بیس سالوں کے طویل عرصے کے بعد افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے تناظر میں سوشل میڈیا پر افغانستان سے امریکا کے فرار کا موازنہ سیگون ویتنام سے واشنگٹن کی واپسی سے کیا جارہا ہے اور 1975ع میں ویتنام سے امریکا کے بھاگنے کی تصاویر بھی ان تبصروں کے ساتھ وائرل ہورہی ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے!
لگ بھگ نصف صدی قبل جب امریکی حمایت یافتہ جنوبی ویتنام کا دارالحکومت، شمالی ویتنام کی حکومت کے قبضے میں گیا، جہاں کمیونسٹ نظریات کی حامل پارٹی کی حکومت تھی، تو اس وقت بھی کچھ ایسے ہی مناظر دیکھے گئے تھے جو اب 15 اگست 2021ع میں افغانستان میں دیکھے گئے
اس اگست کی 15 تاریخ کو امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ کی چھت سے ہیلی کاپٹروں میں سوار اہلکاروں کی تصاویر نے اکثر افراد کو اس وقت کی یاد دلادی، جب ویتنام جنگ میں شکست فاش کے بعد 1975ع میں امریکیوں نے ویتنام کے سیگون شہر سے خوف و ہراس کے عالم میں راہ فرار اختیار کی تھی اور ویتنامی شہریوں کی لمبی قطاریں غیریقینی صورتحال میں کوئی نیا راستہ ڈھونڈ نکالنے کے لیے پُر امید تھیں
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی شہریوں، فوجیوں اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت ان کی کوششوں کا ساتھ دینے والے شہریوں کی قسمت سے متعلق ابھرنے والے سوالات ویتنام کی جنگ میں ناکامی سے قبل بھی اسی طرح موجود تھے، جیسے اب افغانستان پر قابض امریکیوں اور اتحادیوں کے سہولت کار افغان خوفزدہ ہیں
حیران کن طور پر اُس وقت بطور سینیٹر جو بائیڈن اسی طرح کے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے جیسا اب بطور صدر کرتے دکھائی دیتے ہیں
یاد رہے کہ اپریل 1975ع میں بتیس سالہ جو بائیڈن ان سینیٹرز میں شامل تھے جنہیں ویتنام میں بحران سے متعلق خفیہ اجلاس میں وائٹ ہاؤس طلب کیا گیا تھا
رولینڈ ایونز اور رابرٹ نوواک کے مطابق اس وقت انہوں نے واضح پیغام دیا تھا کہ ویتنام کی صورتحال مایوس کن ہے اور امریکا کو جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہیے اور اب بھی جو بائیڈن نے کابل میں فوجی اہلکاروں کو بھیج کر اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کے انخلا کا فیصلہ کیا
ویتنام اور افغانستان جنگوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں، جیسا کہ ویتنام جنگ میں یوں تو امریکی فوج انیس برس تک اُلجھی رہی جبکہ افغان جنگ بھی تقریباً بیس سال تک جاری رہی اور اب افغانستان سے انخلا کو امریکا کا نیا یا دوسرا ویتنام بھی قرار دیا جارہا ہے
جب 1975ع میں امریکا ویتنام سے سر پر پیر رکھ کر بھاگا تھا، اس وقت جنگ کے دوران اس نے 58 ہزار فوجی اور 10 ہزار جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کا نقصان اٹھایا تھا اور ساتھ ہی اسے ناکامی ہوئی تھی. 30 اپریل، 1975 کو سیگون پر قبضے سے ویتنام جنگ کے خاتمے کا اشارہ دیا گیا تھا جس کے چند ماہ بعد کمیونسٹ پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے
اسی طرح رواں سال جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کو نکالنے کا اعلان کیا تھا اور 15 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے پہنچنے کے بعد صدارتی محل کا کنٹرول افغان حکومت نے چھوڑ دیا تھا اور اس موقع پر طالبان نے اعلان کیا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے
بیس برس قبل 2001ع میں جس طرح امریکا نے طالبان کے اقتدار کا خاتمہ کیا تھا اس طرح طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو دارالحکومت کابل سے بھاگنے پر مجبور کر دیا
لیکن امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن وسیع پیمانے پر ہونے والے اس موازنے کو جھٹلاتے ہوئے کہتے ہیں، ‘آئیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں، یہ واضح طور پر سیگون نہیں ہے’
یہ بھی پڑھئیے: