طالبان تحریک کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

نیوز ڈیسک

کراچی : اتوار کو فاتحانہ انداز سے کابل کا کنٹرول سنبھال کر طالبان نے مکمل کامیابی حاصل کر لی۔ اس سے قبل طالبان نے 1996ء سے 2001ء تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور سخت شریعہ قوانین نافذ کیے تھے. اسی دوران نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا اپنی اتحادی افواج کے ذریعے افغانستان پر چڑھ دوڑا، طالبان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا، یوں طالبان کی بیس برسوں پر محیط حالیہ مزاحمت کا آغاز ہوا

طالبان تحریک کا آغاز افغانستان اور پاکستان کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے ان افغان طالب علموں نے کیا جو 1979ء سے 1989ء تک جاری رہنے والے سوویت قبضے کے دوران افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ انہیں ”طالبان“ مدارس کے طالب علم ہونے کی نسبت ہی سے کہا گیا

1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب افغانستان میں کرپشن اور افراتفری کا ماحول تھا اور ملک خانہ جنگی کا شکار تھا، اس وقت طالبان نے جنوبی صوبے قندھار سے ملا عمر کی قیادت میں اپنی تحریک کا آغاز کیا اور 2013ء میں اپنے انتقال تک ملا عمر ہی اس تحریک کے سربراہ رہے۔ اب طالبان کے سینئر ترین رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ ہیں جبکہ سیاسی ونگ کے سربراہ ملّا برادر ہیں۔

1994ء میں انہوں نے بغیر کسی لڑائی قندھار کا کنٹرول سنبھال لیا۔  مقامی کمانڈرز کی حمایت سے طالبان تیزی سے ملک کے شمال پر غالب آگئے اور اس کے بعد بالآخر 27؍ ستمبر 1996ء کو کابل کا کنٹرول سنبھالا۔ صدر برہان الدین ربانی پہلے ہی فرار ہو چکے تھے تاہم اس کے بعد طالبان نے سابق کمیونسٹ صدر محمد نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے دفتر سے گرفتار کر لیا جہاں وہ پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہیں سر عام پھانسی دی گئی۔

اپنے پہلے دور میں طالبان نے ملک کی حکمرانی سنبھالتے ہی سخت شریعہ قوانین نافذ کیے جبکہ موسیقی، ٹیلی ویژن اور وقت گزاری کیلئے ماضی کی مقبول ترین سرگرمیوں جیسا کہ پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی، خواتین کو کام کاج سے روک دیا گیا اور انہیں سخت پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسلامی سزائوں کا نظام بھی متعارف کرایا گیا

1998ء تک طالبان کا ملک کے اسّی فیصد حصے پر کنٹرول تھا تاہم صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی وہ ممالک تھے، جو طالبان کی حکومت کو قانونی تسلیم کرتے تھے

2001ء میں طالبان نے بامیان وادی میں گوتم بدھ کے 1500؍ برس پرانے بت کو توڑ دیا۔ ملا عمر زیادہ تر وقت قندھار میں گھر میں گزارتے تھے. طالبان نے افغانستان کو القاعدہ کے لئے محفوظ مقام بنایا. اس کے بعد گیارہ ستمبر کو امریکا میں ہونے والے حملوں کے بعد امریکا نے فوری طور پر اس واقعے کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار دیا۔ اسامہ بن لادن کو حوالے نہ کرنے کا الزام طالبان پر عائد کرتے ہوئے امریکا نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر اکتوبر میں بمباری کی اور دسمبر کے اوائل تک طالبان حکومت ختم ہوگئی اور تحریک کے رہنما جنوب اور مشرق کے علاقوں کی طرف فرار ہوگئے اور کچھ سرحد عبور کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئے

اس کے بعد طالبان نے امریکی اور اتحادی افواج اور مغربی ممالک کی حمایت یافتہ نئی افغان حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا اور مسلح جدوجہد شروع کر دی. طالبان نے نیٹو سمیت افغانستان میں جنگ کرنے والے ممالک کو قابض فوج قرار دیا۔ افغانستان میں سرگرم مغربی ممالک کی نیٹو کے تحت افواج کا مینڈیٹ دسمبر 2014ء میں ختم ہوگیا جس کے بعد زیادہ تر افواج افغانستان سے نکل گئیں

جولائی 2015ء میں پاکستان نے افغان اور طالبان رہنماؤں کے درمیان براہِ راست مذاکرات کرائے جنہیں چین اور امریکا کی حمایت حاصل تھی، تاہم ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا

2015ء میں افغانستان میں ایک متحارب نیا جہادی گروپ سامنے آیا جس نے کابل پر تباہ کن حملے کیے۔ اس طرح 2018ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں خفیہ مذاکرات کا آغاز ہوا، کئی ادوار ہوئے جس کے بعد فروری 2020ء میں دونوں فریقین کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔

6 جولائی 2021ء کو امریکی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے طالبان کے ساتھ معاہدے پر 90 فیصد عمل کرتے ہوئے انخلاء کو یقینی بنایا ہے جس کے پانچ ہفتوں بعد اب طالبان ملک کے اہم قصبوں، شہروں ، صوبائی دارالحکومتوں کا آہستہ آہستہ کنٹرول سنبھالتے ہوئے اتوار کو بالآخر کابل تک پہنچ گئے اور ملک کے دارالحکومت کا قبضہ حاصل کر لیا.

یہ بھی پڑھئیے:

________________

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close