احتجاج کے دوران املاک کو آگ لگانے کے پیچھے کیا نفسیاتی اور سماجی عوامل ہیں؟

ویب ڈیسک

گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں عدالت کے اندر سے توڑ پھوڑ کیے جانے کے بعد گرفتاری نے ایک ایسی ہیجانی کیفیت کو جنم دیا جس سے ملک شدید احتجاج کی لپیٹ میں آ گیا

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حملوں، توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ میں مبینہ طور پر ملوث پچیس سو سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام احتجاج کے نام پر ملکی املاک کو آگ کیوں لگاتے ہیں اور اس عمل کے پیچھے کون سے سماجی اور نفسیاتی عوامل ہیں کہ لوگوں کو ملکی اثاثہ جات نذر آتش کرنا باعث تسکین محسوس ہوتا ہے

سندھی اور اردو زبان کی نامور مصنفہ نور الہدیٰ شاہ کہتی ہیں ”ریاست نے لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے انہیں خوف سے غلام بنانا پسند کیا، جب ریاست تشدد کی زبان بولے تو شہری محبت کے گیت نہیں گاتے“

نورالہدیٰ شاہ کہتی ہیں ”21 فروری 1952ع کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ پرامن طریقے سے اپنی زبان کا حق مانگ رہے تھے لیکن ریاست نے نہ صرف گولی چلائی بلکہ اس سے بھی پہلے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے شروع کر دیے گئے تھے۔ خدائی خدمت گاروں جیسے پرامن مظاہرین کو دن دہاڑے بھون ڈالا گیا۔ یہ وہ زبان تھی، جس میں ریاست نے اپنے شہریوں سے بات کی اور پھر شہریوں نے بھی یہی زبان سیکھ لی، جس کا مظاہرہ گزشتہ تین روز اور اس سے پہلے کئی بار دیکھا گیا ہے“

’شناخت کا بحران‘ اور ‘پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب‘ کے مصنف احمد اعجاز بھی اس سے ملتی جلتی رائے رکھتے ہیں

وہ کہتے ہیں ”پاکستان کے تشکیلی مراحل میں ریاست کے لیے ایسی شناخت قائم کرنا ایک چیلنج تھا، جو بھارت سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ اس مقصد کے لیے مقامی شناختوں کو دبایا گیا اور ایک ایسے نظریاتی سراب کو پروان چڑھایا گیا، جو غیر فطری تھا۔ پھر اس غیر فطری نظریہ مملکت سے لوگوں کو جوڑنے کے لیے پروپیگنڈا اور طاقت کا استعمال کیا گیا۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ جو وسائل لوگوں کو بہتر معیارِ زندگی دینے پر صرف ہونا چاہیے تھے، وہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور ان کے محافظین پر ہونے لگے۔ یوں ریاست اور عوام کے درمیان خلیج وسیع ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ عوام ریاست اور ریاستی املاک کو اپنی چیز نہیں سمجھتی، سو جب موقع ملے، آگ لگانے سے نہیں ہچکچاتی“

قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد زمان کا کہنا ہے ”فلاحی ریاست میں ریاست شہریوں کو بہتر معیارِ زندگی دیتی ہے، جس کے جواب میں لوگ ریاست اور اس کے اداروں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے ہماری آسان اور خوشگوار زندگی کی ضمانت ہیں، جبکہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔“

ان کا کہنا ہے ”پاکستان فلاحی ریاست نہیں بن سکا، سو لوگ سرکاری اداروں کو اپنی مشکلات کا سبب سمجھتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جس ملک میں عام شہری علاج، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترستے ہوئے زندگی گزار دے، وہ کیسے ریاست اور ریاستی اداروں کا احترام کر سکتا ہے؟“

معروف کالم نگار وسعت اللہ خان کہتے ہیں ”ہر سماج میں فرسٹریشن نکالنے کے کچھ نہ کچھ ذرائع ہوتے ہیں اور بالعموم یہ صحتمند سرگرمیاں ہوتی ہیں، جیسے کھیل اور فنونِ لطیفہ۔ ہمارے ہاں ان سب کا دروازہ مدت ہوئی بند پڑا ہے۔ سو عوام کے اندر یہ غم و غصّہ جمع ہوتا رہتا ہے اور اچانک پھٹ پڑتا ہے۔ عوام کی فرسٹریشن کو ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی بھی واقعہ اس کا محرک بن سکتا ہے، جیسے تین دن پہلے عمران خان کی گرفتاری بنی۔ اس دوران کوئی بھی پرتشدد سرگرمی عوامی تسکین کا باعث ہوتی ہے، خاص طور پر اگر اس کا رخ ان کی طرف ہو، جنہیں عوام ذمہ دار سمجھتے ہیں۔“

’پاکستانی معاشرہ، ایک سماجی و نفسیاتی تجزیہ‘ کے مصنف اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کہتے ہیں ”ہجوم کے سر انفرادی ذمہ داری نہیں ہوتی، اس لیے وہ آسانی سے تشدد کرتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنے افراد کسی سرکاری عمارت یا گاڑی کو جلا رہے ہیں تو کون سا مجھ پر ذمہ داری عائد ہوگی؟‘‘

ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کے مطابق ”مختلف علاقوں میں بسنے والے افراد کی اجتماعی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہے۔ جو کچھ لاہور میں ہوا، یہ سندھ یا بلوچستان کی عوام نہیں کر سکتی تھی۔ کیوں کہ انہیں پتہ تھا ریاست انہیں تہس نہس کر دے گی۔ جبکہ پنجاب یا خیبرپختونخوا کی مڈل کلاس مختلف اجتماعی نفسیات رکھتی ہے۔ انہیں پتہ ہے، ہم جو بھی کر لیں، ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں“

تسکین کے نفسیاتی پہلو ے بارے میں ڈاکٹر شاہد خٹک کہتے ہیں ”جیسے بچہ گھر کی چیزیں توڑ کر ماں باپ کو سزا دے رہا ہوتا ہے، ویسے ہی مشتعل ہجوم ریاستی املاک نذر آتش کر کے ریاست کو سزا دے رہا ہوتا ہے۔ بچے کی طرح اس عمل سے شہریوں کو بھی تسکین ملتی ہے“

نور الہدی شاہ کہتی ہیں ”عوام تب تک ملک کی بقا سے وابستگی نہیں رکھتے، جب تک ملک ہر فرد کی بقا کی ضمانت نہیں بنتا۔ اس لیے پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ وہ لوگوں کو احساس دلائے کہ وہ ان کے لیے ہے۔ وہ ان کے غم اور مشکلات سے بیگانہ نہیں بلکہ ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے بعد ہی عام شہریوں کا ملک پر اعتماد بحال ہو گا اور ان کی ذہنی و جذباتی جڑت آپس میں، ملک کے ساتھ اور ملکی اداروں کے ساتھ مضبوط ہوگی“

احمد اعجاز اس حوالے سے زیادہ پرامید نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”دو دن پہلے وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ اس میں ’شہیدوں اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی‘ پر تو گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا مگر اس دوران مرنے والے سات شہریوں کا پوری تقریر میں ذکر تک نہ تھا۔ کیا شہباز شریف ان کے وزیر اعظم نہیں تھے؟ کیا یادگاروں کی اہمیت انسانی زندگی سے زیادہ ہے؟“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close