اسلام آباد : پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم پر عائد کیے گئے غداری کے تمام الزامات کو واپس لیتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ حکومت ان کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی
واضح رہے کہ انعام الرحیم ماضی میں لاپتہ اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی عدالتوں اور فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں
گزشتہ روز قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے وفاق کی طرف سے اس کیس کے حوالے سے دائر کردہ اپیل کی سماعت کی تو دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت کرنل انعام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی
انھوں نے کہا کہ کرنل انعام خود بھی ایک وکیل ہیں اور اُن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس پر ہم پشیمان ہیں
یاد رہے کہ وردی میں ملبوس چند اہلکار 17 دسمبر 2019ع کو کرنل انعام کو زبردستی ان کے گھر سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ کرنل انعام کے لاپتہ ہونے کے چند روز کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ کرنل انعام الرحیم اُن کی تحویل میں ہیں اور انہیں آرمی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم جب حراست میں تھے تو اس وقت کے اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کے پاس نہ صرف ملک کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں معلومات ہیں بلکہ ان کے پاس فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے علاوہ دیگر اہم شخصیات کے بارے میں بھی معلومات ہیں
اس وقت کے اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو دعویٰ کیا تھا کہ ملزم کا ملک کے خلاف کام کرنے والے ایک جاسوسی نیٹ ورک کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران جاسوسی کے الزام میں فوجی عدالت سے موت کی سزا پانے والے انڈین جاسوس کلبوشن جادیو کا بھی ذکر کیا گیا تھا
بعدازاں کرنل انعام کے بیٹے نے اپنے والد کی گمشدگی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے انعام الرحیم کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا، مگر لاہور ہائی کورٹ کے اس آرڈر کے خلاف وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی
سپریم کورٹ میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی جبری گمشدگی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران اس وقت کے اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کے لیپ ٹاپ میں بہت سے ملکی راز چھپے ہوئے ہیں اور اگر وہ ہمیں اس لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ بتا دیں تو وفاق ان کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے، اس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ کیا تفتیشی ادارے ایک لیپ ٹاپ کو ڈی کوڈ بھی نہیں کر سکتے
اب منگل کے روز وفاق کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے خلاف قانونی کارروائی کو جاری نہیں رکھنا چاہتا
اس موقع پر قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے خود ہی تو ان کو رہا کیا تھا اور اب آپ ان کے خلاف قانونی کارروائی کیونکر کریں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے
بینچ کے سربراہ نے جب استفسار کیا کہ پھر وہ عدالت میں کیوں آئے ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو رہا کرنے کے بارے میں اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ آرمی ایکٹ کے تحت کسی سویلین کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے وفاق یہ چاہتا ہے کہ عدالت اس بارے میں بھی اپنی آبزرویشن دے یا اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر بحث نہیں ہے اس لیے اس بارے میں کوئی آبزرویشن نہیں دی جا سکتی۔ اگر کبھی مستقبل میں کوئی ایسا واقعہ ہوا تو پھر اگر عدالت میں رجوع کیا گیا تو اس وقت اس معاملے کو دیکھیں گے
بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ ایک آزاد شہری ہیں اور انہیں امید ہے کہ اب انھیں آدھی رات کے وقت کئی مشکوک کالیں نہیں آتی ہوں گی
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بتایا کہ وہ 37 روز تک فوج کی تحویل میں رہے اور اس عرصے کے دوران انہیں کوئی چارج شیٹ نہیں دی گئی
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ انہیں اُس وقت گرفتار کیا گیا جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ اس معاملے کے بارے میں اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کسی جنرل کے ریٹائر ہونے کا ذکر نہیں ہے جبکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل کے دعوے کے برعکس انہوں نے عدالت میں آرمی ایکٹ کی کاپی پیش کی تھی جس میں کسی بھی جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر کا ذکر ہے
◾کرنل رٹائرڈ انعام الرحیم کون ہیں؟
انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا تعلق پاک فوج کے باسٹھویں لانگ کورس سے ہے۔ یہ وہی کورس ہے جس سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا بھی تعلق ہے
وہ ماضی میں لاپتہ اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی عدالتوں اور فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں
انعام الرحیم پاک فوج کی لیگل برانچ جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ کہتے ہیں، سے بھی منسلک رہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوج میں ہونے کے باوجود پرویز مشرف کے ناقدین میں شامل تھے۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا
وہ لیفٹینینٹ کرنل کے عہدے سے آگے نہ جا سکے اور اکتوبر سنہ 2007ع میں رٹائر ہو گئے۔ 2008ع میں انعام الرحیم نے راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کی تھی۔ ان دنوں راولپنڈی میں پرویز مشرف پر حملہ کیس کے ملزمان رانا فقیر و دیگر اپنے لیے وکیل تلاش کررہے تھے، لیکن کوئی بھی ان کا کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ ایسے وقت میں انعام الرحیم نے ملزمان کے وکیل کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ اس طرح وہ پہلی بار میڈیا کی نظروں میں بھی آئے
پرویز مشرف و دیگر عسکری شخصیات کے اثاثوں سے متعلق انعام الرحیم نیب سے بھی رجوع کرتے رہے۔ پرویز مشرف کے اثاثوں کے بارے میں انہوں نے مختلف فورمز پر درخواستیں بھی دیں۔
انعام الرحیم نے جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک افغان سرحد پر انگور اڈہ چیک پوسٹ مبینہ طور پر افغانستان کے حوالے کرنے کے خلاف بھی ایک رٹ پٹیشن کر رکھی تھی، جس میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کو بھی ملزم نامزد کر رکھا تھا
عاصم سلیم باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر تعیناتی کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سامنے آیا تھا.
یہ بھی پڑھئیے:
سندھ ہائی کورٹ کا لاپتہ شہری کا شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم