں، پہاڑیوں، پارکوں، راستوں اور سائنسی اداروں کے نام ان کے نام پر رکھے گئے ہیں۔

1973 میں عراق میں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ابن ِفرناس کا مجسمہ نصب کیا گیا۔

1976 میں بین الاقوامی فلکیاتی یونین (آئی اے یو) نے چاند پر ایک گڑھے کا نام ابنِ فرناس رکھنے کی منظوری دی۔

2011 میں اسپین کے شہر قرطبہ میں ایک پُل کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ ایک برطانوی ہوائی کمپنی کا نام فرناس ایئر ویز رکھا گیا۔

لیبیا نے ڈاک ٹکٹ بنائے۔ بغداد کے شمال میں ابن ِفرناس ائیرپورٹ پر تو 2003 میں جنگ بھی ہوتی رہی۔ دبئی کے ابن بطوطہ مال میں ان کی پرواز کا نمونہ ایک چھت پر سجا ہے۔

ماخذ: مختلف ویب سائٹس۔ ترجمہ و ترتیب: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close