مزاحمت کا استعارہ: تیانانمن اسکوائر کے ’ٹینک مین‘ کی کہانی

ترجمہ و ترتیب: امر گل

چین کے شہر بیجنگ کے تیانانمن اسکوائر پر ہونے والے قتل عام کو پینتیس برس بیت چکے ہیں۔ چار جون کے اس واقعے کو چین میں ہمیشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں 1989 کے موسم گرما کے آغاز میں اس دن پیش آنے والے واقعات جدید سیاسی تاریخ میں بدترین خون ریزی کے طور پر درج ہیں۔

انہی واقعات میں ایک ایسے منظر کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا، جو بیسویں صدی کی مشہور ترین تصاویروں میں سے ایک بن گئی

ٹینکوں کی قطار کے سامنے ایک چینی شخص، جو تن تنہا فوجی ٹینک کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اسے رکنے کا اشارہ کر رہا ہے۔

اور پھر جب اس منظر کی تصویر منظر عام پر آئی تو وہ شخص اور اس کی یہ تصویر مزاحمت کا استعارہ بن گئی

آرٹسٹ اور مجسمہ ساز چن ویمنگ نے ’ٹینک مین‘ کا شہرہ آفاق مجسمہ بنایا، جسے یکم جون، 2021 کو کیلیفورنیا کے صحرائی شہر یرمو کے لبرٹی مجسمہ پارک میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ پارک اور مجسمے چینی نژاد نیوزی لینڈ کے مصور اور مجسمہ ساز چن ویمنگ کی تخلیق ہیں، جنہوں نے دو سال قبل بیجنگ کے تیانانمن سکوائر میں 1989 کی جمہوریت نواز تحریک کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر اس کی نقاب کشائی کی تھی

لیکن اس ساری کہانی میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کہانی کے مرکزی کردار اس شخص کی شناخت آج تک واضح نہیں ہو سکی ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ان کا انجام کیا ہوا۔

ایک برطانوی میگزین (ٹیبلائیڈ) میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹینک مین انیس سال کا ایک طالب علم تھا، جس کا نام وانگ ویلن تھا لیکن کسی معتبر ذریعے سے اس کی تصدیق آج تک نہیں ہو سکی۔

دہائیوں بعد اس کہانی کے مصنف نے اعتراف بھی کیا تھا کہ اس نے یہ نام خود ایجاد کیا تھا۔

امریکہ میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن ینگ جینلی نے، جو تیانانمن اسکوائر پر ہونے والے احتجاج میں بھی شامل تھے، 2019 میں ایک پٹیشن کے ذریعے چینی صدر شی جن پنگ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ٹینک مین سے متعلق حقائق عوام کے سامنے لائیں کہ ’ٹینک مین‘ کے ساتھ کیا ہوا تھا، لیکن اس بابت پھر کوئی پیش رفت کبھی نہیں ہوئی۔

 4 جون 1989 کو ہوا کیا تھا؟

ہسٹری ویب سائٹ کے مطابق تیانانمن اسکوائر احتجاج 1989 میں طلباء کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے تھے، جن میں چین میں جمہوریت، آزادی اظہار اور آزاد پریس کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اپریل 1989 میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک سابق رہنما، جس نے چین میں جمہوری اصلاحات متعارف کرانے کے لیے کام کیا تھا، کی موت کے بعد جمہوریت کے حامی مظاہرین نے ابتدائی طور پر بیجنگ سے تیانمن اسکوائر تک مارچ کیا۔ اصلاح پسند رہنما ہو کی موت کا سوگ مناتے ہوئے، طلباء نے ملک بھر میں مزید کھلی، جمہوری حکومت کا مطالبہ کیا۔ آخرکار ہزاروں لوگ تیانانمن اسکوائر میں طلباء کے ساتھ شامل ہوئے، مئی کے وسط تک احتجاج کی تعداد دسیوں ہزار تک بڑھ گئی۔ مظاہروں کو 4 اور 5 جون 1989 کو چینی حکومت کی جانب سے ایک مہلک کریک ڈاؤن میں روک دیا گیا تھا، جسے تیانانمین اسکوائر قتل عام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بدامنی کا پس منظر:
مظاہروں کا نتیجہ چین میں سیاسی آزادی کی حدود کے بارے میں طویل عرصے سے ابھرتی ہوئی مایوسی کے نتیجے میں ہوا — اس کی یک جماعتی حکومت کی وجہ سے، کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ — اور جاری معاشی مشکلات۔

اگرچہ چین کی حکومت نے 1980 کی دہائی میں متعدد اصلاحات کا آغاز کیا تھا جس نے ملک میں سرمایہ داری کی ایک محدود شکل قائم کی تھی، لیکن غریب اور محنت کش طبقے کے چینیوں کو اب بھی اہم چیلنجوں کا سامنا تھا، جن میں ملازمتوں کی کمی اور غربت میں اضافہ بھی شامل ہے۔

طلباء نے یہ بھی دلیل دی کہ چین کے تعلیمی نظام نے انہیں عالمی، آزاد منڈی سرمایہ داری کے عناصر کے ساتھ معاشی نظام کے لیے مناسب طور پر تیار نہیں کیا۔ چین کی حکومت کے اندر کچھ رہنما مظاہرین کے مقصد سے ہمدردی رکھتے تھے، جب کہ دوسروں نے انہیں سیاسی خطرے کے طور پر دیکھا۔

مارشل لاء کا اعلان:
13 مئی 1989 کو طلبہ کے متعدد مظاہرین نے بھوک ہڑتال شروع کی، جس نے چین بھر میں اسی طرح کی دوسری ہڑتالوں اور احتجاج کو متاثر کیا۔ جیسے جیسے یہ تحریک بڑھی، چینی حکومت احتجاج سے بے چین ہوتی گئی، خاص طور پر جب اس تحریک نے 15 مئی کو سوویت یونین کے وزیر اعظم میخائل گورباچوف کے دورے میں خلل ڈالا۔

گورباچوف کے لیے ایک استقبالیہ تقریب اصل میں تیانانمین اسکوائر کے لیے طے کی گئی تھی، اس کے بجائے ہوائی اڈے پر منعقد کی گئی تھی، حالانکہ ان کا دورہ بغیر کسی واقعے کے گزر گیا۔ اس کے باوجود، مظاہروں کو کم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے، ڈینگ ژاؤپنگ کی حکمران ’کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ‘ (سی پی سی) نے 20 مئی کو دارالحکومت میں مارشل لا کے اعلان کے بعد ملک میں چھ ہفتوں سے جاری مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج کو طلب کیا تھا۔

مئی کے آخر تک دس لاکھ سے زیادہ مظاہرین تیانمن اسکوائر اور اس کے آس پاس جمع ہو چکے تھے۔ انہوں نے روزانہ مارچ اور نگرانی کا انعقاد کیا، اور میڈیا تنظیموں کی طرف سے تقریبات کی تصاویر ریاستہائے متحدہ، یورپ اور دنیا بھر کے سامعین تک پہنچائی گئیں۔

تیانانمین اسکوائر قتل عام:
جب فوج کی ابتدائی موجودگی احتجاج کو روکنے میں ناکام رہی تو چینی حکام نے اپنی جارحیت بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 4 جون کی صبح 1 بجے، چینی فوجیوں اور پولیس نے تیانان مین اسکوائر پر دھاوا بول دیا، ہجوم پر براہ راست گولیاں چلائیں۔

15 اپریل کو اصلاح پسند جماعت کے رہنما ہو یاوابنگ کی ہلاکت کے بعد دس لاکھ سے زیادہ چینی نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کرنے، ریاستی بدعنوانی کے خاتمے، زیادہ شفافیت اور شہری آزادیوں میں اضافے کے مطالبے کے لیے درالحکومت بیجنگ کی پہچان تیانانمن اسکوائر پر قبضہ کرلیا تھا۔

ابتدائی طور پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے عدم تشدد کے طریقوں کو استعمال کرنے کی کوشش کے بعد انہیں یہ دھمکی دی گئی کہ ان کے پاس یہ جگہ چھوڑنے کے لیے ایک گھنٹہ ہے، لیکن اس کے محض پانچ منٹ کے بعد ہی چینی فوج کے 27ویں گروپ کے ارکان نے خودکار رائفلوں سے ہجوم پر فائرنگ شروع کردی۔

قریبی عمارتوں کی چھتوں سے سنائپرز نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فوجیوں نے زخمیوں کو رائفلوں سے مزید تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد بکتر بند گاڑیاں مظاہرین پر چڑھ دوڑیں، جنہوں نے انسانی زنجیر بنانے والے طلبہ کو روند ڈالا۔

اس بربریت کے بعد سیوریج لائنوں میں پانی کی بجائے خون بہہ رہا تھا، جب کہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے بلڈوزروں کا استعمال کیا گیا اور زخمیوں کو سائیکل رکشہ میں ہسپتال لے جایا گیا۔

سی پی سی کا اصرار تھا کہ یہ قتل عام ’انقلابی فساد‘ سے بچنے کے لیے ضروری تھا۔ چین نے سرکاری طور پر اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین سے کم بتائی جبکہ موقعے پر موجود چینی ریڈ کراس کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں کی حقیقی تعداد دو ہزار سات سو کے لگ بھگ تھی۔

اُس وقت چین میں برطانیہ کے سفیر سر ایلن ڈونلڈ کی 2017 میں منظر عام پر لائے گئے ایک سفارتی خط کے مطابق مرنے والوں کی حقیقی تعداد 10،454 ہے۔

اگرچہ ہزاروں مظاہرین نے صرف فرار ہونے کی کوشش کی، دوسروں نے جوابی حملہ کیا، حملہ آور فوجیوں پر پتھراؤ کیا اور فوجی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اس دن بیجنگ میں نامہ نگاروں اور مغربی سفارت کاروں نے اندازہ لگایا تھا کہ تیانان مین اسکوائر کے قتل عام میں سیکڑوں سے ہزاروں مظاہرین مارے گئے تھے، اور 10,000 سے زیادہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

گورباچوف سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں نے فوجی کارروائی کی مذمت کی اور ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد امریکی کانگریس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے چین کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔

’ٹینک مین‘ اور ان کی تصویر کی کہانی

حالیہ تاریخ میں تیانانمن اسکوائر نے ’ٹینک مین‘ کے لیے سب سے شہرت حاصل کی۔ اس اسکوائر پر چار ٹینکوں کے سامنے دو شاپنگ بیگز کے ساتھ ساکت کھڑے اس تنہا شخص کی منظر کشی کو کسی بھی مظاہرے یا مزاحمت کے لیے سب سے مشہور تصویر مانا جاتا ہے۔

اس غیر معمولی لمحے کو پانچ غیر ملکی پریس فوٹوگرافروں نے ایک ہوٹل کی بالکونی سے نیچے کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے عکس بند کیا تھا۔

اسٹوارٹ فرینکلن کی یہ تصویر ’ٹائم‘ اور ’لائف‘ میگزینز میں اس وقت شائع ہوئی، جب اس فلم رول کو چائے کے ڈبے میں چھپا کر چین سے اسمگل کیا گیا تھا۔

1990 میں سال کے ’ورلڈ پریس فوٹو‘ کا ایوارڈ جیتنے والے چارلی کول صرف اس وجہ سے اس تصویر کو باہر لے جانے میں کامیاب ہوئے تھے کیوں کہ انہوں نے فلم رول کو ٹائلٹ پیپر رول میں چھپا لیا تھا اور اس کے بدلے ایک ڈمی فلم رول چینی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کو ایک اعترافی بیان پر بھی دستخط کرنا پڑے، جس میں ان سے زبردستی یہ بیان لیا گیا کہ انہوں نے مارشل لا کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تصاویر بنائی تھیں۔

ایک اور فوٹوگرافر اسٹورٹ وڈنر کی اس لمحے کی ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے لی گئی تصویر اشاعت کے لیے سب سے زیادہ بھیجی جانے والی تصویر بن گئی۔

’ٹینک مین‘ کی شناخت انیس سالہ آثار قدیمہ کے طالب علم وانگ ویلن کے طور پر کی گئی تھی لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری جیانگ زیمین کا کہنا ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے بارے میں لاعلم ہیں، لیکن ان کا اصرار ہے کہ انہیں ہلاک نہیں کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ تائیوان فرار ہوگے تھے۔

’ٹینک مین‘ کی کہانی کو 2013 میں لوسی کرک ووڈ کے ڈرامے ’چمریکا‘ کا موضوع بنایا گیا تھا۔

آج چینی میڈیا میں تیانانمن اسکوائر واقعے کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس جگہ پر پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی تین دہائیاں پہلے ہونے والے اس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

چینی فنکار بیدیوکاؤ نے اس واقعے کی سالگرہ کے موقع پر ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ہے، جس میں انہوں نے پوری دنیا کے نوجوانوں کو اب بھی چین میں موجود آمرانہ حکومت کی مخالفت کے اظہار کے لیے نمایاں مقامات کے سامنے ’ٹینک مین‘ کی طرح کا روپ دھار کر اہم مقامات کے سامنے ان کا پوز بنانے کی ترغیب دی ہے۔

حوالہ جات: دی ہسٹری، انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا، انڈپینڈنٹ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close