ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہکتے ہوئے ماہِ جولائی کی گرمی نے زمین کو ہلا کر رکھ دیا اور جولائی کا مہینہ 142 سالہ رکارڈ میں گرم ترین مہینہ رہا
شدید گرمی کی لہر اور ہیٹ ویوز نے امریکا اور یورپ کے کئی حصوں کو لپیٹ میں لیے رکھا، عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت 16.73 ڈگری سینٹی گریڈ رہا
اسی حوالے سے امریکا کی قومی سمندری اور ماحولیاتی انتظامیہ (این او اے اے) کا کہنا تھا کہ اس سے قبل شدید گرمی کا رکارڈ جولائی 2016ع میں بنا تھا جو 2019ع اور 2020ع میں برابر ہوا تھا، تاہم رواں سال جولائی میں یہ رکارڈ صرف 0.01 ڈگری کے مارجن سے ٹوٹ گیا
این او اے اے کی ماہر ماحولیات آہرہ سانشیز لوگو کے مطابق سال 2015 ع کے جولائی سے رواں سال کے جولائی تک سات جولائی کے ماہ گرم ترین رہے، گزشتہ مہینہ بیسویں صدی کے مقابلے 0.93 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم تھا
این او اے اے کے منتظم رِک اسپنراڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس معاملے میں پہلا مقام سب سے زیادہ پریشان کن مقام ہے اور نیا ریکارڈ دنیا کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے راستے میں مزید پریشانیوں اور رکاوٹوں کا باعث ہے
پنسلوینیا یونیورسٹی کے سائنسدان برائے ماحولیات مائیکل مان کا کہنا تھا کہ یہ موسمیاتی تبدیلی ہے، یہ بے مثال گرمی، خشک سالی، جنگلات میں آتشزدگی اور سیلاب موسم گرما میں تعجب کا نشان ہیں
واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں امریکا کے ایک معروف سائنسی پینل نے بدتر موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کوئلے، تیل اور قدرتی گیس جلنے اور دیگر انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے
آہرہ سانشیز لوگو نے کہا کہ شمالی امریکا کے مغربی حصے، یورپ اور ایشیا میں ریکارڈ گرمی پڑی جبکہ دنیا کے دیگر حصوں میں درجہ حرارت ریکارڈ سے کچھ ہی زیادہ رہا. جس چیز نے شدید نقصان پہنچایا وہ نصف کرہ شمالی کی زمین کا درجہ حرارت ہے
آہرہ سانشیز لوگو کا کہنا تھا کہ نصف کرہ شمالی کا درجہ حرارت جولائی 2012 کے مقابلے ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا پانچواں حصہ زیادہ تھا جو درجہ حرارت کے ریکارڈز کے لیے بڑا مارجن ہے
ماہر ماحولیات کے مطابق دنیا کو جلانے والے اس موسم گرما میں جس عمل نے مدد کی وہ قدرتی موسمیاتی سائیکل ہے جو آرکٹک اوسکیلیشن کہلاتا ہے اور جو بے حد گرمی سے متعلق اپنے مثبت مرحلے میں ہے.