روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) انیسویں اور آخری قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

موت کا احساس

میں اب پھر اکیلا تھا….
اپنے جزیرے میں بلکل اکیلا اور تنہا…
طوطے اور کتے کی موت کے بعد فرائیڈے بھی اب اپنے جزیرے میں تھا!
تنہائی مجھے کاٹنے کو دوڑتی تھی ۔ اپنے کیبن میں بیٹھ کر میں سوچنے لگا کہ اب میں یہ تنہائی کیسے برداشت کروں گا.. بتیس برس سے میں اس جزیرے میں تھا اور اب اس جزیرے میں ایک پل بسر کرنا بھی میرے لئے مشکل ہو رہا تھا، لیکن میں مجبور تھا.. بارشوں اور سمندری طوفانوں کے موسم کے گزر جانے کے بعد ہی میں جزیرے سے نکل سکتا تھا.

اس رات مجھے بخار ہو گیا۔ بخار کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور بے ہوشی میں، میں نجانے کیا کیا بکتا رہا۔ مجھے شدت سے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب میں بچ نہیں سکوں گا..

اگلے دن شام کو بخار میں کمی ہوئی ۔ پھر بھی میں رات بھر لیٹا رہا۔ اگلے دن دوپہر کو میں اٹھا۔ سمندر کے کنارے دھوپ میں آ کر بیٹھ گیا.. گرمی کا موسم شروع ہو رہا تھا۔ شام تک وہیں دھوپ سینکتا رہا ۔ رات کو تھوڑی روٹی اور کچھ خشک انگور کھا کر سو گیا ۔ اس رات بخار بھی اتر گیا ، نیند بھی خوب آئی..

صبح میں ہشاش بشاش اٹھا۔ میں نے بڑی کشتی میں پھر سے ضروری سامان لادنا شروع کر دیا ۔ اب فرائیڈے تو تھا نہیں اس لئے سارا کام بھی مجھے کرنا تھا اور اکیلے ہی اس جزیرے سے روانہ ہونا تھا ۔ میرے خیال میں ایک ماہ کے بعد موسم میرے سفر کے لئے سازگار ہونے والا تھا ۔

اور پھر بارشیں شروع ہو گئیں ۔ میرے کیبن کی چھت ٹپکنے لگی ۔ میں چٹان کی کھوہ میں لیٹ گیا ۔ زبردست طوفان آیا ۔ درخت جھولنے لگے ۔ سمندر کی لہریں خوفناک شور مچاتیں ۔ بجلیاں کڑکتیں ، بادل گرجتے تو یوں لگتا جیسے بھونچال آ گیا ہے ۔

مجھے سب سے زیادہ فکر اپنی کشتی کی تھی ۔ خدا سے دعا کرتا کہ اسے طوفان اور بارشوں سے محفوظ رکھے ۔ جب طوفان تھم گیا تو میں باہر نکلا ۔ جزیرے میں ساحل کے کنارے کئی درخت اکھڑ کر زمین پر گرے ہوئے تھے ۔
میں بھاگتا ہوا حواس باختہ اس چٹان کی طرف بڑھا، جہاں میں نے کشتی باندھ رکھی تھی… وہاں پہنچ کر میرا دل ڈوبنے لگا…
وہاں کشتی نہیں تھی…!

میں نے بے قرار ہو کر ادھر ادھر نظریں دوڑائی، لیکن.. دور دور تک کشتی دکھائی نہیں دے رہی تھی!
طوفانی لہریں رسی توڑ کر کشتی کو خدا جانے کہاں بہا کر لے گئی تھیں..

وہ کشتی، جسے میں نے فرائیڈے کے ساتھ مل کر مہینوں میں تیار کیا تھا، وہ اس جزیرے سے آزادی حاصل کرنے کا آخری سہارا اور آخر امید تھی.. اب وہی نجانے طوفان میں کہاں بہہ گئی تھی…

میرا دل بھر آیا اور میں شدت غم سے رونے لگا..
بوجھل دل کے ساتھ اپنے کیبن میں پہنچا ۔ تنہائی کا احساس بڑھنے لگا۔ مایوسی نے مجھے گھیر لیا۔ میری ہر امید دم توڑ گئی تھی…

اب تو گویا یہ جزیرہ میرے لئے موت کا جزیرہ بن گیا تھا ۔ میں اب بوڑھا اور کمزور ہو گیا تھا۔ بتیس برس میں اس جزیرے نے میری طاقت چوس لی تھی..

میں نے یقین کر لیا تھا کہ اب میں مرنے والا ہوں ۔ میری قسمت میں اس جزیرے میں اکیلے اور تنہا، کسمپرسی کی موت کو گلے لگانا ہی لکھا تھا..
میں آ نکھیں بند کر کے موت کا انتظار کرنے لگا!

میں آنکھیں بند کئے لیٹا تھا کہ میرے کانوں نے سمندری جہاز کے بھونپو کی آواز سنی ۔ مجھے یقین نہ آیا ۔اسے میں نے ایک وہم قرار دیا ۔ دل نے کہا موت سے پہلے یہ آوازیں بس میرا دل بہلا رہی ہیں..
لیکن دوسری بار پھر میں نے جہاز کی سیٹی کی آواز سنی.. میں نے آنکھیں کھولیں ۔ تیزی سے کیبن سے باہر آیا ۔ پھر بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھا ۔ اگرچہ میں دوربین کیبن میں بھول آیا تھا، لیکن مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑی.. وہ جو سمندر میں تھا.. وہ ایک جہاز تھا…! میرے اور اس کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔

مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے دو تین بار اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو مَلا.
ہاں وہ جہاز تھا… سمندر میں کھڑا جہاز تھا!
نیلی وردیوں والے ملاح صاف نظر آ رہے تھے اور کچھ ملاح ایک کشتی میں بیٹھے ساحل سے جہاز کی طرف جاتے دکھائی دیے.

میں زور زور سے چیخنے اور چلانے لگا۔ میں نے پستول سے ہوائی فائر کیا ۔ پستول کی آواز پر جہاز کی طرف جاتی ہوئی کشتی مڑی اور ساحل کی طرف بڑھنے لگی..
میں پہاڑی سے اترا اور سمندر کی طرف بھاگنے لگا.. لیکن ٹھوکر کھا کر ریت پر منہ کے بل گر پڑا..
میں جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھا، لیکن پھر ساحل پر گر گیا… میں دوبارہ اٹھ کر بھاگنے لگا ۔
کشتی ساحل پر آ کر رکی ۔ نیلی وردیوں والے ملاح اتر کر میرے اردگرد کھڑے ہو گئے ۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے…

میں انہیں دیکھ کر ناقابل بیان خوشی محسوس کر رہا تھا، کیونکہ وہ مہذب انسان تھے، جنہیں دیکھے مجھے بتیس برس ہو گئے تھے..!

ایک ملاح مجھ پر جھکا اور پوچھا،  ’’تم کون ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’میں انسان ہوں۔‘‘

پھر میں نے اپنا سفید بالوں والا بوڑھا چہرہ ہاتھوں میں اوپر اٹھا کر رونا شروع کر دیا ۔ ملاح مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگے ۔انہوں نے مجھے ریت سے اٹھایا ۔ جب میں نے بتایا کہ میں اس جزیرے میں بتیس برس سے ہوں تو انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں انہیں پہاڑی پر لے گیا ۔ وہ لکڑی کا کیلنڈر دکھایا جو میں نے بنایا تھا۔ انہیں اپنے کیبن میں لے گیا ۔ وہ یہ سب دیکھ کر حیران اور ششد رہ رہ گئے..

انہوں نے مجھے کشتی میں سوار کیا اور جہاز پر لے گئے ۔ یہ ایک کھلا اور خوبصورت جہاز تھا ۔ کپتان نے ہمدردی سے میری کہانی سنی اور حیران رہ گیا ۔ میری ہمت پر سب نے مجھے داد دی ۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ پچھلی رات کے طوفان کی وجہ سے ان کا جہاز بھٹک کر ادھر آ گیا تھا۔ ملاح جزیرے میں پانی پینے کی تلاش میں اترے تھے ۔

میں نے اپنی قسمت پر، جو بہت برسوں کے بعد مہربان ہوئی تھیں ، خدا کا شکر ادا کیا۔ کیونکہ اگر میں سویا ہوا ہوتا یا جہاز کے بھونپو کی آواز نہ سنتا تو جہاز جا چکا ہوتا اور میں اسی جزیرے میں مر جاتا ۔ جہاں میں نے اپنی بھرپور جوانی کے دن انتہائی تکلیف اور کسمپری میں گزار دیئے تھے ۔

وہ طوفان، جس میں میری کشتی بہہ کر نجانے کہاں کھوگئی تھی، کچھ دیر پہلے میں اس طوفان کو کوس رہا تھا.. لیکن اب میں اسی طوفان کے بارے میں سوچ کر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا، کیونکہ وہی طوفان اس جہاز کو بھٹکا کر میرے جزیرے کے ساحل پر لے آیا تھا…

جہاز چل پڑا، جزیرہ دور ہوتا چلا گیا… مجھے اپنے کتے اور طوطے کی آوازیں سنائی دیں… فرائیڈے مجھے بے تحاشا یاد آنے لگا..

کپتان نے مجھے نرم بستر پر لٹا دیا تھا ۔ میں خوشی سے آنسو بہا رہا تھا..
ایک مہینے کے بعد جہاز لندن پہنچا۔ میرا باپ کب کا مر چکا تھا، میرا کوئی رشتے دار نہ تھا ۔ کپتان نے مجھے اپنے ہی جہاز پر نائب کپتان کی ملازمت دے دی اور میں نے اپنی باقی زندگی اس طرح خاموشی سے بسر کر دی۔

(ختم شد)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close