آزادی کے امام!

محمد خان داؤد

جب کوئی سردار مر کر دھرتی میں دفن ہوتا ہے تو دھرتی کے سینے پر ایک بار بن جاتا ہے۔ جو دھرتی اُٹھانا بھی چاہے تو دھرتی سے نہیں اُٹھتا،
پر جب کوئی دھرتی کا عاشق شہید ہوکر دھرتی کے سینے میں جاتا ہے، تو دھرتی توازن کھونے لگتی ہے
چاند ہزار سال کے ماتم کا اعلان کرتا ہے
وشال آکاش سکڑنے لگتا ہے
تارے جھڑ جھڑ کر ٹوٹنے لگتے ہیں
ہوائیں رکنے لگتی ہیں
اور دھرتی کا سانس رُکتا محسوس ہوتا ہے!

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار ہمیشہ بستر پر مرتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگت پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنے سینے پر گولی کھا کر کونج بن کر اُڑ جاتا ہے؟
”اللہ ماں اُڈری ویندو ساںءِ!“
”دیکھنا…. میں اُڑ جاؤں گا!“

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار بستر مرگ پر  پیشاب سے بھری شلوار میں مرتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ شہید کی آخری قمیض بھی لہو سے سُرخ سُرخ ہوتی ہے!

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردارموت سے ڈرتے ڈرتے بے موت مر جاتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگت موت سے نہیں ڈرتے، موت ان پر عاشق ہوتی ہے
اور کسی دن آکر ان سے بغلگیر ہو جاتی ہے..

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار کے کتے اور کمدار جاگتے ہیں اور سردار سوتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی سوتی ہے اور دھرتی کے عاشق جا گتے ہیں؟

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرداروں نے دھرتی کو نہ نظر آنے والی زنجیروں سے جکڑ رکھا ہوتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگت ہر وقت ان زنجیروں کو ہلاتے رہتے ہیں، جن زنجیروں کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ھن زلف زنجیر جے کمد وِدھا
دیوانا ھزارَیں، ماں نہ رُگو!“
”مجھے ان زلف کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے، میں ایک ہی دیوانہ نہیں، ہزاروں ہیں!!!“

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار اپنے رویوں میں بھی آزاد نہیں ہوتے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے بیٹے اپنے عمل، اپنی باتوں اور  اپنے کرموں سمیت آزاد ہوتے ہیں؟

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار روایتی باتوں کے فقیر بن کر رہ جاتے ہیں؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی پر اپنی جان نچھاور کرنے والے نئی باتیں لاتے ہیں، نئے اعلان لاتے ہیں…
بلکل آزادی جیسے!!!

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرداروں کے پاس آزادی ایک گالی ہوتی ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے بیٹوں کے پاس آزادی ایک محبوبہ ہوتی ہے، جو ان سے روٹھ گئی ہے، جس کی تلاش میں وہ پنہوں بنے ہوئے ہیں…

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرداروں کے مرتے وقت کفن سرخ نہیں ہوتے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو بھی دھرتی کا بیٹا مرا ہے، اس کا کفن لہو سے سرخ سرخ ہی رہا ہے!!؟

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ موت سرداروں کو بڑھاپے تک موقعہ دیتی ہے
اور وہ جیتے رہتے ہیں…
شاید اس لیے کہ پھر وہ بھلا دیے جائیں!!
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی ماں کے بیٹے جوانی میں ہی دھرتی پر وار دیے جاتے ہیں،
شاید اس لیے کہ انہیں کوئی کبھی نہ بھولے…!

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار بوڑھے جسم سلامت لے کر قبروں میں جاتے ہیں؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگتوں کے جسموں پر اتنے گھاؤ ہوتے ہیں،
جنہیں دھرتی ماں شمار کرنے بیٹھتی ہے تو ہر زخم کے لیے ہزار آنسو بہاتی ہے…

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک سردار سو قبیلوں کا سردار ہوتا ہے اور لاکھوں انسانوں کا غلام بنائے رکھتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک دھرتی کا سچا عاشق لاکھوں انسانوں کی آزادی کا سوچتا ہے؟

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار اپنی گندی قبائلی سیاست کی بھینٹ میں دھرتی کو جھونک دیتے ہیں
اور دھرتی مقروض اور کاری ہو کر رہ جا تی ہے..
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے عاشق دھرتی سے محبوبہ جیسی نہیں پر ماں جیسی محبت کرتے ہیں…

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار دھرتی کے سر سے پرچم جیسا دوپٹہ کھینچ لیتے ہیں اور دھرتی کی عزت جاتی رہتی ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آگے بڑھ کر دھرتی کے بیٹے دھرتی کے ماتھے پر پرچم جیسا نیا دوپٹہ رکھتے ہیں اور اس عزت کی لاج بھی رکھتے ہیں..

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار پو ری دھرتی کو جرگوں کی نظر کرنے کی سوچتے رہتے ہیں،
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے بیٹے چاہتے ہیں کہ دھرتی پر مہندی کے پھول کھلیں اور سب کے ہاتھ مہندی رنگ سے رنگ جائیں..

تو ہم یہاں بستروں پر مرنے والے سرداروں کی قصہ خوانی اور مدح سرائی کرنے نہیں آئے،
ہم یہاں دھرتی کے گھائل بیٹوں کے گیت لکھنے آئے ہیں…
جو دکُھی دھرتی کا عظیم پیوند ہیں،
جو بلند پرچم ہیں،
جو پہاڑوں کے بیچ گولی کھا کر گرتے ہیں
تو دھرتی سوگ کا اعلان کرتی ہے..
چاند ماتمی لباس میں ان کو دیکھنے آتا ہے، ہوائیں رُک جاتی ہیں
اور آکاش سے تارے ان پر گرنے لگتے ہیں..
وہ جو آزادی کے امام ہیں
وہ جو محبت کے گیت ہیں
وہ جو دھرتی کے معصوم بیٹے ہیں
جب وہ دھرتی میں دفن ہونے لگتے ہیں
دھرتی اپنا توازن کھونے لگتی ہے
پر آگے بڑھ کر دھرتی ان کو اپنی بانہوں میں ایسے لیتی ہے
جیسے پہلی بار ماں بننے والی جوان لڑکی اپنے گرتے بچے کو اٹھا کر اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے…

بوڑھے سردار دھرتی سے بھول جائیں گے،
جوان بیٹے رہتے آکاش تک دھرتی کے سینے پر آگ کی دھرتی سُلگتے رہیں گے..
جب بھی بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر کسی دیش بھگت کے لہو کا قطرہ گرتا ہے، تو اس لہو قطرے سے پتھروں کے بیچ گلاب کھل آتا ہے..
سرخ گلاب!
لہو رنگ گلاب!
گلاب کی رنگت اور خوشبو ہو بہ ہو اس دیس بھگت جیسی ہوتی ہے، جو پہاڑوں کے بیچ رہ کر ماں کی بولی میں دیس کے گیت گاتا ہے..
محبت کے گیت،
آزادی کے گیت!

دھرتی ان آزادی کے اماموں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close