پاکستان ایک زرعی ملک: کپاس کی کاشت میں کمی، ملک کو کاٹن کی تاریخی قلت کا سامنا

ویب ڈیسک

ہم ملک کی معیشت کی تباہ حالی کا رونا روتے ہیں لیکن معیشت کے سب سے اہم شعبے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے اس کے پرانے رہے سہے ڈھانچے کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا ہے، پھر معیشت تباہ نہ ہو تو کیا ہو؟ اسی تناظر میں تازہ خبر یہ ہے ہے کہ ملک میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کپاس کی پیداوار میں 34 فیصد کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے اس وقت ملک میں کاٹن کی تاریخی قلت کا سامنا ہے

پنجاب اور سندھ میں کاٹن کی پیداوار میں بالترتیب 34 اور 38 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ سال 85 لاکھ گانٹیں حاصل ہوئی تھیں، تاہم اس سال فروری تک صرف 56 لاکھ گانٹیں حاصل کی جا سکی ہیں۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں کپاس کی کاشت شروع ہوگئی ہے۔  اس سال پنجاب حکومت کا ہدف ہے کہ صوبے میں تقریباً 40 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک اچھا اقدام یہ ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے کپاس کے کاشتکاروں کے لئے بیج، کھاد اور وائٹ فلائی کی تلفی کے لئے زہروں میں سبسڈی کا اعلان کیا گیا ہے

مقامی کاشتکار چوہدری محمد خالد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے 25 ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کرتے تھے تاہم اس سال 50 ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت نے کپاس کی کاشت پر جو سبسڈی کا اعلان کیا ہے، اگر وہ مل جاتی ہے تو وہ آئندہ سال سے کپاس کی کاشت کا رقبہ مزید بڑھا دیں گے اور دوسری فصلیں کم کردیں گے۔ محمد خالد کے مطابق ماضی میں کپاس کے شعبے کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے انہوں نے کپاس کاشت کرنا انتہائی کم کردی تھی

محمد خالد کے مطابق غیر معیاری بیج، مہنگی کھاد اور زرعی ادویات اور پھر موسمیاتی تبدیلیوں نے کپاس کی پیداوار کو کم کیا ہے

ایک اور کاشتکار محمد فاروق کا کہنا ہے حکومت اگر کاشتکاروں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی مشینری پر سبسڈی اور دیگر سہولتیں فراہم کرے، تو ہمیں بھارت سے کپاس امپورٹ نہیں کرنا پڑے گی۔ بھارت میں کسانوں کو بجلی پر سبسڈی دی جاتی ہے، ان کی لاگت ہمارے مقابلے میں کم ہے جبکہ بیج کی کوالٹی بہتر ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار بھی زیادہ ہے، اگر پاکستانی کسانوں کو یہ سہولتیں دی جائیں تو ہم کپاس سمیت دیگر اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں

ڈائریکٹر جنرل (توسیع ) محکمۂ زراعت پنجاب ڈاکٹر انجم علی کے مطابق دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ مجموعی پیداوار کا قریباً 80 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ امسال کپاس کی فصل قریباً 40 لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جا رہی ہے جس سے 17 من فی ایکڑ سے زائد اوسط پیداوار متوقع ہوگی۔ حکومت پنجاب کپاس کے کاشتکاروں کو دو لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے کے لئے 1 ہزار روپے فی بیگ منظور شدہ اقسام کے بیج اور سفید مکھی سے بچاؤ کے لئے 4.4 ارب روپے کی سبسڈی پر فراہم کر رہی ہے۔ کاشتکار کپاس کی منظور شدہ بی ٹی اقسام آئی یو بی 13، ایم این ایچ 886، بی ایس 15، نیاب 878 اور ایف ایچ 142 ہیں جبکہ مخصوص اضلاع کے لئے دیگر منظور شدہ اقسام کا انتخاب مقامی زرعی ماہرین کے مشورہ سے کریں. نامنظور شدہ اور غیر قانونی بیج کے استعمال سے کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے

اگرچہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار میں رکارڈ کمی اس سال واقع ہوئی ہے، تاہم ماہرین اور اس شعبے سے وابستہ افراد اس کی کافی عرصے سے نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملک میں اس فصل کی کاشت میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ترقی پسند فارمر عامر حیات بھنڈارا کے مطابق کاٹن کی پیداوار میں اس سال ہونے والی رکارڈ کمی اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ تسلسل سے اس میں کمی آ رہی تھی۔ گذشتہ چند برسوں میں کاٹن کاشت کرنے کے رقبے میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص بیچ نے مجموعی طور پر کاٹن کی فصل کی پیداوار کو شدید متاثر کیا اور آج صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار کے لیے ریکارڈ کاٹن بیرون ملک سے درآمد کرنے پڑ رہی ہے

عامرحیات بھنڈارا کہتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں جو بیج میسر ہے وہ غیرمعیاری ہے۔ سب سے بڑامسلہ بیج کا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت نے سفید مکھی کے تدارک کے لئے سبسڈی کا اعلان کیا ہے لیکن وہ سبسڈی کس زہر پر دی جائے گی؟ کیونکہ مارکیٹ میں مختلف مالیت کی زہریں دستیاب ہیں۔ ہمارے یہاں کپاس کے بیج پر موثر تحقیق ہی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے ہماری پیداوار ایک مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ اس کے علاوہ فارمر اور ٹیکسٹائل ملز مالکان کا آپس میں رابطہ نہیں ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چاہئے کہ وہ بھی حکومت کی طرح فارمرز کے لئے اقدامات اٹھائیں، ان کی ٹریننگ کااہتمام کیا جائے، کپاس کے نئے بیج اور ریسرچ سے فارمرز کو آگاہ کیا جائے تو اس سے بھی ہماری مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے

عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں حکومت کی زرعی شعبے میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ابھی جو اکنامک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی ہے، اس میں کوئی ایک بھی فارمر شامل نہیں ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close