اسی کی دہائی میں سویت یونین اور نوے کی دہائی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی وادی پنج شیر ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کے فرزند احمد مسعود نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کردیا ہے۔
احمد شاہ مسعود بلا شک و شبہ کئی صلاحتیوں کے حامل گوریلا کمانڈر تھے لیکن ان کی کامیابی کے پیچھے ہمت و استقامت کے علاوہ، بیرونی دنیا تک رسائی، متعدد ممالک کی حمایت، میدان جنگ میں اہم کمانڈروں کی موجودگی اور سپلائی لائن کا اہم کردار تھا۔ ان کے بیٹے کے پاس اپنے والد جیسی ہمت تو ہوسکتی ہے لیکن دیگر عوامل 80 اور 90 کی دہائی کے برعکس ہیں۔
اسی کی دہائی میں احمد شاہ مسعود نے سویت یونین کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تو صوبہ بدخشان کا ایک بڑا حصہ سویت یونین کی دسترس سے باہر تھا۔ پاکستان سے احمد شاہ مسعود کو ہتھیاروں کی سپلائی بدخشان کے راستے ہوتی تھی اور خود احمد شاہ مسعود بھی پاکستان آنے کے لیے بدخشان کا راستہ استعمال کرتے تھے۔
چترال کے سرحدی علاقے گبور میں آج بھی کئی خاندان موجود ہیں جو احمد شاہ مسعود کی میزبانی کے قصے فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں احمد شاہ مسعود نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تو یہی بدخشان کا صوبہ ان کی بقا کا ذریعہ بنا رہا۔ شمالی اتحاد کے دور میں احمد شاہ مسعود کا بیرونی دنیا سے رابطہ تاجکستان کے راستے بحال تھا اور وادی پنج شیر کو تاجکستان سے ملانے والے صوبہ بدخشان شمالی اتحاد کے کنٹرول میں تھا۔
اب صوبہ بدخشان سمیت پنج شیر کے چاروں طرف طالبان کا کنٹرول ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی احمد مسعود کی مزاحمت کو وہ قبولیت حاصل نہیں جو ان کے والد کے دور میں تھی۔ سپلائی اور عالمی حمایت کے بغیر احمد مسعود کی مزاحمت کتنی دیر زندہ رہتی ہے اہم سوال ہے۔
احمد شاہ مسعود کو میدان جنگ میں بہترین جنگی صلاحیتوں کے حامل کمانڈروں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ استاد عطا نور محمد، جن کو استاد کا خطاب خود احمد شاہ مسعود نے دیا تھا، بلخ صوبے کے ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کئی معرکوں میں احمد شاہ مسعود کے شانہ بہ شانہ لڑے۔
2001 میں سب سے پہلے مزار شریف شہر کو طالبان کے قبضے سے چھڑا لیا گیا اور مزار شریف پر قبضے کرنے والا یہی استاد عطا نور محمد تھے۔ بعد ازاں استاد عطا نور دس سال تک صوبہ بلخ کے گورنر رہے اور اتنی دولت سمیٹی کے ایک رپورٹ کے مطابق وہ افغانستان کے امیر ترین شخص بن گئے۔
میڈیا رپورٹس میں عطا نور کے اثاثوں کا تخمینہ دس ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ طالبان کے آنے کے بعد استاد عطا نور محمد عبدالرشید دوستم کے ہمراہ ازبکستان بھاگ گئے لیکن طالبان استاد عطا نور کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
ہرات پر قبضے کے بعد طالبان نے اسماعیل خان کو رہا کیا تو انہیں عطا نور سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہوگئے کہ اسماعیل خان عطا نور تک پہنچنے سے پہلے ہی طالبان کابل پہنچ گئے۔
عطا نور محمد کا بیٹا خالد نور 15 اگست کو پاکستان آنے والے افغان رہنماؤں کے وفد کا حصہ تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ استاد عطا نور اپنی دولت احمد مسعود کی مزاحمتی تحریک پر خرچ کریں گے یا وہ دولت بچانے کے لیے سیاست کا سہارا لے کر طالبان کے ساتھ اقتدار میں شامل ہوں گے۔
احمد شاہ مسعود کے ساتھ میدان جنگ میں لڑنے والے اہم ترین کمانڈروں میں جنرل فہیم اور جنرل داؤد بھی شامل تھے۔ جنرل فہم احمد شاہ مسعود کے قتل کے بعد شمالی اتحاد کی عسکری ونگ کے سربراہ بنے اور 2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو یہ جنرل فہیم ہی تھے جن کی سربراہی میں شمالی اتحاد کی فورسز نے کابل پر قبضہ کیا۔
دوسری جانب جنرل داؤد نے 2001 میں قندوز صوبے کو طالبان سے چھڑا لیا تھا جو شمالی افغانستان میں طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ یہ دونوں کمانڈر اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یوں احمد مسعود کے پاس جنرل فہیم اور جنرل داؤد کے ہم پلہ کوئی کمانڈر نہیں ہے جو میدان جنگ میں کار ہائے نمایاں سر انجام دے سکیں۔
احمد شاہ مسعود کو اسماعیل خان اور عبدالرشید دوستم جیسے اتحادیوں کا بھی ساتھ تھا۔ عبدالرشید دوستم کتنے موثر ہیں اس کا اندازہ اگست کے پہلے دو ہفتوں میں ہوگیا۔ طالبان نے مزار شریف کے گرد محاصرہ تنگ کیا تو استاد عطا نور محمد کے ہمراہ عبدالرشید دوستم بھی ازبکستان بھاگ گئے۔
اسماعیل خان نے ہرات میں مزاحمت دکھائی لیکن زیادہ دیر وہ بھی کھڑے نہ رہ پائے۔ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ ایران چلے گئے ہیں۔ اب اسماعیل خان اور عبدالرشید دوستم عمر کے جس حصے میں ہیں، وہ احمد مسعود کے ساتھ شامل ہوبھی جائیں تو میدان جنگ سے باہر ہی رہیں گے۔
ابھی تین بڑے نام ہیں جو احمد مسعود کے ہمراہ صوبہ پنج شیر میں موجود ہیں۔ سب سے بڑا نام امر اللہ صالح کا ہے جو سابق نائب صدر تھے اور اب خود کو افغانستان کا صدر قرار دیتے ہیں۔ احمد شاہ مسعود کے دور میں امر اللہ صالح تاجکستان میں شمالی اتحاد کے سفارتی مشن کے سربراہ تھے۔
1998 میں احمد شاہ مسعود اور سی آئی کے رابطے بحال ہوئے تو امر اللہ صالح کو انٹیلیجنس کی تربیت کے لیے امریکہ بھیجا گیا۔ امر اللہ صالح کو جاسوسی کی ٹریننگ سی آئی اے نے دی اور وہ 2001 تک تاجکستان میں رہ کر احمد شاہ مسعود اور دیگر خفیہ اداروں اور حامی ملکوں کے درمیان رابطے کا کام کرتے رہے۔
2001 میں طالبان کی حکومت گر گئی تو امر اللہ صالح حامد کرزئی کی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر براجمان رہے۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی تشکیل میں امر اللہ صالح کا بڑا ہاتھ تھا اور وہ کئی سال این ڈی ایس کے سربراہ بھی رہے لیکن ان کی ساری ٹریننگ اور تجربہ انٹیلی جنس سے متعلق ہے۔
گوریلا جنگ سے ان کا براہ راست واسطہ نہیں رہا۔ دوسرا بڑا نام جنرل بسم اللہ خان کا ہے جن کو اشرف غنی نے کابل گرنے سے چند دن پہلے قائم مقام وزیر دفاع بنایا تھا۔ جنرل بسم اللہ خان احمد شاہ مسعود کے ہمراہ میدان جنگ میں لڑتے رہے ہیں اور ان کے اہم کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ لیکن بیس سال سیاست میں گزارنے کے بعد شاید بسم اللہ خان اتنے کار آمد نہیں رہے۔ ورنہ کابل اتنی جلدی طالبان کے قبضے میں نہ جاتا۔
امراللہ صالح اور جنرل بسم اللہ خان احمد مسعود کے لیے مددگار ہونے سے زیادہ بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ پنج شیر میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد مسعود کو مزاحمت پر اکسانے والے یہ دو ہی ہیں حالانکہ خود احمد مسعود مذاکرات کے حق میں ہیں جس کا اظہار ان کے چچا اور سسر احمد ولی مسعود بھی کرتے رہے ہیں۔
احمد شاہ مسعود کا ایک اور قریبی ساتھی فہیم دشتی بھی پنج شیر میں احمد مسعود کے ہمراہ ہیں اور آج کل وہ احمد مسعود کے ترجمان کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
نائن الیون سے دو دن قبل جب احمد شاہ مسعود پر قاتلانہ حملہ ہوا تو فہیم دشتی بھی اس کمرے میں موجود تھے۔ انہیں احمد شاہ مسعود کے ہمراہ شدید زخمی حالت میں تاجکستان منتقل کیا گیا جہاں احمد شاہ مسعود زخموں کا تاب نہ لا کر فوت ہوگئے لیکن فہیم دشتی بچ گئے۔
طالبان کی حکومت گرنے کے بعد فہیم دشتی صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ وہ کابل سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے تھے اور متعدد ٹی وی چینلوں سے بطور اینکر بھی منسلک رہے۔ حامد کرزئی حکومت کی کرپشن کو منظر عام پر لانے کی پاداش میں ان کا اخبار بند ہوگیا، بعد ازاں ان کو ٹیلی ویژن سکرین سے بھی ہٹایا گیا۔
فہیم دشتی احمد مسعود کی تعلیم و تربیت کی نگرانی بھی کرتے رہے ہیں اور ان کی سیاسی تربیت میں بھی فہیم دشتی کا ہی ہاتھ ہے۔ فہیم دشتی احمد مسعود کے والد کے قریبی ساتھی تو رہے ہیں لیکن میدان جنگ کے سپاہی وہ بھی تھے اس لیے موجودہ مزاحمتی تحریک میں بھی وہ بندوق کے بجائے قلم کے ذریعے احمد مسعود کا ساتھ دے سکیں گے۔
احمد شاہ مسعود کو یورپ کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کرنے میں عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان دونوں نے یورپ کے کئی ممالک کے دورے کیے اور مغربی ممالک کو احمد شاہ مسعود کی حمایت کرنے پر قائل کیا۔ ایران، ترکی، تاجکستان، بھارت اور خطے کے کئی دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے احمد شاہ مسعود کا ساتھ دے رہے تھے۔
موجودہ صورت حال میں عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کابل میں موجود ہیں اور احمد مسعود کی مزاحمتی تحریک کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ جبکہ بھارت کے سوا کسی ملک سے احمد مسعود کی حوصلہ افزائی سامنے نہیں آئی۔
بھارت میں بھی یہ حمایت میڈیا کی حد تک ہے جبکہ سفارتی محاذ پر بھارت طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھیں تو احمد مسعود کی مزاحمتی تحریک ان کے والدکی مزاحمت کے مقابلے میں ہر طرف سے مشکلات سے دو چار نظر آتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون انڈپينڈنٹ اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں
یہ بھی پڑھیئے:
-
امریکا 9/11 کے بارے میں خفیہ دستاویزات منظر عام پر لائے گا
-
برطانوی وزیرخارجہ کی وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات، طالبان کو تسلیم نہیں کرتے، دیگر ممالک بھی نہ کریں
-
جو بائیڈن افغان انخلا کے ساتھ امریکا کے عالمی کردار کے خاتمے کے بھی خواہاں