رانی پور میں کمسن بچی کی گدی نشین کی حویلی میں موت: مرکزی ملزم کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ

ویب ڈیسک

ضلع خیرپور کے شہر رانی پور میں مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والی دس سالہ بچی فاطمہ کی موت کے مقدمے میں گذشتہ روز گرفتار ہونے والے مرکزی ملزم پیر اسد شاہ کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے

رانی پور پولیس نے ملزم کو جمعرات کو مقامی عدالت میں پیش کر کے 14 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تھی

عدالتی کارروائی کے دوران ملزم نے اپنی صفائی میں عدالت کو بتایا کہ بچی فاطمہ کے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے والی وڈیو ان کے ذاتی بیڈ روم میں لگی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے، جو انہوں نے خود جاری کی تھی

ملزم کے مطابق، ”بچی بخار کی شدت کے باعث ہلاک ہوئی اس پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا“

ملزم پیر اسد شاہ کے مطابق ان کی حویلی میں فاطمہ کی طرح دیگر کئی کمسن بچیاں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ بچیاں ان کے مریدوں کی ہیں اور مرید اپنی بچیاں خود ان کو خوشی سے دے جاتے ہیں

مبینہ طور پر تشدد سے ہلاک ہونے والی بچی فاطمہ کو والدین نے بغیر کسی میڈیکل رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کے دفنا دیا تھا

جمعرات کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ خیرپور کی عدالت کو درخواست دی گئی کہ پولیس کو فاطمہ کی قبر کشائی کی اجازت دی جائے تاکہ میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کرایا جائے

سوشل میڈیا پر بچی کے وڈیو وائرل ہونے کے بعد رانی پور پولیس نے گذشتہ روز مرکزی ملزم اسد شاہ کو گرفتار کر لیا تھا

رات گئے واقعے میں لاپرواہی برتنے پر معطل ہونے والے رانی پور تھانے کے ایس ایچ اور فاطمہ کی موت کا سبب تشدد کے بجائے بیماری قرار دینے والے ڈاکٹر کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا، تاہم ایف آئی آر میں ایس ایچ او اور ڈاکٹر نامزد نہیں ہیں

ایس ایچ او رانی پور کو فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کی گرفتاری بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی ہے

گذشتہ روز فاطمہ کی والدہ شبانہ پھرڑو کی مدعیت میں رانی پور تھانے ہپر مقدمہ دائر کیا گیا تھا

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی آئی جی) سکھر ریجن کے ترجمان نے بتایا ’ایف آئی آر میں مرکزی ملزم اسد شاہ کی اہلیہ حنا عرف سونیا شاہ بھی نامزد ہیں، پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے مگر وہ تاحال مفرور ہیں۔‘

ترجمان کے مطابق: ’بچی کی قبر کشائی کے لیے عدالت کو درخواست دی ہے اور آج شام تک اجازت ملنے کے بعد پولیس مزید کارروائی کرے گی۔‘

بدھ کی صبح سے بچی کے لوٹ پوٹ ہونے کی وڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہے۔ سوشل میڈیا صارفین بچی کے انصاف کے لیے ٹرینڈ بھی چلا رہے ہیں

فاطمہ کی والدہ شبانہ پھرڑو کے گذشتہ روز سوشل میڈیا پر جاری وڈیو بیان میں کہا تھا کہ ان کی بیٹی فاطمہ کو رانی پور ٹاؤن کمیٹی کے وائس چیئرمین پیر فیاض شاہ تقریباً نو مہینے قبل گھر میں کام کے لیے لے گئے تھے

بعد میں انہوں نے فاطمہ کو اپنے داماد پیر اسد شاہ کو دیا تھا، جہاں تنخواہ کم دیتے تھے اور بہت تشدد کرتے تھے

شبانہ کے مطابق، ’پہلے مجھے بتایا کہ بچی کو بخار ہے اور بعد میں کہا وہ فوت ہوگئی ہے اور ان کی لاش لے جائیں۔ جب لاش لائے تو میں نے خود غسل دیا تھا میری بچی کی گردن اور پیٹھ پر شدید تشدد کے نشانات تھے، بازو اور پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔‘

گرفتاری سے قبل اپنے بیان میں مرکزی ملزم پیر اسد شاہ نے کہا تھا ’بچی کو ہیپاٹائٹس ہوگیا تھا اور بخار سے موت ہوئی۔ کوئی تشدد نہیں ہوا تھا۔‘

واضح رہے کہ دس سالہ بچی سندھ کے علاقے رانی پور میں ایک گدی نشین پیر گھرانے کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کرتی تھیں، تاہم دو روز قبل اس کے والدین کو بذریعہ فون آگاہ کیا گیا تھا کہ پیٹ میں درد کے باعث ان کی بچی کی ہلاکت ہو گئی ہے

ضلع نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے بچی کے والدین نے میت وصول کرنے کے بعد گاؤں میں گذشتہ روز اس کی تدفین کر دی تھی

تاہم تدفین سے قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں دس سالہ بچی کے جسم اور سر پر تشدد اور زخموں کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔ بی بی سی آزادانہ ذرائع سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا ہے تاہم پولیس حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ملزم پیر کی حویلی میں نصب کیمروں کا مکمل ریکارڈ حاصل کر لیا ہے جس کی جانچ پڑتال کی جائے گی

اس ابتدائی وڈیو کے سامنے آنے کے بعد ایک سی سی ٹی وی فوٹج بھی شیئر ہوئی، جس میں نظر آتا ہے کہ ایک بچی زمین پر پڑی تکلیف میں کراہ رہی ہے اور اسی دوران ایک خاتون اور ان کے پیچھے آتی ہوئی ایک بچی کمرے میں داخل ہوتے ہیں

کمرے میں داخل ہونے والی خاتون کے انتباہ پر اُسی کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا شخص جلدی سے اٹھتا ہے اور بچی کی سانسیں چیک کرتا ہے

اس نوعیت کی مزید وڈیوز سامنے آنے کے بعد ایس ایس پی خیرپور گذشتہ روز متاثرہ خاندان کے گھر پہنچے اور بچی کی والدہ سے ملاقات کی۔ پولیس کے مطابق بچی کی والدہ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ ایف آئی آر درج کرائیں تاکہ اس معاملے کی تفتیش ہو سکے اور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے

پولیس کی جانب سے یقین دہانی کے بعد اس واقعے کا مقدمہ بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے

ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والی بچی گذشتہ نو ماہ سے ملزم کی حویلی پر کام کرتی تھی۔ والدہ کے مطابق کچھ عرصہ قبل جب وہ اپنی بچی سے ملنے حویلی گئے تھے تو بچی نے بتایا تھا کہ پیر (ملزم) اور ان کی اہلیہ اس سے بہت زیادہ کام کاج کرواتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر مار پیٹ بھی کرتے ہیں

والدہ کے مطابق انہوں نے بچی کی شکایت سُن کر پیر کی اہلیہ سے ملاقات بھی کی اور ان سے ’رحم کی گذارش‘ کی، جس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ گھر واپس آ گئیں

مدعی مقدمہ کے مطابق 14 اگست کی دوپہر انھیں حویلی سے ایک شخص کی کال موصول ہوئی کہ اُن کی بیٹی طبعیت میں خرابی کے باعث فوت ہو گئی ہے اور اس کی لاش لے جائیں۔ ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے ملزم پیر سے بچی کی ہلاکت سے متعلق استفسار کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے

والدہ کے مطابق وہ اپنی بچی کی میت کو گاؤں لے آئے اور اس کی تدفین کر دی

ایس ایس پی کی موجودگی میں بچی کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی بچی کے معاملے پر اس لیے خاموش رہیں کیونکہ اُن کے گاؤں کی تین دیگر لڑکیاں بھی وہاں (پیر کی حویلی) پر قید تھیں اور انہوں نے سوچا تھا جب ان کی بخیریت واپسی ہو جائے گی، تب وہ بات کریں گی

والدہ نے دعویٰ کیا کہ بچی کی پیٹھ، گردن اور پسلیوں پر تشدد کے نشانات موجود تھے اور انہیں شبہ ہے کہ اس کا بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا

انہوں نے کہا ’ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے جس میں میری بیٹی تڑپ تڑپ کی ہلاک ہوئی ہے۔ جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ بلکل سچی ہے۔ ہمیں وڈیوز کے ٹکڑے دیے گئے ہیں۔ اُن کے پاس چوبیس گھنٹوں کی وڈیو موجود ہوگی، اس کو دیکھا جائے اور ہم سے انصاف کیا جائے۔‘

بچی کے والد گزر بسر کے لیے معمولی محنت مزدوری کرتے ہیں

یاد رہے کہ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد مرکزی ملزم نے اپنی گرفتاری سے قبل کی گئی ایک پریس کانفرنس میں تشدد کے الزامات کو مسترد کیا تھا

ان کا کہنا تھا کہ 12 اگست کو بچی کی طبعیت خراب ہوئی، جس پر ان کے فیملی ڈاکٹر نے بچی کے لیے ادویات اور ڈرپس تجویز کیں جو بچی کو دی گئیں مگردوا کے چھ سے سات گھنٹے کے بعد دوبارہ اس کی طبعیت خراب ہو گئی

ملزم نے پریس کانفرنس میں مزید دعویٰ کیا کہ 13 اگست کو انھوں نے دوبارہ ڈاکٹر کو کہا کہ بچی ٹھیک نہیں ہو رہی ہے چنانچہ کوئی اور دوا تجویز کریں

’ہم بچی کے والدین کو اور بچی کے والدین ہمیں جانتے ہیں۔ ہم نے ہی انھیں سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے ورنہ میرے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی کسی اور کی تو نہیں بلکہ میری ہوگی نا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات کی وڈیوز ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جو انسان مرتا ہے اس پر تو ڈرپس کا نشان بھی بڑا ہو جاتا ہے

ان کے کمرے میں بچی کے سونے کے بارے میں سوال کے جواب میں ملزم کا کہنا تھا ’مریدین ہمارے بچے ہیں۔ ہمیں ان کا احساس ہوتا ہے، لہٰذا وہ بھی اے سی میں سوئی۔ ہم جو کھاتے ہیں وہ ہی ان کو بھی کھلاتے ہیں۔‘

گرفتار ملزم نے پریس کانفرنس میں مزید دعویٰ کیا کہ بچی ہیپاٹائٹس (یرقان) کے مرض میں مبتلا تھی

ایس ایس پی میر روحل کھوسہ کا کہنا ہے کہ جس ڈاکٹر نے بچی کا علاج کیا تھا، اسے بھی تفتیش کی غرض سے گرفتار کیا گیا ہے

ایس ایس پی کے مطابق ’ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ بچی کو گیسٹرو اینٹائٹس تھی، مگر جب ڈاکٹر سے پوچھا کہ نسخے کہاں ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ بچی والدین کے پاس ہیں۔‘

ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ بچی کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کروائیں تاکہ حقائق معلوم ہو سکیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پولیس اس حویلی میں کام کرنے والوں کو بھی شامل تفتیش کر رہی ہے جبکہ سی سی ٹی وی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے

دوسری جانب وویمن ایکشن فورم حیدرآباد نے بغیر پوسٹ مارٹم بچی کی تدفین پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود اس کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور اس سے متعلقہ اتھارٹی غیر موثر نظر آتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close