روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) گیارہویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

فرائیڈے کا اغوا ہو جانا میرے لئے بہت پریشان کن تھا۔ وہ میرا ساتھی تھا۔ میں اسے بھائیوں کی طرح چاہنے لگا تھا اور وہ میرا وفادار تھا۔ اس کی زندگی کو خطرہ تھا، وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ پھر دل میں خیال آیا کہ وہ اسے یہاں بھی قتل کر کے بھون کے کھا سکتے تھے، کوئی خاص وجہ ہوگی کہ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ممکن ہے ان کا خیال ہو کہ اگر انہوں نے جزیرے میں آ گ جلائی تو اس کے دھویں سے مجھے خبر ہو سکتی تھی اور میں ان کو بندوق سے قتل کر سکتا تھا.

اب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی. فرائیڈے کو آدم خور اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

میں کیبن میں آ گیا اور اندر پہنچ کر سیڑھی اوپر کھینچ لی. میں ایک کونے میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے… سوچتے سوچتے دوپہر ڈھلنے لگی۔ میں نے کچھ روٹی کھائی اور باہر نکل آیا۔ سمندر کے کنارے ٹہلنے لگا۔ میرا طوطا میرے کندھے پر بیٹھا تھا، کتا ساتھ ساتھ چل رہا تھا، گلے میں پستول اور دور بین لگی ہوئی تھی، پیٹی میں شکاری چاقو تھا۔ سر پر کھال کی بنی چھتری تان رکھی تھی۔

میں سوچنے لگا، قسمت نے نجانے ابھی مجھے کتنی تکلیفیں اور پہنچانی ہیں۔ میں کب تک یہاں قید رہوں گا۔ فرائیڈے نے میری زندگی کو تنہائی سے نجات دلوا دی تھی۔ وہ میرے سارے کام کرتا تھا۔ اب اس کی زندگی خطرے میں تھی…

میں سمندر کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گیا. میری آنکھوں کے سامنے سمندر پھیلا ہوا تھا۔ لہریں آتیں اور کنارے کو چوم کر واپس چلی جاتیں۔ میں نے تصور میں دیکھا کہ وحشی آدم خور فرائیڈے کو آ گ پر بھون بھون کر کھا رہے ہیں….

یہ خیالی منظر اتنا تکلیف دہ تھا کہ میں یکدم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ”میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہوں گا، بلکہ ہر قیمت پر فرائیڈے کی جان بچانے کی کوشش کروں گا۔میرے پاس بندوق اور گولیاں ہیں، وہ آدم خور میر امقابلہ نہیں کر سکتے۔‘‘

اور میں نے اپنے آپ سے کہا۔
”فرائیڈے کو بچانے کے لئے آدم خوروں کے جزیرے میں جانا ہو گا۔‘‘
میرے دل نے ہی مجھے جواب دیا۔ ”ہاں میں وہاں جاؤں گا، فرائیڈے کو بچاؤں گا..“
میں تیز تیز چلتا کیبن میں پہنچا۔ میرے لئے مناسب وقت بھی تھا کہ میں رات کے وقت جزیرے سے رخصت ہوتا، کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ آدم خوروں کو میری روانگی کا علم ہو۔ میں نے تیاری شروع کر دی۔ پانچوں پستول بھر کر گلے میں لٹکا لئے۔ بندوق بھی تیار کر لی۔دور مین بھی ساتھ رکھی اور اپنی چھوٹی کشتی میں سوار ہوکر سمندر میں اتر آیا اور اس سمت کشتی کھینے لگا، جس طرف اشارہ کر کے مجھے فرائیڈے نے بتایا تھا کہ اس کا جز یرہ اس سمت میں ہے

❖ آدم خوروں کا جزیرہ

سمندر پر سکون تھا. سویا سویا لگ رہا تھا۔ آسمان پر ان گنت ستارے چمک رہے تھے۔میرے چپوؤں کی چپک چپک کی آواز خاموشی میں دور تک گونج رہی تھی۔ میں اس سے پہلے کبھی فرائیڈے کے جزیرے میں نہیں گیا تھا اور نہ ہی مجھے اس کا صحیح پتہ ہی معلوم تھا۔ میں یہ چاہتا تھا کہ رات کے وقت ہی اس جزیرے تک پہنچ جاؤں۔دن کی روشنی میں آدم خور مجھے دیکھ سکتے تھے اور میرے اور فرائیڈے کے خلاف بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

دل میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے۔ یہ بھی سوچتا کہ اگر آدم خور فرائیڈے کو کسی دوسرے جزیرے میں لے گئے ہوں تو…؟ میری کشتی اب جزیرے سے خاصی دور آ گئی تھی.

مجھے کشتی کھیتے آدھی رات ہوئی. بار بار دل میں یہ اندیشہ جنم لیتا کہ میں کسی غلط سمت کی طرف تو نہیں بڑھ رہا۔ میری کشتی چھوٹی اور کزور تھی اور میں اسے کھلے سمندر میں لے کر نہیں جا سکتا تھا۔ اس طرح تو میں خود اپنی موت کو دعوت دیتا۔ یہ کشتی تو بس تیس چالیس میلوں کے درمیان ہی پر سکون سمندر میں سفر کر سکتی تھی۔ کھلے سمندر میں اس کے لئے اونچی اور طاقتور لہروں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بار بار میں چونکتا اور دیکھتا کہ کہیں کشتی کھلے سمندر کی طرف نہ بڑھ رہی ہو، کیونکہ اس میں میری موت تھی.

اچانک میری نظر مشرق کی طرف پڑی۔
دور مجھے روشنی نظر آئی۔ اس کا مطلب تھا کہ ادھر کوئی جزیرہ ہے، جس میں کسی جگہ آ گ جل رہی ہے۔ میں سوچنے لگا ممکن ہے یہی جزیرہ فرائیڈے کا جزیرہ ہو۔ میں غور سے اس روشنی کو دیکھتا رہا۔ بہرحال کشتی اس طرف جا رہی تھی اور روشنی قریب آ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ گھنے درخت بھی نظر آنے لگے تھے جو کسی جزیرے کے ساحل پر ہی ہو سکتے تھے۔اب میں جزیرے کے اتنے قریب تھا کہ کشتی میں، میں دکھائی بھی دے سکتا تھا، اس لئے میں کشتی میں لیٹ کر چپو چلانے لگا۔ مجھے علم تھا کہ اگر میں اندھیرے میں صاف صاف دیکھ لیتا ہوں تو میری طرح یہ آدم خور بھی اندھیرے میں دیکھنے کے عادی ہوں گے اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جزیرے کے آدم خور رات کو چوکیداری بھی کرتے ہوں اور آنے جانے والوں پر نگاہ رکھتے ہوں.

میں کشتی کو مشرقی کنارے کی طرف لے گیا۔ یہ کنارہ گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے اب یقین ہو گیا تھا کہ یہ ایک آباد جزیرہ ہے۔ وہ آ گ جو میں نے دور سے دیکھی تھی، وہ ایک جھونپڑی کے باہر جل رہی تھی۔

میرے لئے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہ رہا کہ یہ جھونپڑی دراصل نگرانی کی چوکی تھی. کوئی نہ کوئی شخص وہاں ضرور پہرہ دے رہا ہو گا۔ کشتی کو کنارے پر لا کر میں اسے خاموشی سے کھینچتا ایک چٹان کی کھوہ میں لے گیا، جہاں سمندری بیلیں اگی ہوئی تھیں۔

دونوں ہاتھوں میں پستول تھامے، میں دبے پاؤں اس جھونپڑی کی طرف بڑھا۔ میرا پہلا کام یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا میں اسی جزیرے میں آیا ہوں، جو فرائیڈے کا جزیرہ ہے اور جہاں میرے خیال کے مطابق اسے اغوا کر کے لایا گیا ہوگا۔

ایک اطمینان بھی مجھے حاصل تھا کہ اگر یہ جزیرہ فرائیڈے کا ہی جزیرہ نکلا تو پھر ان لوگوں کی زبان نہ صرف میں سمجھ سکتا ہوں، بلکہ ان کی زبان آسانی سے بول بھی سکتا ہوں۔

یہ ایک خوبصورت اور پراسرار منظر تھا۔ رات گہری تھی. آسمان پرستارے چمک رہے تھے۔ ان کی روشنی دھیمی تھی۔

سمندر پر سکون تھا. میں کنارے کے درختوں کے نیچے جھک کر آگے بڑھ رہا تھا اور پھر میں اس جھونپڑی کے عقب میں اس کے بہت قریب آ گیا۔
آگ کا چھوٹا سا الاؤ جل رہا تھا۔
ایک ننگا آدم خور گھٹنوں میں سر دیئے اونگھ رہا تھا.

ایک ویران سنسان جزیرے میں برسہا برس اکیلے رہنے اور شکار کرنے کی وجہ سے میں بے آواز چلنے میں پوری مہارت حاصل کر چکا تھا۔ اس لئے ہے آواز چلتا ہوا جھونپڑی کے عقب میں گیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا کوئی جھونپڑی کے اندر بھی ہے یا جھونپڑی خالی ہے.

جھونپڑی کی گھاس کی بنی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر میں نے تھوڑی سی گھاس ایک طرف کر کے دیکھا.. اندر تاریکی تھی۔ تاریکی میں دیکھنے والی میری آنکھوں نے جلدی دیکھ لیا کہ جھونپڑی میں پانی کے ایک گھڑے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا.

مجھے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ باہر آگ کے الاؤ کے پاس اونگھنے والا آدم خور اکیلا ہی پہرہ دے رہا تھا۔ اس اکیلے آدم خور کو قابو میں کرنا میرے لئے مشکل نہ تھا۔ اس وقت میں پستول چلانے کے حق میں نہیں تھا، کیونکہ پستول کے دھماکے کے نتیجے میں بہت سے آدم خور مقابلے میں آ سکتے تھے..

میں زمین پر منہ کے بل لیٹ کر سمندری کیڑے کی طرح رینگتے ہوئے آدم خور کی طرف بڑھنے لگا.. پستول میرے گلے میں لٹکے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھوں میں بکری کی کھال کی بنی رسی پکڑی ہوئی تھی۔

وحشی آدم خور گہری نیند سو رہا تھا۔ اسے کچھ خبر نہ ہوئی، حالانکہ میں جانتا تھا کہ یہ جنگی معمولی سی آہٹ پر چوکنے ہو جاتے ہیں..

میں نے تیزی سے وہ رسی اس کے گلے میں ڈالی، اسے اتنا مروڑا کہ جنگلی آ دم خور کی آ نکھیں باہر نکل آئیں۔اس نے بے حد وحشت سے میری طرف دیکھا۔
میں اسے گھسیٹتا ہوا جھونپڑی کے اندر لے گیا۔ اس کا گلا رسی سے اس حد تک دبا رکھا تھا کہ اس کے حلق سے آواز بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ جھونپڑے کے اندر لے جا کر میں نے رسی کی گرفت معمولی سی ڈھیلی کی اور اس کے کان کے قریب اپنا منہ لے جا کر کہا
”آج تم ساتھ والے جزیرے سے ایک لڑکے کو اغواکر کے لائے ہو؟‘‘
اس نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا..
اور اس سے پہلے کہ وہ چیخنے کی کوشش کرتا، میں نے رسی کس کر پستول اس کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے کہا،

”یہ وہ چیز ہے، جو آگ اگلتی ہے، دھماکہ ہوتا ہے اور انسان تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے.. اگر تم زندہ رہناچا ہتے ہو تو خاموش بیٹھے رہو۔ ادھر دیکھو.. میرے پاس ایسے کتنے ہی پستول ہیں۔ میں تمہیں اور تمہارے سب ساتھیوں کو آسانی سے ہلاک کر سکتا ہوں۔ مجھے بتاؤ وہ لڑکا کہاں ہے، کہیں تمہارے ساتھیوں نے اسے بھون کر تو نہیں کھا لیا؟“

اس نے نفی میں سر ہلا کر جواب دیا ’’نہیں..‘‘
میرے بدترین اندیشے غلط ثابت ہوئے تو میں بہت خوش ہوا۔ فرائیڈے ابھی زندہ تھا ، اسے بچایا جا سکتا تھا..
”مجھے بتاؤ وہ کس جھونپڑی میں قید ہے، کہاں ہے؟‘‘
جنگلی پہرے دار اب خوف زدہ ہو چکا تھا. وہ اپنی جان بچانا چاہتا تھا، اس لئے اس نے مجھے بتا دیا کہ فرائیڈے کو جنگل کے اندر سردار کی بڑی جھونپڑی کے پیچھے ایک جھونپڑی میں قید کر کے رکھا گیا ہے۔ جہاں ہر وقت دو آدم خور پہرہ دیتے ہیں اور ان کے پاس چھرے اور تیر کمان ہیں.

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ فرائیڈے کو ابھی تک اس لئے قتل نہیں کیا گیا کہ کچھ دنوں کے بعد کسی دیوتا کا تہوار ہے اور سردار اس تہوار کے دن فرائیڈے کا خون اور گوشت دیوتا کے حضور بطور نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہے.

اس خبر سے میرے اطمینان میں مزید اضافہ ہوا۔ اب میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں فرائیڈے کو آزاد کرانے کی کوشش کر سکوں، لیکن اس سے پہلے مجھے اس پہرے دار آ دم خور کو ٹھکانے لگانا تھا۔ کیونکہ بچ جانے کی صورت میں یہ اپنے سردار اور قبیلے کو میرے بارے میں بتا سکتا تھا۔

میں نے اس سے پوچھا، ”تم اب تک کتنے انسانوں کو ہلاک کر کے ان کا گوشت کھا چکے ہو؟‘‘

اس نے اشاروں میں جواب دیا، میں بارہ انسانوں کا گوشت کھا چکا ہوں..

میرے لئے اس آدم خور کو قتل کرنے کا معقول سبب موجود تھا۔ میں نے اس کے سر پر بڑے زور سے پستول کا دستہ مارا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے گھسیٹ کر میں سمندر کے کنارے لے آیا۔ پھر ایک اونچی چٹان پر چڑھ کر اسے دھکیل کر گہرے سمندر میں کھاڑی میں گرا دیا.. وہ بچ نہیں سکتا تھا..

(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close