بزرگ شہری نے جیو میٹری کے اصول پر قرآن مجید کا نسخہ تیار کر لیا

نیوز ڈیسک

کراچی : کراچی کے رہائشی پچاسی سالہ بزرگ شہری مشتاق احمد نے اپنی زندگی کے چھبیس سال قرآن مجید کو ہاتھ سے ایک نیا انداز دینے پر صرف کر دیے

اس نسخے کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد نسخہ تحریر کیا ہے، جو کسی زبان کے رسم الخط کے بجائے جیومیٹری کے اصولوں پر مبنی ہے، مشتاق احمد نے یہ تخلیقی کام چودہ روپے کے ابتدائی خرچ سے شروع کیا اور چھبیس سال کے دوران اس قرآن مجید کو ہاتھ سے جیومیٹری خط میں لکھنے پر تیس لاکھ روپے کی لاگت آئی

مشتاق احمد اور ان کے بچے دنیا میں اپنی نوعیت کے اس منفرد قلمی نسخے کو مدینہ منورہ میں رکھوانے کے خواہش مند ہیں، تاکہ دنیا میں قرآن سے پاکستانیوں کی محبت اور صلاحیت کو عالم اسلام کے سامنے لایا جا سکے

مشتاق احمد نے لگ بھگ ساٹھ  سال کی عمر میں اس کام کا بیڑہ اٹھایا. وہ اُس وقت عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے تھے، جب زندگی بھر کی محنت مشقت کے بعد عموماً لوگ رٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں اور مشکل کاموں کے بجائے آرام سے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں

مشاق احمد کورنگی کے رہائشی ہیں اور دو بیٹوں پر مشتمل گھرانے کے سربراہ ہیں، انہوں نے محنت مزدوری کرکے اس کام کا آغاز کیا

ہاتھ سے جیومیٹری اشکال میں قرآن کریم تحریر کرنے کی ابتدا کے بارے میں مشتاق احمد بتاتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے یہ کام شروع کیا اس وقت رنگ اور پینسل کاغذ سستا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی، ان کی گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت تھیں ایسے میں ان کے بچوں نے تمام خرچہ اپنے ذمہ لیا اور انہیں اس بات کی فکر نہ رہی کہ جس کام کا بیڑہ انھوں نے اٹھایا وہ کیسے مکمل ہوگا

اب مشتاق احمد اور ان کے بیٹے اس منفرد قرآن کریم کو مدینہ منورہ میں رکھوانے کے خواہش مند ہیں، مشتاق احمد کے بیٹوں کی خواہش ہے کہ اس قرآن مجید کو وہ مدینہ منورہ کی لائبریری میں رکھوانا چاہتے ہیں ان کے والد کی خواہش ہے کہ ان کے کام کو عالم اسلام میں پاکستانیوں کی صلاحیت اور قرآن سے محبت کی علامت کے طور پر سامنے لایا جائے

مشتاق احمد نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ ان کی اس محنت کو مدینہ منورہ میں رکھوانے کے لیے ان کی مدد کی جائے یا پھر پاکستان میں خصوصی طور پر کوئی عمارت وقف کی جائے جہاں اس عظیم فن پارے کو عوامی نمائش کے لیے رکھا جاسکے

مشتاق احمد کے بیٹوں نے بتایا کہ جب مشتاق احمد پنسل اور اسکیل لے کر قرآن مجید کی آیات کاغذ پر تحریر کرتے تو ان کے چہرے پر ایک خوشی اور طمانیت دیکھتے تھے قرآن پاک کی برکت سے ان کے والد کی بینائی جو کم ہوگئی تھی وہ بحال ہوگئی اور انھیں نظر کا چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی، مشتاق احمد کے بیٹوں نے کہا کہ وہ اپنے والد سے کہتے تھے کہ کچھ دیر آرام کرلیں بعد میں مکمل کرلیں لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میں اسے مکمل کرنا چاہتا ہوں اور اللہ نے انھیں اتنی ہمت دی کہ انھوں نے یہ منفرد قرآن پاک مکمل کرلیا

مشتاق احمد کے دو بیٹوں محمد علی اور رضوان نے ان کی مدد کی، مشتاق احمد عمر گزرنے کے ساتھ تحریر کو رنگوں سے مزین نہ کرسکے یہ کام ان کے بیٹوں نے انجام دیا اور پاروں کی جلد کرانے میں بھی مدد کی، محمد علی اور رضوان نے والد کے مشن کو مکمل کرنے کے لیے مالی اخراجات بھی اپنے ذمہ لیے۔ مشتاق احمد کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے بزرگی کے باوجود مستقل مزاجی کے ساتھ یہ منفرد قرآّن مجید مرتب کیا جس وقت انھوں نے یہ کام شروع کیا اس وقت ان کے اتنے وسائل نہ تھے، مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بڑھتے رہے لیکن والد نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کام کو روک دیا جائے

مشتاق احمد کے تحریر کردہ دنیا کے اس منفرد قرآن مجید کا مکمل وزن بیس سے اکیس من ہے. دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہوگا جو اتنا وزن اٹھا سکے، قرآن مجید کی جلد کا سائز 25×32 انچ ہے اس ہاتھ سے تحریر شدہ منفرد قرآنی نسخے کے ایک پارے کی دو جلدیں ہیں، جب کہ کچھ پاروں کی تین جلدیں بھی ہیں

نصف پارے کا وزن بارہ سے تیرہ کلو ہے، اس لحاظ سے ایک پارے کا وزن چوبیس کلو تک بنتا ہے، مکمل قرآن مجید ستر جلدوں پر مشتمل ہے دنیا میں اپنی نوعیت کے اس منفرد قرآن پاک کے ایک پارے پر اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی لاگت آئی. جبکہ پورا قرآن مجید تحریر کرنے پر تیس لاکھ روپے سے زائد کی لاگت آچکی ہے جو زیادہ تر واٹرکلر، کاغذ پر خرچ کی گئی۔ مشتاق احمد کے تحریر کردہ ہر کاغذ کو پلاسٹک کوٹنگ کے ذریعے محفوظ کیا گیا اور پھر جلد بنائی گئی، مشتاق احمد نے چھبیس سال تک اپنا تمام وقت قرآن مجید کی تحریر کو دیا ایک پارہ لکھنے میں چار ماہ کا عرصہ لگا

جیومیٹریکل اصولوں پر قرآن مجید کی تحریر کوئی باقاعدہ رسم الخط نہیں ہے، مشتاق احمد نے تمام قرآن پنسل اور اسکیل کی مدد سے تحریر کیا جس میں واٹر کلرز کے ذریعے خوبصورت رنگوں کے امتزاج سے لکھائی کو واضح کیا گیا اور ہاتھ سے مختلف طرح کے ٹیکسچرز بنائے گئے ہیں

مشتاق احمد نے یہ فن کسی سے نہیں سیکھا، اس خط کی شروعات ان کے ذہن میں اس خیال سے آئی کہ قرآن مجید وہ کتاب ہے جو انسان کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے تو کیوں نہ اسے ایسے رسم الخط میں تحریر کیا جائے جو متوازن اور ہر لحاظ سے سیدھا ہو، قرآن مجید کی تحریر کے لیے عام سا چاٹ پیپر استعمال کیا گیا اور تمام کام ہاتھ سے کیا گیا، قرآن مجید کا یہ قلمی نسخہ اپنی تحریر کے علاوہ خوبصورت رنگوں کے لحاظ سے بھی منفرد ترین ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close