ایک پُر سکون شام، 3 اپریل 1968 کی شب، جب میمفس، ٹینیسی میں بادلوں نے زمین کو اپنی چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ شہر کے صفائی کارکن (سینیٹری ورکرز) اپنی تنخواہوں میں اضافے اور برابری کے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ ان مظاہروں کا آغاز یکم فروری 1968ع کو دو ورکروں کی حادثانی موت سے ہوا تھا، جس کی بڑی وجہ مناسب حفاظتی نظام اور آلات کا نہ ہونا تھا۔
سیاہ فام ورکروں کو باقیوں کے مقابلے میں نہ صرف کم تنخواہیں بلکہ غیر انسانی سلوک کا بھی سامنا تھا۔ اس تحریک میں تیزی 12 مارچ کو آئی، جب 1300 کے قریب ورکرز نے کام پر آنے سے انکار کر دیا۔
دوسری جانب میمفس شہر کے میئر ہینری لوئب نے سیاہ فام ورکرز کی تنخواہوں میں اضافے اور امتیازی سلوک کے خاتمے جیسے مطالبات قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا تھا۔ ورکرز روزانہ کی بنیاد پر اکٹھے ہو کر احتجاج کر رہے تھے۔ ان کی تحریک میں اب ریاست سے باہر کے بھی انسانی حقوق کے رہنما شریک ہونے لگے تھے۔ انہی میں سے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر بھی تھے۔
ورکرز سے اس بڑے ہجوم سے اپنے خطاب میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کہا: ”مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کچھ بیمار سفید فام بھائی کیا سلوک کریں گے، ہمیں آگے کچھ مشکل دن درپیش ہیں، لیکن اب یہ بات میرے لیے اہم نہیں رہی، کیونکہ میں نے پہاڑ کی چوٹی کو دیکھا ہے۔۔۔ میں نے ارضِ موعودہ کو دیکھا ہے، وہ سرزمین، جس کا ہم سے وعدہ ہے۔ ہو سکتا ہے میں آپ کے ساتھ وہاں نہ پہنچ سکوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ آج رات یہ جان لیں کہ ہم بحیثیت قوم، وعدے کی سرزمین تک ضرور پہنچیں گے، جہاں امن، سلامتی اور مساوات ہوگی۔“
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ایک روحانی کیفیت میں اپنی زندگی کی سب سے گہرائی سے نکلی ہوئی تقریر کر رہے تھے۔ یہ ایک مختلف اور منفرد تقریر تھی۔ اس تقریر میں قدرتی روانی، شعلہ بیانی اور دلوں پر چھا جانے والا سحر تھا۔ ان کی آواز میں ایک ایسی گونج تھی جو وقت کی زنجیروں کو توڑ کر تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے نقش ہونے والی تھی۔
یہ الفاظ کسی عام مقرر کے نہیں تھے۔ یہ ایک ایسے رہنما کی صدا تھی جو جانتا تھا کہ اس کا وقت قریب آ چکا ہے، لیکن اس کی روح ایک ایسے خواب کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، جسے نہ وقت فنا کر سکتا تھا، نہ گولیاں مٹا سکتی تھیں۔
مارٹن لوتھر کنگ کی یہ آخری تقریر محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک پیشین گوئی تھی، ایک ایسا پیغام جو انسانیت کی میراث بن گیا۔ وہ جانتے تھا کہ زندگی ایک محدود حقیقت ہے، لیکن اُن کے خوابوں کی سرحدیں لامحدود تھیں۔ ان کی آنکھوں نے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا تھا جہاں رنگ اور نسل کی بنیاد پر کوئی دیوار کھڑی نہ ہو، جہاں ہر انسان کو عزت اور وقار ملے، اور جہاں محبت اور مساوات کا چراغ ہمیشہ روشن رہے۔
اس تقریر کے دوران ان پر جیسے وجدان اور معرفت کی کیفیت طاری تھی۔ واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے بول رہے ہیں۔ ویسے بھی وہ بلا کے مقرر تھے اور ان کی تقریر کے دوران لوگوں پر سحر طاری ہو جاتا تھا۔
کنگ اس سے پہلے بھی دو بار میمفس جا چکے تھے تاکہ صفائی کارکنوں کی ہڑتال میں ان کی حمایت کر سکیں۔ 18 مارچ کو انہوں نے ایک جلسے میں پندرہ ہزار افراد سے خطاب کیا اور اگلے ہفتے ایک مارچ کی قیادت کرنے کا وعدہ کیا۔ 28 مارچ کو جیمز لاسن اور مارٹن لوتھر کنگ نے ایک مارچ کی قیادت کی۔ اس روز پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ کے دوران 16 سالہ لیری پائن مارا گیا، جس کے بعد مارچ کو فوری طور پر منسوخ کر دیا گیا۔ جنوبی کرسچن لیڈرشپ کانفرنس کے ساتھیوں کے مشورے کے خلاف، کنگ 3 اپریل 1968 کو میمفس واپس لوٹ آئے تاکہ تحریک میں عدم تشدد کے اصولوں کو دوبارہ بحال کر سکیں۔
عدم تشدد کے قائل مارٹن اس امید پر اگلی بار اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ 3 اپریل کو ایک بار پھر میمفس شہر آئے کہ اب تشدد نہیں ہوگا۔ اب کی بار سفر میں کچھ تاخیر بھی ہوئی کیونکہ ان کی فلائٹ کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی تھی۔
اس بار میمفس پہنچنے کے بعد کنگ تھکن اور بخار کا شکار تھے اور ان کا گلا خراب تھا۔ انہوں نے رالف ابیرنتھی سے درخواست کی کہ وہ رات کے جلسے میں ان کی جگہ تقریر کریں۔ جب ابیرنتھی نے اسٹیج سنبھالا، تو انہوں نے سامعین کی مایوسی کو محسوس کیا جو بڑی تعداد میں کنگ کو سننے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے ہوٹل میں کنگ کو فون کیا اور انہیں موسم کی خرابی کے باوجود آنے پر راضی کر لیا۔ کنگ کے پہنچنے پر سامعین نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔
اپنی زندگی کی آخری تقریر میں مارٹن لوتھر کنگ نے دس برس قبل ہونے والے قاتلانہ حملے کا تذکرہ بھی کیا۔ اس حملے میں سیاہ فام خاتون (جو ذہنی مریضہ تھی) نے تیز دھار آلے سے کنگ کو نشانہ بنایا تھا۔ حملے میں ان کی شہہ رگ انتہائی معمولی فرق سے بچ گئی تھی۔ حملے کے بعد ان کی سرجری کرنے والے ڈاکٹر نے انہیں بتایا تھا کہ اس دوران اگر وہ ذرا سی بھی حرکت کرتے یا انہیں چھینک بھی آجاتی تو ان کی موت واقع ہو سکتی تھی۔
ویسے تو مارٹن لوتھر کنگ نے 3 اپریل کی اپنی آخری تقریر میں قتل کی دھمکیوں کے تذکرے کے ساتھ کچھ اشارے بھی دیے تھے۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ ان کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انتالیس سالہ کنگ نے فی البدیہہ تقریر کرتے ہوئے کہا، ”میمفس میں کچھ ہو رہا ہے۔۔۔ ہماری دنیا میں کچھ ہو رہا ہے۔۔۔“ انہوں نے قدیم مصر، رومی سلطنت، نشاۃ ثانیہ، اور امریکی خانہ جنگی جیسے اہم تاریخی ادوار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر خدا انہیں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں چند سال جینے کی اجازت دے دے تو وہ خوش ہوں گے۔
بِرمنگھم 1963 کے واقعات یاد کرتے ہوئے کنگ نے حالات کی مایوس کن تصویر پیش کی، لیکن ساتھ ہی کہا کہ یہ زندہ رہنے کا بہترین وقت ہے۔ اپنی تقریر کے اختتام پر، انہوں نے 1958 میں ہونے والے قاتلانہ حملے کو یاد کیا اور کہا کہ اگر وہ اس حملے میں مر جاتے تو طلبہ کے احتجاج، فریڈم رائیڈز، البانی تحریک، 1963 کا واشنگٹن مارچ اور 1965 کا سیلما سے مونٹگمری مارچ نہ دیکھ پاتے۔
اپنی تقریر کے آخری حصے میں، کنگ نے واضح کیا کہ وہ موت سے خوفزدہ نہیں ہیں: ”ہر انسان کی طرح، میں بھی لمبی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔۔ لمبی عمر کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن اب میں اس کی فکر نہیں کرتا۔۔ میں صرف خدا کی مرضی پوری کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اور اسی لیے میں آج رات خوش ہوں؛ میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا؛ میں کسی انسان سے نہیں ڈرتا۔ میری آنکھوں نے خدا کے جلال کا نظارہ کر لیا ہے۔“
یہ الفاظ اُن کے دل کی گہرائی سے نکلے اور سامعین کے دلوں میں اتر گئے۔ لیکن شاید وہ سب اس لمحے کی عظمت کو پوری طرح محسوس نہ کر سکے۔
لیکن پھر بھی کچھ لوگ تھے، جو شاید اس لمحے کو محسوس کر رہے تھے۔ عینی شاہدین، بشمول ابیرنتھی، اینڈریو ینگ، اور جیمز جارڈن نے کہا کہ کنگ کی آنکھوں میں آنسو تھے، جب انہوں نے اپنی تقریر مکمل کی۔ ”ایسا لگتا تھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں، ’الوداع، میں جانا نہیں چاہتا‘۔“
اگلے دن، صرف چوبیس گھنٹے بعد، 4 اپریل کی شام، جب انتالیس سالہ مارٹن لوتھر کنگ ہوٹل کی بالکونی میں کھڑے تھے، تو انہیں ایک سفید فام نسل پرست امریکی جیمز ارل رے نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ کنگ کے قاتل جیمز ایرل رے نے سامنے کی عمارت میں ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا، جہاں سے اس نے گولی چلائی۔ کنگ کو گولی لگنے کے فوری بعد اسپتال لے جایا گیا جہاں 7 بج کر 5 منٹ پر ان کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔ وقت ٹھہر سا گیا۔ لیکن اُن کی روح، اُن کا پیغام اور اُن کا خواب موت سے آزاد ہو کر نسلوں کے دلوں میں جاگزین ہو گیا۔
ان کے قتل پر امریکا بھر میں ہنگامے برپا ہو گئے، جو تقریباً 2 ماہ تک جاری رہے۔ کنگ کے قتل کے روز جان ایف کینیڈی کے بھائی رابرٹ ایف کینیڈی نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک مشہور زمانہ تقریر کی۔ رابرٹ اس وقت ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدواران کی دوڑ میں شامل تھے۔ 5 جون 1968ء کو ایک قاتلانہ حملے میں رابرٹ بھی مارے گئے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ سفید فام میڈیا نے نسلی امتیازات کے خلاف کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کی بجائے فسادات پر زیادہ کوریج کی۔
مارٹن لوتھر کنگ کو قتل سے پہلے بھی کئی دھمکیاں مل چکی تھیں۔ سنہ 1963ء میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد وہ اپنی بیوی کو بتا چکے تھے کہ ان کا انجام بھی یہی ہوگا۔ کوریٹا اسکاٹ کنگ نے اپنی ذاتی یادداشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا ”کینیڈی کے قتل پر مارٹن نے کہا کہ یہ ایک بیمار معاشرہ ہے، جو میرے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے گا۔“
دراصل جان ایف کینیڈی کی صدارت میں نسل پرستی پر مبنی کئی قوانین کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ سنہ 1960ء میں امریکی صدارتی انتخابات سے قبل مارٹن اٹلانٹا میں ایک مظاہرے میں شریک تھے، جہاں سے اسے گرفتار کر کے چار ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس وقت کے دونوں ہی صدارتی امیدواروں رچرڈ نکسن اور جان ایف کینیڈی سے اس سلسلے میں مدد کی اپیل کی گئی۔ رچرڈ نکسن جو مارٹن کے زیادہ قریب تھے، انہوں نے کسی قسم کا بیان دینے یا مدد سے انکار کر دیا۔ جبکہ جان ایف کینیڈی نے نہ صرف بھرپور مدد کی بلکہ اپنے بھائی کو جو وکالت کرتا تھا، اسی کام پر لگا دیا۔
دو دن بعد جب مارٹن رہا ہو کر باہر آئے تو اس کے والد نے کُھل کر جان ایف کینیڈی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ 8 نومبر 1960ء کو جب جان ایف کینیڈی معمولی برتری سے الیکشن جیت کر صدر بنے تو مورخین کے مطابق، یہ فرق دراصل سیاہ فاموں کی حمایت کا نتیجہ تھا ورنہ نکسن صدارتی الیکشن جیت جاتے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنے قتل سے ٹھیک ایک برس پہلے 4 اپریل 1967ء کو نیویارک میں ایک شہرہ آفاق تقریر کرتے ہوئے مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی حکومت کو دنیا بھر میں جاری پُرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ کنگ نے کہا کہ اس جنگ میں امریکی افواج دس لاکھ سے زائد افراد کو قتل کر چکی ہے اور اس سب کا مقصد ویتنام کو امریکی کالونی بنانا ہے۔ ان بیانات سے کنگ کو جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد صدر بننے والے لنڈن بی جانسن کی حمایت سے ہاتھ دھونے پڑے مگر معاملہ یہیں تک محدود نہ رہا۔ کنگ کے بقول جب انہوں نے امریکی سیاہ فاموں کی بات کی تو امریکی پریس نے ان کے موقف کی حمایت کی مگر یہی بات جب انہوں نے ویت نامی بچوں کے حوالے سے کی تو اس معاملے پر دوہرا معیار دکھاتے ہوئے ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ ویتنام جنگ میں براہِ راست امریکی مداخلت کو کئی برس بیت چکے تھے۔ مگر ہلاکتوں کے اعتبار سے امریکی افواج کے لیے یہ سال سب سے مہلک ثابت ہوا تھا۔ کئی امریکی ریاستوں میں ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ اسی زمانے میں نسلی امتیازات کے خلاف تحریکات بھی جاری تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے سرگرم مارٹن لوتھر کنگ نے پہلے تو کُھل کر اس مہم جوئی کی مخالفت سے گریز کیا مگر ویتنام جنگ کے بڑے مخالف جیمز ویول اور پھر باکسر محمد علی کو دیکھ کر وہ بھی اس معاملے پر کھل کر سامنے آ گئے تھے۔
اچھائی اور انسانی مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے دنیا بھر کے انسان مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسے لوگوں کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، کیونکہ انہوں نے بنے بنائے غلط راستوں پر چلنے کے بجائے پر خطر، مشکل اور پر آشوب راہ کا انتخاب کیا، جو درست تھی۔ انہوں نے دنیا کی بدصورتی کم کرنے کے لیے اپنی خوبصورت زندگی داؤ پر لگا دی۔
کنگ 15 جنوری 1929 کو بپٹسٹ پادریوں کے جس خاندان میں پیدا ہوئے اُس کے بہت سے افراد پادری بنے۔ کنگ اٹلانٹا میں جس دور میں پلے بڑھے اُس وقت جِم کرو قوانین نے جنوب میں سیاہ فاموں کے لیے علیحدگی اور امتیاز کو روزمرہ کی زندگی کی حقیقت بنایا ہوا تھا۔
کنگ نے اٹلانٹا کے مور ہاؤس کالج میں تعلیم حاصل کی جہاں وہ مذہب کو سماجی تبدیلی میں تیزی سے تبدیلی لانے والے ایک عنصر کے طور پر دیکھنے لگے۔ انہوں نے جنوبی ریاست الاباما اواپس آنے سے قبل بوسٹن یونیورسٹی کے مذاہب کے سکول سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے الاباما کے شہر منٹگمری میں ڈیکسٹر ایونیو بیپٹسٹ چرچ کے پادری کے طور پر خدمات انجام دیں۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے والد سیاہ فام مشنری تھے۔ ان کا شمار امریکہ کی سول رائٹس موومنٹ کے ابتدائی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز (NAACP) کے مقامی لیڈر تھے۔ انہوں نے بیٹے کا ابتدائی نام ’مائیکل کنگ‘ رکھا تھا، مگر 1934 میں یورپ کے دورے کے دوران جرمنی جاکر وہ پاپائیت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے پروٹیسٹنٹ فرقے کے بانی مارٹن لوتھر سے بے حد متاثر ہوئے۔ واپس آ کر انہوں نے اپنا اور بیٹے کا نام تبدیل کر دیا۔ انہوں نے اپنا نام مارٹن لوتھر کنگ سینئر اور بیٹے کا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر رکھ لیا اور بیٹے کو شہری حقوق کی تحریک کی جانب بھی راغب کیا۔
15 جنوری 1929 کو اٹلانٹا جارجیا میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے پیدا ہونے سے بہت پہلے 1864 میں ابراہیم لنکن نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے امریکہ میں تمام غلاموں کی آزادی اور غلامی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم محض قوانین کے نفاذ سے صدیوں سے رائج نسلی منافرت، نفرت، تعصب، تحقیر آمیز رویہ، جبر اور استحصال کا ظالمانہ نظام کو آسانی سے بدلنا ممکن نہیں تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ 1875 میں خانہ جنگی کے بعد تعمیر نو کے مرحلے میں امریکہ کی جنوبی ریاستوں نے فیڈریشن اور ریاستوں کی لڑائی کے بعد ملنے والی نئی دستوری خود مختاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاہ فام باشندوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر محکم رکھنے کے لیے قوانین نافذ کرنے اور نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے۔
افریقن امریکن باشندوں پر تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، روزگار اور تفریح سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی روا رکھا جانے لگا۔ ان قوانین اور قواعد و ضوابط کی مدد سے بدترین معاشی اور سیاسی استحصال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ روزگار اور ملازمتیں ختم کردی گئیں یا اجرت کم دی جانے لگی۔ ووٹ کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اس کا استعمال ناممکن بنا دیا گیا۔ امریکی سیاہ فام باشندوں کے لیے یہ دور ظلم و ستم، آزمائش، کڑے امتحان اور انسانیت سوز سلوک کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔
شہری آزادیوں اور مساوی معاشی حقوق کی کوئی آواز کہیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہر طرف مایوسی اور ناامیدی کا راج تھا۔ نسلی امتیاز کے خاتمے، بنیادی شہری حقوق، روز گار اور آزادی کیلئے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور ان کے ساتھی آٹھ سال سے جدوجہد تو کر رہے تھے مگر اس میں کامیابی کے کوئی آثار نظر نہ آنے کے باعث جوش و خروش اور جذبہ ماند پڑتا جا رہا تھا، لیکن پھر یکایک ایک چنگاری بھڑکی جس کی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 1955 میں اوپر تلے دو واقعات رونما ہوئے۔
البامہ کے شہر منٹگمری میں پندرہ سالہ سیاہ فام طالبہ کلاڈیٹ کولون سرکاری بس میں سوار تھی۔ علاقے کے نافذ العمل قواعد و ضوابط کے مطابق بس پر سوار ہونے والے گوروں کے لیے سیاہ فام مسافروں کو اپنی نشست خالی کرنا پڑتی اور بس کے پچھلے حصے میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا تھا۔
اگلے اسٹاپ پر ایک گورا سوار ہوا۔ لڑکی نے اس گورے کے لیے سیٹ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت تک اس قانون کو توڑنے کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس بات پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملے کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں مارٹن لوتھر کنگ شامل تھے۔
اسی دوران ایک دوسرے واقعہ میں بیالیس سالہ سیاہ فام خاتون روزا پارکس نے بھی بس میں سوار ہونے والے گورے کے لیے نشست خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ جھگڑے اور احتجاج کے بعد خاتون کو گرفتارکر لیا گیا۔ اگلے روز مقامی عدالت نے ان پر دس ڈالر جرمانہ عائد کر دیا۔
ان واقعات سے لوگوں میں غم وغصہ اور بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ سیاہ فام لوگوں کو اکثریت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی اور سڑکوں پر نکل آئی۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی قیادت میں مساوی شہری حقوق تحریک نے بسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ کنگ کا ہاتھ حالات کی نبض پر تھا اور انہیں عوامی تحریک کے ابھار کا یقین تھا۔ بائیکاٹ تحریک کامیاب ہو گئی۔ بس کمپنی انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بسوں، ٹرینوں اور عوامی مقامات پر نسلی امتیازی سلوک کے حامل قواعد و ضوابط ختم کر دیئے گئے اور نسلی امتیاز برتنے کو قابل سزا قرار دے دیا گیا۔
مارٹن لوتھر کنگ اس تحریک میں گرفتار ہوکر جیل گئے۔ گھر بم دھماکہ سے تباہ کر دیا گیا۔ چاقو سے قاتلانہ حملہ ہوا۔ لیکن انہوں نے تحریک میں عدم تشدد کے اصول پر سختی سے عمل کیا اور گوروں کے خلاف بولنے اور نفرت پھیلانے کے بجائے سیاہ فاموں کی حالت زار بیان کی اور آزادی اور روزگار کا مطالبہ کیا۔ اب سیاہ فام پوری طرح منظم اور متحرک ہو چکے تھے۔ اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ان کے بلاشرکت غیرے لیڈر تھے۔ اور وہ بلا شبہ ایک منفرد، انقلابی، مخلص اور دلیرانہ سوچ وفکر رکھنے والے مدبر رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
پر امن احتجاجی ریلیاں جاری تھیں۔ کنگ کا پیغام لوگوں تک پہنچ کر اثر دکھا رہا تھا۔ سلسلہ چلتا رہا۔ لوگ جڑتے گئے۔ اثرات سیاہ فام طبقے سے نکل کر سارے امریکی معاشرے میں پھیلنے لگے۔ سفید فام نسل کے لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں ان اجتماعات میں شرکت شروع کر دی۔ بالآخر اس بے مثل، لازوال اور تاریخی جدوجہد کے نقطہء عروج کا دن آن پہنچا۔
28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں ابراہیم لنکن کی یاد گار کے وسیع وعریض میدان میں کہ جہاں کنگ اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ پینتیس سے چالیس ہزار لوگ احتجاجی ریلی میں آ گئے تو بہت بڑی کامیابی ہوگی مگر وہاں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کا جم غفیر امڈ آیا۔شرکاء میں صرف کالے اور غریب لوگ نہیں تھے، بلکہ سفید فام اشرافیہ، فلم سازوں، صحافیوں، فنکاروں، دانشوروں، وکلاء، سیاسی و سماجی کارکنوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے انتہائی جوش و خروش سے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء کا جذبہ اور جنون دیدنی تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنی زندگی کی یاد گار ترین، تاریخی اور شہرہ آفاق تقریر کی۔ جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔
واشنگٹن کے لنکن میموریل کے سامنے 28 اگست 1963ء کو مارٹن لوتھر کنگ کی جانب سے کی جانے والی تقریر بلاشبہ امریکی تاریخ میں بیسویں صدی کی چند بہترین تقاریر میں سے ایک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تقریر کے اگلے روز اخبارات میں واشنگٹن میں ہونے والے لاکھوں کے اجتماع کا تو ذکر تھا مگر اس تقریر کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی بلکہ کنگ کی یہ تقریر تو ان کی موت کے بعد زیادہ مشہور ہوئی، جب اسے پریس میں دوبارہ چھاپا جانے لگا۔
’میرا ایک خواب ہے‘ کے نام سے مشہور اس تقریر کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جملہ کنگ اس سے قبل بھی کئی تقاریر میں استعمال کر چکے تھے۔ اسی طرح اس دن کی تقریر میں انہیں اپنے اس خواب سے متعلق کچھ نہیں کہنا تھا، مگر اس کی تقریر کے دوران جب ان کی دوست مہالیا جیکس نے آواز لگائی کہ انہیں اپنے خواب کے بارے میں بتاؤ تو انہوں نے یہ جملہ بار بار دہرایا۔
اسی طرح ان کی تقریر میں آزادی سے متعلق ایک مخصوص حصہ معروف امریکی وکیل آرچی بالڈ کیرے کی سنہ 1952ء میں کی گئی معروف تقریر سے لیا گیا تھا۔
’میرا ایک خواب ہے‘ کے نام سے مشہور اس تقریر میں شعلہ بیان مقرر نے نفرت، تعصب، استحصال، نسلی امتیاز سے پاک جمہوری، مساوی، مثالی مجوزہ اور مطلوبہ امریکی ریاست کا ایسا نقشہ کھینچا کہ ان کے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اترتے چلے گئے۔
یہ تقریر ٹی وی پر براہ راست دکھائی جا رہی تھی۔ اس تقریر نے پورے امریکہ کو ہلا کے رکھ دیا۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے بھی ٹی وی پر تقریر سنی۔ اگلے ہی دن کنگ اور ساتھیوں کو وائٹ ہاؤس بلا لیا۔ ہر طرف اس تقریر کا اثر واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ امریکی معاشرے کو کسی نے گہری نیند سے جھنجھوڑ کر جگا دیا ہے۔
اگلے دو سال کے دوران امریکہ سے نسلی امتیاز کے تمام قوانین کا خاتمہ ہو گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی خدمات کو کھلے دل سے سراہا گیا۔1964 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ امریکہ نے انہیں پوری طرح ’اون‘ کیا اپنا ہیرو مانا لیا۔
امریکہ کے 730 سے زیادہ شہروں کی کسی نہ کسی سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ آج پورے امریکہ میں ان کا جنم دن منایا جاتا ہے اور سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ کی عظمت صرف اُن کے شعلہ بیان الفاظ میں نہیں، بلکہ اُن بے خوف قدموں میں بھی پوشیدہ ہے جو انہوں نے انصاف اور مساوات کی کٹھن راہوں پر اٹھائے۔ اُن کی تقاریر دلوں کو گرما دینے والے نعرے نہیں تھیں، بلکہ ظلم کے خلاف بغاوت کا ایک عملی نقشہ تھیں۔ وہ محض ایک مقرر نہیں، بلکہ جدوجہد کی زندہ علامت تھے، جنہوں نے امریکہ بھر میں جاری نسلی تعصب اور سماجی ناانصافی کے خلاف مزاحمتی تحریکات میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
دنیا آج اگر مارٹن لوتھر کنگ کو یاد رکھتی ہے تو یہ صرف اُن کے بلند و بانگ الفاظ کی گونج نہیں، بلکہ اُن کی لازوال قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کا صلہ ہے۔ اُن کے الفاظ اور اعمال دونوں ایک دوسرے کے گواہ تھے، جو تاریخ کے صفحات پر انسانی وقار اور آزادی کے لیے روشن مثال بن کر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔