(ثروت نجیب کابل میں مقیم گرافک ڈیزائنر اور صحافی ہیں۔ سارک ادبی شعبے اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی رکن بھی ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، غزلیں، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔)
کیا یہ ایک ڈرؤانا خواب ہے؟ یا جو گزر گیا وہ ایک سہانا سپنا تھا؟ کئی راتوں سے فضاؤں میں مسلسل بھنبھناہٹ ہوتی رہی اور جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی آواز سر درد بنتی گئی۔
کئی دنوں سے میرا اضطراب بلڈ پریشر کی طرح کبھی بڑھ جاتا اور کبھی خود کو تسلی دے دیتی تو نارمل ہوجاتا۔ صبح میں نے جب سورج کو اگتے دیکھا تو زندگی ایک بار پھر اچھی لگنے لگی۔ ایک بار پھر کابل سے عشق ہوگیا۔ میں نے دعا کی کہ ہماری زندگی میں کبھی اندھیرا نہ ہو۔ کابل کو خدا کبھی خون آلود نہ کرے
میرے اسٹور روم کی کھڑکی پر گندم کئی دنوں سے پرندوں کا رزق بننے کی منتظر ہے، مگر کوئی پرندہ نہیں آیا۔ شاید چڑیاں محرم ڈھونڈ رہی ہیں اور کبوتر سرنڈر کرکے گھر بیٹھ گئے ہیں
دل بوجھل ہے۔ میرے اردگرد ہر چیز جنگ آلود ہوچکی ہے۔ سڑکیں خاموش ہیں، کھڑکیاں بند، بچے سہمے ہوئے اور عورتیں غمزدہ ہیں۔ 40 سال کم نہیں ہوتے بلکہ یوں کہوں کہ میری نسل کے سب لوگ اسی جنگ کے دوران پیدا ہوئے، اسی میں پلے بڑھے اور اب پھر سے وہی حالات منہ کھولے ہمارے سامنے کھڑے ہیں
مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے میرے خیالات پر جنگ کا پیپر ویٹ رکھ کر اسے اڑنے سے روک رکھا ہو۔ بس دماغ میں یہی چیز کئی دنوں سے چل رہی ہے، یعنی جنگ، جنگ اور جنگ۔ آج اس کا بھی بھیانک انت ہوگیا۔ کتنے خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جن کی صبح خوشگوار ہوتی ہے، ان کی بالکونی میں پھول اگتے ہیں اور کیاروں میں سبزہ۔ ہماری تو آنکھیں کبھی دھماکے سے کھلتی تھیں، کبھی ہیلی کاپٹروں کے شور سے یا کبھی فائرنگ کی آواز سے۔ ہم جاگتے ہی دوستوں کو پیغام بھیجتے ہیں، حادثہ خیر سے گزر گیا؟
ہماری بالکونی میں خدشے لہلہاتے ہیں، کیاروں میں آنسوؤں کی آبیاری ہوتی ہے۔ ہم پریشانیاں کاشت کرتے ہیں اور تشویش کی روٹی کھاتے ہیں۔ کل بچوں کو گھر پر چھوڑ کر جانے لگی تو بار بار ان کا منہ ماتھا چوما۔ پتہ نہیں کیوں میری چھٹی حس بے چین سی تھی۔ گھر سے نکلی تو سڑکوں پر معمول کی چہل پہل تھی۔ دفتر پہنچی تو سب کے چہرے پھیکے اور دل بے جان سے لگے۔ بات کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ روبوٹ کی طرح بس چلتی پھرتی مشین بنے کام نبھاتے رہے
دوپہر کے وقت سوشل میڈیا پر خبر پھیلی کہ طالبان کابل تک پہنچ چکے ہیں۔ وہ کوئی افواہ نہیں تھی، کھرا سچ تھا۔ دفاتر میں افراتفری مچ گئی۔ دفاتر میں ساتھی ایک دوسرے کو الوداع کرتے وقت رونے لگیں۔ ہم وہاں سے بھاگے۔ سڑکوں پر بے ہنگم رش تھا۔ ہر کسی کو اپنے گھر جانے کی جلدی تھی۔ میں نے راستے میں دیکھا بیوٹی پارلر والے جلدی جلدی لڑکیوں کے اشتہاری پوسٹرز اتار کر پھاڑ رہے تھے۔ ڈاکٹرز نے ہسپتال چھوڑ دیے تھے۔ میری ایک گائناکالوجسٹ دوست نے بتایا کہ انہیں گائنی وارڈ چھوڑ کر بھاگنا پڑا جبکہ ہسپتال مریضوں سے بھرا پڑا تھا
آہ، بدنصیب بچے۔ وہ زندہ پیدا ہوگئے تو ان کی مائیں ان کی سالگرہ کا دن کبھی نہیں بھول پائیں گی۔ کہیں گی یہ وہی بیٹا / بیٹی ہے جو سقوط کے دن پیدا ہوا
رش کی وجہ سے کچھ مرد ٹیکسی سے اتر کر پیدل چلنے لگے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ چند کلومیٹر کا فاصلہ صدیوں پر محیط ہو۔ ریڈیو پر پل پل کی خبریں بتائی جا رہی تھیں۔ سب کچھ گڑبڑ ہو رہا تھا۔ مجھے بچوں کا خیال آرہا تھا لیکن کسی سے بھی رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔ ہمارے اردگرد کوئی سرکاری گاڑی تھی شاید جس پر جیمر لگے تھے۔ میں گھر داخل ہوئی تو بچے سوالات کرنے لگے کہ طالبان سڑکوں پر تھے؟ کیا آپ نے انہیں دیکھا؟ وہ سہمے ہوئے تھے
جب ٹی وی پر طالبان کے ترجمان کا انٹرویو آیا تو کچھ تسلی ہوئی۔ ترجمان نے یقین دہانی کروائی کہ عوام کو نقصان نہیں پہچایا جائے گا۔ مگر اس یقین دہانی کے باوجود میں اس خوف کا کیا کروں جو میرے چاروں طرف ہر ایک کے چہرے پر پھیلا ہے۔ عوام نے کتنے سال ان کو آزما کر دیکھا تھا، جن کے ان 20 سالوں میں حلیے تک نہ بدلے ان کی سوچ کیسے بدل سکتی ہے؟ دوپہر ڈھلنے لگی۔ میں نے بچوں کو کھانا کھلا کر کارٹون لگا دیے۔ اس دوران میں نے سامان باندھا اور پھر کھول دیا
ہیچ۔ میں دنیا کی بے ثباتی پہ پھوٹ پھوٹ روئی۔ مجھے اردگرد نفاست سے رکھی ہر چیز سے نفرت ہونے لگی۔ ان کتابوں سے بھی جہاں بھائی چارہ اور محبت کا درس پڑھتے پڑھتے عمر گزاری
ہیچ۔ آخر زندگی کا حاصل یہی ٹھہرا کہ مفاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا
ہیچ۔ میرا کتابوں سے بھرا کمرہ کیا میرے بچوں کے بڑے ہونے تک محفوظ رہ پائے گا؟ میں نے زیور کے بجائے مہنگی مہنگی کتابیں خریدیں۔ ان پیسوں سے کسی اچھے رسٹورینٹ میں بہترین ڈنر کرسکتی تھی مگر ہاتھ میں کتاب لیے بھوکے پیٹ واپس آئی۔ اس روح کو سیراب کیا جو آج تار تار ہوچکی ہے
سب نے افغانستان میں کھایا پیا اور گند چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان کی پھیلائی ہوئی آلودگی سے میرا دم گھنٹے لگا۔ میرا دل کر رہا تھا میں اپنے بچے کہیں کسی محفوظ جگہ پارسل کردوں۔ مگر کہاں؟ ان منافقین کی دنیا میں جو خود جان بچا کر بھاگ گئے۔ لیکن مجھے اپنا دل مضبوط کرنا پڑا۔ یہ ضروری تھا۔ آخر میں ایک ماں ہوں اور مجھے بچوں کے سامنے رونا نہیں تھا
تھوڑی دیر بعد آس پڑوس کی ساری عورتیں اکٹھی ہونے لگیں۔ سب ایک دوسرے کو تسلی دینے آئیں۔ ایک دوسرے کو مضبوط رہنے کا کہا اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں
میں سوچتی ہوں کہ امریکا نے اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو ’وار اگینسٹ ٹیررازم‘ کا نعرہ کیوں لگایا گیا؟
کیوں ’وار فار پیس‘ کی اس اندھی جنگ میں 20 سال افغان عوام سسک سسک کر جیتے رہے۔ کیوں ان کو سبز باغ دکھا کر چھوڑ دیا گیا؟ یہی طالبان پہلے بھی تھے، یہی نظام چلتا رہتا۔ کیا قباحت تھی؟ میرے اردگرد سوالیہ نشان ناچنے لگے۔
سوچتی ہوں کہ
ہمیں اس نہج تک لانے والے کیا کبھی سکون سے سو سکیں گے؟
کیا کبھی سڑکوں پر بہتا خون اور آنسو ان کے پاؤں کی بیڑیاں بنیں گے؟
ان کے کیے ہوئے کارنامے کیا تعاقب کرتے ہوئے انہیں پاتال تک لے جائیں گے؟
اگر ہاں تو کاش میری آنکھیں وہ دن دیکھنے کے لیے سلامت رہیں۔
عصر تک کابل شہر پولیس اور فوج سے خالی ہوچکا تھا۔ وہاں صرف عوام تھے۔ بے یار و مددگار عوام۔ کہیں کہیں سے فائرنگ کی آواز آئی اور ہم ڈر گئے۔ ایسی صورتحال میں لوٹ مار کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکو، چور، لٹیروں کو تو بس موقع چاہیے، وہ یہ کب دیکھتے ہیں کون سا وقت کیسا ہے۔ دوسری طرف طالبان اطراف میں کھڑے تھے۔ یہاں کابل بغیر کسی والی وارث کے تنہا تھا
کابل شہر میں اب صرف عوام تھے اور طالبان
طالبان کے آنے کی خبر محض خبر نہیں تھی ایک جبر تھا۔ لوگ سسک سسک کر رو رہے تھے۔ جیسے بوڑھی عورتیں جوان جہان مرگ پر بین کرتی ہیں۔ جیسے کوئی اپنا ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاتا ہے۔ جیسے کسی سچے عاشق کی دلہن کو کوئی اور ڈولی میں بٹھا کر لے جائے۔ جیسے کوئی سال بھر انتھک محنت کرنے کے باوجود فیل ہوجائے، اور وہ ایک ایک کو کہتا پھرے ’میں نے تو اتنے اچھے پرچے دیے تھے، مجھے کیسے فیل کرسکتے ہیں؟‘
شام تک تک سارے بازار کھلے تھے۔ لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔
حامد کرزئی کی ویڈیو سامنے آئی۔ انہوں نے کہا میں یہاں تم لوگوں کے ساتھ ہوں تو لگا جیسے میرے سگے والد کہہ رہے ہوں، بیٹی گھبرانا نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔
حامد کرزئی کا یہ دستِ شفقت کبھی نہیں بھولے گا۔
مجھے سائیکل سوار لڑکی کی یاد آئی جس کی تصویر اس دن لی تھی۔ وہ سائیکل پر سوار تھی اور اس نے اسکول یونیفارم پہن رکھا تھا۔ وہ گھر پہنچ چکی ہوگی یا نہیں؟ جسے دیکھ کر مجھے لگا تھا آنے والے وقتوں میں اس کا مستقبل کیا ہوگا؟
آسمان پر تاروں کی بساط بچھی ہے، مطلع صاف ہے، کابل کے فلک سے گولیوں کی چنگاریاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ ایئرپورٹ کی جانب سے ایسی چکا چاند روشنی پہلے کبھی نہ دیکھی۔
رات بھر پروین شاکر کی غزل دماغ میں اٹکی رہی۔
آج کی شب تو بہت کچھ ہے مگر کل کے لیے
ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگ امید کھلے گا کہ بکھر جائے گا
وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اجڑ جائے گا
سورج نکلتے ہی کابل کی تقدیر بدل چکی ہے۔ کیبل بند ہوچکے ہیں، بیشتر ورکنگ وومن گھر بیٹھی صورتحال کی منتظر ہیں۔ لوگ پاگلوں کی طرح ایئرپورٹ کی جانب بھاگ رہے ہیں اور طالبان معافی نامے لکھ لکھ کر دے رہے ہیں۔
لیکن اس مشکل وقت میں بھی امید ہے کہ شاید آج نہیں تو کل سہی کسی کا دل گداز ہو، کوئی ہمارے درد کو سمجھے۔
ویسے یہ امید بھی کمبخت ایسی وفا شعار ہے جو آخری سانس تک ساتھ نبھاتی ہے۔ ہمارے پاس امید کے سوا رکھا ہی کیا ہے؟ رات چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو سویرا ضرور آتا ہے، مگر جب سقوط کابل کی تاریخ لکھی جائے گی تو لکھنے والے لکھیں گے،
‘یہ تاریخ کی پہلی جنگ تھی جس میں سارے فریقین ہار گئے۔ کوئی ظرف ہارا، کوئی ضمیر، کوئی کردار، کوئی شرف تو کوئی سکون۔’
نوٹ: ادارے کا مضمون کے متن سے متفق ہونا ضروری نہیں.
_________________
یہ بھی پڑھئیے: