وہاں سے میں تیزی سے اس کی جھونپڑی تک آیا.. آس پاس کا جائزہ لیا. آسمان پر صبح کی پہلی نیلی نیلی روشنی کا غبار پھیلنے لگا تھا۔ درخت اب صاف دکھائی دے رہے تھے اور جنگل میں جاتی ایک چھوٹی سی پگڈنڈی کو بھی میں نے دیکھ لیا۔ لیکن میں اس راستے کی بجائے دوسری طرف سے جنگل میں داخل ہوا کیونکہ اس پگڈنڈی پر تو کوئی آدم خور بھی آ سکتا تھا اور وہ اس جنگل میں لازمی ہوں گے.. اس لئے میں بہت احتیاط سے چل رہاتھا۔
چلتے چلتے میں ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کئی درختوں کا بہت ہی گھنا جھنڈ تھا۔ دن کی روشنی پھیل رہی تھی ۔ اب آ گے جانا خطرے سے خالی نہ ہو سکتا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک طرف سے دھواں اٹھ رہا ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ دھواں اسی جگہ سے اٹھ رہا ہے جہاں پاس ہی آدم خوروں کی جھونپڑیاں ہوں گی۔
میں نے درختوں کی شاخوں کو ایک طرف ہٹا کر دیکھا..
سامنے ایک کھلی صاف جگہ تھی، جہاں درختوں کے پاس کنارے کنارے جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں ۔ ان میں ایک جھونپڑی سب سے اونچی دکھائی دے رہی تھی ۔ یہی جھونپڑی قبیلے کے ظالم سردار کی تھی ۔ اب دن کی روشنی چمکدار ہوکر پھیلنے لگی تھی..
میں آ گے بڑھ کر خطرات مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ انہیں جلد ہی اپنے ایک ساتھی کی گمشدگی کا علم ہو جائے، جو پہرہ دیتا تھا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی لاش پانی میں پھول کر اوپر آ جائے ۔ دونوں صورتوں میں وہ اس کی تلاش شروع کر دیں گے جوان کے خیال میں جزیرے میں آیا ہے… اور وہ میں تھا!
اب میرے لئے یہی بہتر تھا کہ میں اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس جزیرے میں اجنبی ہوں اور وہ اس جزیرے کے چے چپے سے واقف ہیں، کوئی محفوظ جگہ ڈھونڈ کر چھپ جاؤں اور تاریکی ہو نے کا انتظار کروں کیونکہ اس وقت میں کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔
میں کسی مناسب چھپنے کی جگہ کو تلاش کر نے لگا ۔ یہ جزیرہ میرے جزیرے سے کہیں زیادہ گھنا تھا ۔ یہاں درخت بھی گھنے تھے اور جھاڑیاں بھی ۔ گھاس بھی اونچی اور گھنی تھی ۔ میرے اندازے کے مطابق مجھے ایک ایسی محفوظ جگہ ہی مل گئی، جہاں میں چھپ سکتا تھا.
یہ ایک کُھوہ تھی، جو ایک چٹان کے اندر اور جھاڑیوں میں تھی۔ کھوہ کے منہ پر گنجان جھاڑیوں نے پردہ کر رکھا تھا، میں اس محفوظ کھوہ میں بیٹھ گیا۔ بندوق کو میں نے چٹان کی اندرونی دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ میں بہت تھک گیا تھا۔ کشتی چلانے سے میرے بازوؤں میں درد ہونے لگا تھا. درختوں پر پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ باہر دھوپ نکل آئی تھی، دھوپ کی کرنیں کھوہ کے اندر بھی آ رہی تھیں۔ میں بہت چوکس بیٹھا تھا.. میں باہر سے آنے والی ایک ایک آواز پر کان دھرے ہوئے تھا..
میرے خیال میں اب تک آدم خوروں کو اپنے ساتھی کی گمشدگی یا اس کی لاش کا پتہ چل گیا ہوگا۔
چال
دور سے لوگوں کی آوازیں سنائی دیں. میرے کان کھڑے ہو گئے. یوں لگ رہا تھا جیسے جنگلی آدم خور میری طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں.. آوازیں قریب تر ہوتی جارہی تھیں.. چونکہ میں ان کی زبان جانتا تھا، اس لئے جب آوازیں قریب آئیں تو میں نے سنا کہ وہ آ پس میں باتیں کر رہے ہیں، بہت غصے میں ہیں کیونکہ ان کے ساتھی آدم خور پہرے دار کی لاش سمندری کھاڑی میں مل گئی تھی! ان کے سردار نے انہیں حکم دیا کہ قاتل جزیرے میں ہی ہوگا، اسے پکڑ کر اس کے سامنے پیش کیا جائے، تاکہ وہ خود اس کا سر تن سے جدا کرے اور پھر اس کا گوشت بھون کر کھائے..
وہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ میری ہی تلاش میں نکلے ہوئے تھے. میری سانسیں ناہموار ہونے لگیں، مجھے یوں لگا جیسے وہ میرے پاس ہی آ کر رک گئے ہیں.. ان کی آوازوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ تعداد میں چار ہیں، وہ میرے بارے میں یعنی قاتل کے بارے میں باتیں کر رہے تھے.
وہ میرے خون کے پیاسے تھے.. ایک بار تو میں بھی حوصلہ ہار گیا اور موت کے خوف سے خون خشک ہونے لگا، لیکن میں نے جلدی اپنے آپ کو سنبھال لیا۔
میرا خوف ہی میری موت کا سبب بن سکتا تھا.. میری معمولی سی غلطی مجھے موت کے گھاٹ اتار سکتی تھی. میں اپنی جگہ جم کر، حوصلے سے بیٹھا رہا۔
میں بزدل نہیں تھا، ان تیس برسوں میں، میں نے جتنے خطروں کا مقابلہ کیا تھا، کوئی اور ہوتا تو اب تک مر چکا ہوتا… یہ میری ہمت اور بہادری تھی کہ میں زندہ تھا۔ میں نے سینکڑوں خوفناک راتوں میں جزیرے میں اکیلے رہتے ہمت نہیں ہاری تھی.. اب اگر میں خوفزدہ ہوا تھا تو اس کی وجہ ان آدم خوروں کے بھیانک ارادے تھے.. میں موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن میں ایسی موت مرنے کے لئے تو ہرگز تیار نہ تھا کہ میرا سر کاٹا جائے اور پھر میرا گوشت بھون کر کھایا جائے..
میرا خیال ہے کہ وہ میرے قریب والی چٹان پر بیٹھ گئے تھے اور مسلسل غصے اور طیش میں بولتے چلے جا رہے تھے.. کبھی کبھی ان کی باتوں سے یہ بھی پتہ چلتا کہ وہ آپس میں لڑ رہے ہیں. یہ بھی معلوم ہوا کہ انہی دنوں انہوں نے ایک آدمی کو بھون کر کھایا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ ان کی آوازیں دور ہونے لگیں.. اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے اٹھ کر جنگل میں جا رہے تھے. ان کی آوازیں مدھم ہوئیں اور پھر بالکل غائب ہوگئیں..
کئی منٹوں تک میں اسی طرح بیٹھا رہا۔
میں نے سوچا کہ اب میں باہر نکل کر دیکھ سکتا ہوں کہ وہ کدھر گئے ہیں۔
جھاڑیاں ہٹا کر باہر نکلا۔ احتیاط سے چاروں طرف دیکھا، جنگل ویران تھا. میں، جو ابھی تھوڑی دیر پہلے خوفزدہ ہو گیا تھا.. اس وقت ایک انتہائی دلیرانہ اور خطرناک فیصلہ کر چکا تھا!
میں نے سوچا مجھے ابھی دن میں ہی فرائیڈے کی اس جھونپڑی کا پتہ لگا لینا چاہیے.. جس میں اسے قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔ یہ ایک خطرناک فیصلہ تھا! کیونکہ ان آدم خوروں کو اپنے ساتھی کے قتل کا علم ہو چکا تھا.. وہ جنگل میں جھاڑیوں میں چھپ کر بھی بیٹھے ہو سکتے تھے.. لیکن میں نے جو فیصلہ کیا تھا، اسے بدلنے کیلئے تیار نہ تھا!
اصل میں، میں اب اس کھوہ کے اندر بیکار بیٹھے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے پستول ہاتھوں میں پکڑے اور چل پڑا..
میں سردار کی اونچی جھونپڑی کے عقب کی طرف اندازے سے چلنے لگا اور پھر کافی فاصلہ طے کر کے اچانک میں رکنے پر مجبور ہو گیا.. میں ششدر تھا اور مجھے اپنی آنکھوں پر کئی لمحے یقین نہیں آیا..
مجھ سے آگے دس بارہ گز کے فاصلے پر ایک آدم خور میری طرف پیٹھ کئے جھک کر زمین پر کچھ دیکھ رہا تھا..
میں بڑی احتیاط سے الٹے قدم چلتا، ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا۔ جہاں جہاڑیاں بھی تھیں..
آدم خور کے تیز حساس کانوں نے میرے قدموں کی چاپ سن لی تھی.. میں نے جھاڑیوں میں سے دیکھا، وہ حیران اور چوکنا اپنی لال لال آنکھوں سے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اور ناک سے بھی کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہا تھا..
میں نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگالیا۔ میں نے پستول پیٹی میں اڑس کر چھرا ہاتھ میں پکڑا، پھر ایک خیال میرے ذہن میں آیا اور میں نے چھرا رکھ کر وہی بکرے کی کھال کی رسی ہاتھ میں پکڑی۔
جنگلی آدم خور بھی چوکس تھا اور وار کر نے کےلئے تیار.. اس نے کمان میں تیر لگا لیا تھا. میں نے دیکھا اس کے ناک کے نتھنے سکڑ اور پھیل رہے تھے۔ وہ بہت ہی حساس آدم خور تھا۔ ہواؤں کو سونگھتا، ایک ایک قدم اٹھاتا وہ اسی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں میں چھپا ہوا تھا..
میرے لئے اسے ہلاک کرنا کیا مشکل تھا.. پستول کا ایک فائر اور وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتا، لیکن اس وقت میں ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ میں اسے تو ختم کر لیتا، لیکن پستول کے چلنے سے جو دھماکہ ہوتا اس سے سارا جنگل گونج اٹھتا۔ سارے آدم خور مجھے پکڑنے کے لئے جان کی بازی لگا دیتے.. اس طرح میرے لئے فرائیڈے کی زندگی بچانا ناممکن ہو جاتا اور اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دیتا..
اس وقت انتہائی ذہانت اور بہادری کی ضرورت تھی. مجھے ایک ترکیب سوجھی اور میں نے اس پر عمل کیا..
جب وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا، میں نے جیب سے سیسے کی ایک خالی گولی نکال کر اس کے سر کے اوپر سے پیچے پھینک دی..
گولی زمین پر پتوں پر گری.
وہ چونک کر پیچھے کو گھوم گیا..
یہی سنہری موقعہ تھا، میں بجلی کی طرح لپکا اور وہ رسی اس کی گردن میں کس دی.. وہ پوری قوت سے اپنے ہاتھوں سے رسی کی گرفت کو گردن سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا.. بکری کی کھال کی مضبوط رسی اس کی کالی گردن کی جلد کے اندر دھنستی چلی جا رہی تھی.. اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں، زبان منہ کے باہر لٹک گئی۔ میں نے اسے اس وقت چھوڑا، جب وہ مر چکا تھا!
اس کی لاش کو تیزی سے گھسیٹتے ہوئے میں اس کھوہ میں لے گیا، جہاں میں نے پناہ لی تھی۔ اس کھوہ میں اس کی لاش رکھ کر میں نے پتوں اور جھاڑیوں سے اسے چھپا دیا. اس کام سے فارغ ہو کر میں پھر باہر نکلا اور پھر سے اس جھونپڑی کی تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا، جہاں فرائیڈے کو قید کیا گیا تھا..
(جاری ہے)