بزنجو، بگٹی، مری کے بعد مینگل بھی رخصت ہوئے..

مجاہد بریلوی

‘غوثی سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا مگر میں رہ سکتا ہوں۔’
— 4دہائی قبل کراچی کے جناح ہسپتال میں نیم دراز سردار عطااللہ مینگل نے اپنی شگفتہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا۔

حیدرآباد سازش کیس میں جب سردار عطااللہ مینگل کی طبیعت ناساز ہوئی تو انہیں وزیرِاعظم ذوالفقار بھٹو کی خصوصی ہدایت پر اجازت دی گئی تھی کہ وہ بیرونِ ملک اپنا علاج کروانے جاسکتے ہیں۔ ان کی روانگی سے چند دن پہلے ہی میں نے اپنے جریدے کے لیے ان کا انٹرویو لیا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ سردار صاحب پاکستان سے باہر آپ سیاست کے بغیر کیسے زندہ رہیں گے؟

سردار صاحب ہی نہیں میر غوث بخش بزنجو کے تمام قریبی رفقا انہیں محبت سے ‘غوثی’ کہا کرتے تھے اور یہ بابائے بلوچستان میر غوث ہی تھے جو سردار عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کو 1964ء میں عملی سیاست میں لائے تھے، اور بعد میں انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں شمولیت بھی اختیار کی تھی۔ نواب اکبر خان بگٹی کا معاملہ دوسرا تھا۔ بلوچستان کی سیاست میں 60ء، 70ء اور ہاں 80ء تک 4 بڑوں کا شہرہ تھا یعنی بزنجو، مینگل، بگٹی اور مری۔

نواب اکبر خان بگٹی نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت تو اختیار نہیں کی مگر 1970ء کے الیکشن میں جو نیپ نے کامیابی حاصل کی اس میں بگٹی صاحب کا بڑا کلیدی کردار تھا۔ بلوچستان کے ان 4 بڑوں میں سب سے پہلے میر غوث بخش بزنجو کا اگست 1989ء میں انتقال ہوا۔ نواب اکبر خان بگٹی مشرف دور میں روایتی گوریلا لیڈر کی طرح مزاحمت کرتے ہوئے اگست 2006ء میں زندگی کی بازی ہارے جبکہ نواب خیر بخش مری چند سال پہلے ایک طویل گوریلا جنگ کی قیادت سے تھک ہار کر کراچی میں انتہائی خاموشی سے رخصت ہوئے۔

میری خوش نصیبی یہ رہی کہ ان چاروں بڑوں کو مجھے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ نواب اکبر بگٹی کی ہیبت اور نواب خیر بخش مری کی پُراسرار سحر انگیز شخصیت کے سبب جو تعلق رہا اسے بس شناسائی ہی کہوں گا۔ نواب سردار عطااللہ مینگل جب 90ء کی دہائی میں لندن سے واپس لوٹے تو اسکرینیں آچکی تھیں۔ کوئٹہ اور کراچی میں ایک سے زائد انٹرویو بھی کیے۔ رہے میر غوث بخش بزنجو تو ان کی جو محبت اور شفقت رہی اس کے سبب وہ میرے لیے ایک ‘مینٹور’ کا درجہ رکھتے ہیں۔

سردار عطااللہ مینگل کا یہ جملہ کہ ‘غوثی سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن میں رہ سکتا ہوں’، ان کی سخت گیر مگر دل آویز شخصیت کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے میں ‘حسِ مزاح’ کے زمرے میں لوں گا کہ سردار عطااللہ مینگل کم و بیش 65 سالہ عملی سیاست میں رہے اور ان میں برسہا برس اسیری اور جلاوطنی کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بیٹے اسد اللہ مینگل کی جواں مرگی کا زخم بھی سہنا پڑا جسے انہوں نے بڑی استقامت سے جھیلا۔

سردار عطااللہ مینگل—وائٹ اسٹار
اسد اللہ مینگل کو 1974ء میں کراچی میں میر بلخ شیر مزاری کے گھر کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اندرونِ سندھ کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا۔ سردار عطااللہ مینگل کو اپنے جوان بیٹے کی ناگہانی موت کی اطلاع حیدرآباد جیل میں ملی۔ سردار صاحب نے یہ سُن کر جو تاریخی جملہ کہا وہ مجھے افراسیاب خٹک نے بتایا، جو ان کے ساتھ جیل میں تھے۔

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ ‘ہم سب جب سردار صاحب کو پرسہ دینے ان کے پاس گئے تو طویل خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کہ ‘آپ میرے بیٹے کا پرسہ دینے آئے ہیں، لیکن ان سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کا تو پرسہ لینے والا بھی کوئی نہیں جو پہاڑوں میں لڑتے مارے گئے’۔ سردار عطااللہ مینگل کے بھائی علی مینگل بھی 70ء کی گوریلا جنگ میں مارے گئے تھے۔ بھٹو حکومت ختم ہوئی تو پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل ٹکا خان تھے، اور جب سردار صاحب کے بیٹے کا قتل ہوا تب جنرل ٹکا خان آرمی چیف تھے۔

میر غوث بخش بزنجو کی نیشنل عوامی پارٹی جنرل ضیا کے دور میں پیپلز پارٹی کی اتحادی بنی۔

سردار عطااللہ نیشنل پارٹی میں تھے تو ایک پریس کانفرنس میں ان سے سوال بھی ہوا کہ، ‘کیسا تاریخی جبر ہے کہ جس پارٹی کے دور میں آپ کا بیٹا مارا گیا آپ اس کے ساتھ بیٹھے ہیں، پھر سردار صاحب نے کہا یہ ‘آف دی ریکارڈ’ ہے، اگر میں صرف مینگلوں کا سردار ہوتا تو اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ مارنے والوں کی قبر تک سے لیتا مگر میں اب ایک سیاسی جماعت میں ہوں’۔

سردار عطااللہ مینگل کی میں روایتی obituary نہیں لکھنا چاہتا کہ 1929ء کو لسبیلہ میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد کے بعد 25 سال کی عمر میں مینگل قبیلے کے سردار بنے۔ 1964ء میں مغربی پاکستان کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

1964ء سے 1967ء تک کا وقت قید میں گزارا۔ 1970ء میں بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور 9 ماہ بعد حکومت ختم ہوئی تو حیدرآباد سازش کیس میں پکڑے گئے۔

اس دوران شدید بیماریوں نے آ لیا تو لندن علاج کے لیے چلے گئے۔ وہاں بھی کنفیڈریشن کی سیاست تو کی مگر جب ضیاالحق کا مارشل لا ختم ہوا تو واپس پاکستان آگئے۔ زیادہ وقت اپنے آبائی گاؤں وڈھ اور کراچی میں گزرتا۔ اخبار اور اسکرینوں کو کبھی کبھار انٹرویو ضرور دیتے مگر عمر کی 80 کی پیڑھی میں قدم رکھتے ہوئے اپنی سیاسی وراثت نوجوان سردار اختر مینگل کے سپرد کردی۔

میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی کے بعد سردار عطااللہ مینگل بلوچوں کی روایتی جرأت و حریت کی معیاد کے آخری بڑے آدمی تھے۔ آج بلوچستان کی سیاست ان ‘باپوں’ کے ہاتھ میں ہے جن کے اجداد کا سراغ ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔

حساب ختم ہوا شباب ختم ہوا

کتاب زیست کا ایک اور باب ختم ہوا.

نوٹ: یہ کالم ڈان نیوز کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close