گنج سوائی کا المیہ: ایک عام ملاح سے سمندر کا باشاہ بننے والا قزاق اور تاریخ کی بڑی لوٹ

امر گل

یہ 1695 کا سال تھا، جب ہندوستان کے تخت پر اورنگزیب عالمگیر براجمان تھا۔ مغل سلطنت اپنی عظمت کے بامِ عروج پر تھی، اور ہندوستان دنیا کی ایک چوتھائی دولت کا مرکز تھا۔ دوسری طرف، یورپی طاقتیں، برطانوی، ڈچ اور پرتگالی آپسی جنگ و جدل میں مصروف تھیں، مگر سب کا ہدف ایک تھا: بحرِ ہند کی تجارت پر قبضہ اور ہندوستانی تجارت پر اجارہ داری۔

بحر ہند، بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس یورپی طاقتوں کی سازشوں اور جنگوں کے گواہ بنے ہوئے تھے۔ اس سمندری شطرنج میں ہر کوئی اپنی چالیں چل رہا تھا، مگر قسمت کا سب سے غیر متوقع مہرہ وہ شخص تھا جو محض ایک عام ملاح تھا: ہنری ایوری۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بحری قزاقی ایک منافع بخش مگر خطرناک پیشہ تھا، اور ہنری ایوری ان چند بدنامِ زمانہ قزاقوں میں شامل تھا جس نے تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ مار انجام دی۔ ایک ایسا واقعہ جس نے نہ صرف مغل شہنشاہ اورنگزیب کو مشتعل کر دیا بلکہ برطانوی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔

ہنری ایوری، جسے ’لانگ بین‘ ، ’جان ایوری‘ اور صرف ’ایوری‘ بھی کہا جاتا تھا، 1653 اور 1659 کے درمیان کسی وقت، انگلینڈ کے شہر پلائی ماؤتھ یا اس کے آس پاس پیدا ہوا۔ وہ ابتدا میں ایک عام ملاح تھا، مگر قسمت نے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔ 7 مئی 1694 کے دن، جب وہ ایک جہاز پر فرسٹ میٹ کے طور پر تعینات تھا، اس نے اپنے ہی جہاز کو ہائی جیک کر لیا اور اپنے ساتھیوں سے مل کر قزاقی اختیار کر کے، افریقہ کے ساحل پر انگریزی اور ڈچ تجارتی جہازوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ اسی دوران، اس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ انگریزی جہازوں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ صرف غیر ملکیوں کو نشانہ بنائے گا، مگر کہا جاتا ہے کہ یہ دعویٰ حقیقت کے برعکس تھا۔

فینسی مڈغاسکر کی طرف روانہ ہوا، جو اُس وقت ایک بے قانون خطہ تھا، بحری قزاقوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ اور بحر ہند میں حملوں کے لیے بہترین اڈہ سمجھا جاتا تھا۔ وہاں پہنچ کر، ایوری نے اپنے جہاز کو مزید سامان سے لیس کیا اور اس میں کچھ تبدیلیاں کروائیں تاکہ وہ ہوا میں زیادہ تیزی سے حرکت کر سکے۔ اس رفتار میں اضافے نے فوراً فائدہ دینا شروع کر دیا، اور وہ ایک فرانسیسی قزاقی جہاز کا پیچھا کرکے اسے جا لیا۔ اسے لوٹنے کے بعد، اس نے اپنے عملے میں 40 نئے قزاق شامل کر لیے اور سمندری ڈاکوؤں کی دنیا میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔

اس کا جہاز ’فینسی‘ ، ایک تیز رفتار اور خطرناک بحری جہاز بن گیا، جس نے آنے والے برسوں میں بحرِ ہند میں دہشت کی علامت بننا تھا۔ فینسی کی شہرت بحر اوقیانوس سے لے کر بحر ہند تک پھیل گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ قزاقوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کا سربراہ بن گیا۔ وہ اپنی چالاکی، تیز رفتاری اور غیر معمولی حکمتِ عملی کی وجہ سے دوسروں سے مختلف تھا، اور یہی وجہ تھی کہ جب اس نے مغل جہاز گنج سوائی پر حملہ کیا، تو یہ ایک تاریخی لمحہ بن گیا۔

بعد ازاں، وہ شمال کی طرف بڑھا، جہاں دوسرے قزاق پہلے سے ہی موجود تھے، جو مغل اعظم کے خزانے سے بھرے بحری جہازوں پر حملہ کرنے کے موقع کے منتظر تھے، جو سالانہ حج کے بعد مکہ سے واپس آ رہے تھے۔

قزاقوں کا حملہ: تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ

یہ جولائی یا ستمبر 1695 کی بات ہے، جب بحرِ ہند کی نیلگوں وسعتوں میں ایک شاندار قافلہ ہندوستانی بندرگاہ سورت کی جانب رواں دواں تھا۔ یہ کوئی عام بحری بیڑا نہ تھا بلکہ مغل سلطنت کے شاہی بحری جہازوں پر مشتمل ایک کارواں تھا، جو حج سے واپس لوٹ رہا تھا۔ اس میں سب سے نمایاں تھا ’گنج سوائی‘ – ایک دیو ہیکل مغل جہاز، جو طاقتور توپوں اور ہزار سے زائد فوجیوں سے لیس تھا اور مستحکم ڈھانچے اور بیش قیمت مال و متاع کے لیے مشہور تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور جہاز ’فتح محمد‘ بھی تھا، جو محافظ کی حیثیت سے ہمراہ تھا۔ جہازوں پر سونے، چاندی، ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی اشیاء کے انبار تھے، جو حاجیوں کے ساتھ ہندوستان واپس آ رہے تھے۔

یہ ایک عام دن تھا – ہلکی ہوائیں، نرم لہریں، اور جہاز اپنی منزل کی طرف محوِ سفر تھے۔۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بحر ہند کی وسعتوں میں قزاقوں کا ایک گروہ تاک میں بیٹھا تھا۔ اچانک، افق پر ایک چھوٹا سا انگریزی جہاز نمودار ہوا، جو پہلی نظر میں کسی خطرے کا باعث نہیں لگتا تھا، مگر اس معمولی نظر آنے والے جہاز، جس کا نام فینسی تھا، پر کوئی عام ملاح نہیں تھے۔۔ یہ bertrand william kidd کا گروہ تھا، وہ بدنامِ زمانہ قزاق جس کا نام ہی یورپی اور ہندوستانی تاجروں کے دل دہلا دینے کے لیے کافی تھا۔ وہ قزاق گروہ، جس نے پورے سمندر پر دہشت طاری کر رکھی تھی۔

مغل خزانے سے بھرا عظیم بحری بیڑا ان کے نرغے میں آ گیا۔ قزاقوں کے پاس چھ جہاز تھے، جن میں فینسی اور تھامس ٹیو کا ایمِٹی شامل تھے۔ ’فینسی‘ پر سوار ہنری ایوری نے دوربین سے جائزہ لیا، اور اس کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔ اس کے سامنے ایک ایسا خزانہ تھا جس کا وہ برسوں سے خواب دیکھ رہا تھا۔ اس نے کوئی وقت ضائع نہ کیا اور جہاز کو حملے کے لیے تیار کر لیا۔

چند ہی لمحوں میں، سمندر کا سکوت توپوں کی گھن گرج سے ٹوٹ گیا۔ جنگ شروع ہو چکی تھی۔ گنج سوائی نے اپنی توپوں سے فینسی پر شدید فائرنگ کی، مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ گنج سوائی جہاز کی ایک توپ پھٹ گئی، اور اس کے ٹکڑے جہاز کے عملے کو ہی زخمی کر گئے، جس سے عرشے پر افراتفری مچ گئی۔ دوسری جانب، قزاقوں کا ایک گولہ جہاز کے مرکزی مستول سے جا ٹکرایا، جس سے گنج سوائی کی حرکت محدود ہو گئی۔

یہ لمحہ فیصلہ کن تھا۔۔ قزاقوں نے موقع غنیمت جانا اور جہاز کے قریب آ کر ہتھیار سونت لیے اور رسیوں کے ذریعے اس پر چڑھنا شروع کیا۔ کچھ دیر میں ہی دونوں جہازوں کے درمیان خونریز لڑائی چھڑ چکی تھی۔

ہنری ایوری اور اس کے قزاق نہ صرف ماہر جنگجو تھے بلکہ بے رحم بھی۔ گنج سوائی پر موجود سپاہیوں کی تعداد زیادہ تھی، مگر وہ خوفزدہ ہو چکے تھے۔ یہ معرکہ کوئی معمولی نہیں تھا۔ گنج سوائی کے پاس 80 توپیں اور 400 بندوقیں تھیں، اور اگر عملہ ثابت قدمی سے مقابلہ کرتا، تو شاید تاریخ مختلف ہوتی۔۔ مگر کہا جاتا ہے کہ جہاز کے کپتان محمد ابراہیم کی نااہلی نے سب کچھ بگاڑ دیا۔ جیسے ہی قزاقوں کا دباؤ بڑھا، وہ نچلے عرشے میں جا چھپا۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس نے ایک حیران کن قدم اٹھایا، اپنی کنیزوں کو تلواریں تھما کر دفاع پر مامور کر دیا! یہ ایک غیر معمولی منظر تھا: نازک ہاتھوں میں چمکتی تلواریں، چہروں پر خوف اور آنکھوں میں شکست کا عکس۔۔ مگر تربیت یافتہ قزاقوں کے سامنے یہ مزاحمت زیادہ دیر نہ ٹک سکی۔

لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی، یہاں تک کہ قزاق جہاز پر چڑھ دوڑے، جہاز پر قبضہ جما لیا اور خزانہ لوٹ لیا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس لوٹ میں کم از کم 600,000 پاؤنڈ مالیت کے ہیرے، سونا اور چاندی ہاتھ لگے، جو آج کے حساب سے اربوں میں بنتے ہیں۔ مگر صرف خزانہ ہی ان کا ہدف نہیں تھا، انہوں نے سینکڑوں قیدیوں کو اپنے جہاز میں منتقل کر دیا۔ پھر وہ اپنے محفوظ اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں ایک ہفتے تک لوٹ کے مال کی چھان بین کی گئی، اور پھر۔۔۔ تاریخ کے سب سے بھیانک مناظر میں سے ایک رقم ہوا۔ گنج سوائی کے مسافروں میں شامل خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ان کے زیورات نوچ لیے گئے اور بحری قزاقوں کی روایات کے مطابق وہ سب کچھ کیا، جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔۔

زندہ بچ جانے والوں کو کئی دنوں تک قزاقوں کے ہاتھوں اذیت اور ظلم و زیادتی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جہاز کے بقیہ افراد کو آزاد کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی تباہی کی کہانی سنانے کے لیے زندہ رہیں۔

ایوری اور اس کے ساتھی یہ خزانہ دوسرے قزاقوں کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے انہیں دھوکہ دیا۔ وہ اپنا مال جہاز میں لاد کر ایک ملاقات کی منصوبہ بندی کرتے رہے، مگر جیسے ہی موقع ملا، وہ فرار ہو گئے۔ باقی قزاقی جہاز فینسی کی برق رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، اور یوں ایوری کا جہاز قانون سے آزاد بحیرہ کیریبین کی طرف روانہ ہو گیا۔

نیو پروویڈنس جزیرے پہنچنے کے بعد، ایوری نے گورنر نکولس ٹروٹ کو رشوت دے کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے تحفظ خریدا۔ مگر ہندوستانی بحری جہازوں کی لوٹ مار نے برطانیہ اور مغل سلطنت کے تعلقات پر شدید منفی اثر ڈالا۔

جب اس لوٹ مار اور ظلم و زیادتی کی خبر دہلی پہنچی، تو اورنگزیب کا غیض و غضب آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے فوراً ایک فرمان جاری کیا، جس نے ہندوستان میں انگریزوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ اورنگزیب نے اعلان کیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اس حملے کی ذمہ دار ہے۔ سورت میں موجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام افسران کو گرفتار کر لیا گیا، کمپنی کے دفاتر کو بند کر دیا گیا، اور بمبئی پر فوج کشی کی تیاری شروع ہو گئی۔

دوسری جانب جب ایوری اور اس کے قزاق ساتھیوں کے سر کی قیمت مقرر کی گئی، تو گورنر ٹروٹ انہیں مزید تحفظ فراہم نہ کر سکا۔ اس نے انہیں خفیہ طور پر خبردار کر دیا، جس سے ایوری اور اس کے 113 رکنی عملے میں سے بیشتر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ صرف 12 افراد گرفتار ہوئے۔

 تاریخ کا پہلا مین ہنٹ

پہلے تو انگریزوں نے لوٹ مار کے اس واقعے کو جھٹلانے کی کوشش کی، مگر جب دہلی کے دربار سے لشکر کشی کے احکامات ملے، تو وہ گھبرا گئے۔ یہ ایک ایسی ذلت تھی جسے برطانوی حکومت برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

انگلستان میں بھی ہلچل مچ گئی، اور تاج برطانیہ کو معاملے میں مداخلت کرنی پڑی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھاری ہرجانے کی پیش کش کی،

جب ہندوستانی دربار کا دباؤ بڑھا تو برطانوی حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ حملہ ایک برطانوی شہری نے کیا تھا۔ تاجِ برطانیہ نے فوراً اعلان کیا کہ ہنری ایوری ایک مجرم ہے، اور اس کی گرفتاری پر 500 پاؤنڈ کا انعام رکھا گیا۔ بعد میں اسے بڑھا کر 1000 پاؤنڈ کر دیا گیا، جو آج کے حساب سے تقریباً پونے دو لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے۔

یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کسی ایک شخص کو پکڑنے کے لیے عالمی سطح پر تلاش شروع کی گئی – یہ تاریخ کا پہلا ’مین ہنٹ‘ تھا۔

یہ واقعہ محض ایک لوٹ مار کا نہیں تھا بلکہ ایک بڑی تبدیلی کا آغاز تھا۔ اورنگزیب کی سختی نے برطانویوں کو وقتی طور پر پسپا کر دیا، مگر اس واقعے نے ہندوستان میں انگریزوں کے عزائم کو اور مضبوط کر دیا۔ آنے والے وقت میں، یہی ایسٹ انڈیا کمپنی، جو اس وقت اورنگزیب کے جلال کے سامنے کانپ رہی تھی، ایک دن پورے ہندوستان پر حکمرانی کرے گی۔ مگر اس دن کے لیے ابھی ایک صدی باقی تھی…

ہنری ایوری کا پراسرار انجام

ایوری نے گنج سوائی سے اس وقت کے دو سے چھ لاکھ پاؤنڈ کی مالیت کا خزانہ لوٹا۔ یہ وہ رقم تھی جو آج کے حساب سے اربوں میں ہوتی ہے، اور یہی وجہ تھی کہ اس لوٹ مار کو تاریخ کی سب سے بڑی بحری ڈاکا زنی قرار دیا گیا۔ پہلی بار کسی مجرم کے لیے عالمی سطح پر تلاش شروع کی گئی۔ یہ تاریخ کا پہلا مین ہنٹ تھا، جو ایک ایسے شخص کے لیے تھا جو اپنے انجام سے پہلے ہی ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔

ہنری ایوری کے انجام کے باب میں کہانی ایک معمہ بن جاتی ہے۔ ہنری ایوری کہاں گیا؟ ایوری کے کئی ساتھی پکڑے گئے اور انہیں پھانسی دے دی گئی، مگر خود ایوری کا کیا ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تاریخ آج تک تلاش کر رہی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ لوٹے گئے خزانے کے ساتھ کسی نامعلوم جزیرے میں روپوش ہو گیا، کچھ کا ماننا ہے کہ اس نے اپنی دولت کسی خفیہ مقام پر دفن کر دی اور ساری زندگی گمنامی میں گزار دی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ افریقہ کے کسی ساحل پر بسا، جبکہ بعض مورخین کے مطابق وہ آخرکار انگلینڈ واپس لوٹ آیا، مگر دولت ہاتھ سے نکل چکی تھی، اور اس نے گمنامی میں زندگی گزار دی۔

چارلس جانسن (جسے بعض اوقات ناول نگار ڈینیئل ڈیفو کا فرضی نام بھی سمجھا جاتا ہے) نے اپنی مشہور کتاب A General History of the Pirates میں لکھا کہ: ”ہنری ایوری نہ تو کبھی پکڑا گیا، نہ کبھی اس کا سراغ ملا۔ وہ تاریخ میں کسی بھوت کی طرح آیا، ایک ہولناک طوفان کی طرح تباہی مچائی، اور پھر ایک سائے کی مانند غائب ہو گیا۔“

بہرحال ایوری کے ساتھی بکھر گئے۔ کچھ چارلسٹن (امریکہ) چلے گئے، کچھ آئرلینڈ اور انگلینڈ، جبکہ کچھ بحیرہ کیریبین میں ہی رہ گئے۔ ایوری خود تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گیا۔ کیپٹن چارلس جانسن کے مطابق، ایوری اپنے خزانے کے ساتھ انگلینڈ واپس آیا، مگر دھوکہ دہی کا شکار ہو کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھا۔ وہ 1696 یا 1699 میں انگلینڈ کے ڈیوون شائر کاؤنٹی میں غربت کے عالم میں مرا۔

تاریخ دان فلپ مڈلٹن لکھتے ہیں ”ایوری اور اس کے آدمیوں نے کئی ہندوستانی مردوں کو قتل کر دیا اور باقیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔“ ایک قزاق جان سپارکس، جو بعد میں پکڑا گیا اور سزائے موت سے پہلے اپنے جرائم کا اعتراف کر چکا تھا، نے بتایا ”ہندوستانی مَردوں اور ان کی خواتین کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا، اس کی اذیت میری روح کو آج بھی جھنجھوڑ رہی ہے۔“

بہرحال گنج سوائی کی لوٹ مار کا واقعہ محض ایک ڈاکہ زنی نہیں تھی، یہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس کے بعد انگریزوں نے اپنی طاقت کو مزید مضبوط کیا، مغل سلطنت رفتہ رفتہ کمزور ہونے لگی، اور بالآخر، وہ ایسٹ انڈیا کمپنی، جو کبھی اورنگزیب کے جلال کے سامنے لرزتی تھی، ایک دن پورے ہندوستان پر حکومت کرنے والی طاقت بن گئی۔

یہ واقعہ آج بھی تاریخ میں زندہ ہے، اور حتیٰ کہ 2016 میں مشہور ویڈیو گیم Uncharted 4: A Thief’s End میں بھی اس لوٹ مار کو دکھایا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہنری ایوری کی کہانی آج بھی لوگوں کو حیران کرتی ہے۔ ایک عام ملاح سے سمندروں کا بے رحم لٹیرا بننے تک، اور پھر ایک پراسرار گمشدگی میں تحلیل ہونے تک، وہ شخص واقعی تاریخ کا سب سے خطرناک اور پراسرار قزاق تھا۔

ایوری اپنی زندگی میں ہی ایک افسانوی شخصیت بن چکا تھا اور اس کی شہرت اس کے بعد بھی برقرار رہی۔ وہ قزاقوں کے اس خواب کی جیتی جاگتی مثال تھا کہ ایک عظیم خزانہ ہاتھ آئے اور پھر زندگی بھر عیش و عشرت میں گزار دی جائے، ترجیحاً کسی حسین شہزادی کے ساتھ اور سونے چاندی کے ڈھیر پر بیٹھ کر۔ یہ تصور کہ ایوری اپنے مالِ غنیمت کے ساتھ بچ نکلا، قزاقوں کے سنہری دور (Golden Age of Piracy) کی بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہوا، جس کے بعد ہزاروں غریب اور مظلوم یورپی ملاحوں نے اس کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنی بدحالی سے نکلنے کی کوشش کی۔

اس کے کارناموں پر کئی کتابیں اور ڈرامے لکھے گئے۔ اس وقت کے بہت سے لوگ یقین رکھتے تھے کہ اس نے کہیں—شاید مڈغاسکر میں—اپنی سلطنت قائم کر لی، جس کے پاس 40 جنگی جہاز، 15,000 سپاہیوں پر مشتمل ایک طاقتور فوج، ایک عظیم قلعہ اور سکے تھے جن پر اس کی شبیہہ نقش تھی۔ تاہم، کیپٹن چارلس جانسن کی لکھی ہوئی کہانی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے۔

ایوری کی کہانی کے وہ حصے جو تاریخی طور پر ثابت شدہ ہیں، انہوں نے برطانوی سفارت کاروں کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ ہندوستانی سخت ناراض تھے اور انہوں نے کچھ عرصے کے لیے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کو قید میں رکھا۔ اس واقعے کے سفارتی اثرات ختم ہونے میں برسوں لگے۔

دو مغل جہازوں سے ہاتھ آیا خزانہ ایوری کو اس کے زمانے کے سب سے زیادہ منافع کمانے والے قزاقوں میں شامل کر دیتا ہے۔ اس نے صرف دو سال میں اتنی دولت لوٹی، جتنی بلیک بیئرڈ، کیپٹن کِڈ، این بونی اور کیلیکو جیک راکہم جیسے مشہور قزاقوں نے مل کر بھی حاصل نہ کی تھی۔

یہ جاننا تقریباً ناممکن ہے کہ لونگ بین ایوری کے قزاقی جھنڈے کا اصل ڈیزائن کیا تھا۔ اس نے صرف درجن بھر جہاز پکڑے تھے، اور نہ ہی اس کے عملے یا شکار بننے والے افراد کی کوئی براہِ راست شہادت موجود ہے۔ تاہم، جو جھنڈا عمومی طور پر اس سے منسوب کیا جاتا ہے، وہ ایک سفید کھوپڑی پر مشتمل ہے، جس نے سرخ یا سیاہ پس منظر میں ایک رومال باندھ رکھا ہے۔ کھوپڑی کے نیچے دو ہڈیاں ایک دوسرے کے ساتھ ترچھی رکھی ہوئی ہیں۔

ماخذ:

کورڈنگلی، ڈیوڈ۔ رینڈم ہاؤس ٹریڈ پیپر بیکس، 1996۔

ڈیفو، ڈینیئل (بطور کیپٹن چارلس جانسن)۔ ’اے جنرل ہسٹری آف دی پائریٹس‘۔ مرتب: مینوئل شون ہورن، ڈوور پبلیکیشنز، 1972/1999۔

کانسٹم، اینگس۔ ’دی ورلڈ اٹلس آف پائریٹس‘۔ لیونز پریس، 2009۔

’ہنری ایوری کی خونریز قزاقی مہم، 320 سال پہلے‘۔ ہسٹری ڈاٹ کام۔

’جان ایوری: برطانوی قزاق‘۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا۔

ہنری ایوری کی سوانح حیات: تھاٹ کو ڈاٹ کام۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close