پب جی پر پابندی کیوں..؟وہ باتیں، جن کا جاننا آپ کے لیے بہت ضروری ہے!

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی PTA کی جانب سے ملک بھر میں موبائل پر کھیلے جانے والی گیم ”پب جی“ پر عارضی طور پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف والدین نے سکھ کا سانس لیا ہے، وہیں اس کے دلدادہ بچے اور نوجوان دل برداشتہ دکھائی دے رہے ہیں.

اس پابندی کی وجہ سے جہاں موبائل صارفین گیم کھیلنے سے محروم ہو گئے ہیں، وہیں کمپیوٹر پر دستیاب پب جی لائٹ اور پب جی اسٹیم  کھیلنے والے افراد بھی اس پابندی کی زد میں آئے ہیں۔

پی ٹی اے کے ترجمان نے ادارے کی طرف سے  اعلامیہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق  پب جی گیم کی سروس پر پاکستان میں یہ پابندی فی الحال عارضی ہے، مکمل پابندی کا حتمی فیصلہ بعد  میں کیا جَائے گا، جس کے لیے مشاورت جاری ہے. لیکن اس بارے میں وقت کا تعین ابھی نہیں کیا گیا.

یہ معاملہ پابندی تک کیوں پہنچا؟

پب جی کے حوالے سے والدین، اساتذہ اور سماجی ماہرین کافی عرصے سے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے، لیکن حال ہی میں پب جی کھیلنے کی اجازت نہ ملنے پر صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں دو بچوں نے خودکشی کر لی تھی. جس کے بعد خودکشی کرنے والے بچوں کے والدین نے  لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ اس گیم پر مکمل طور پر پابندی عائد کر کے، اسے بند کر دیا جائے.

سی پی او لاہور ذوالفقار حمید کے مطابق  گیم کی وجہ سے اب تک تین بچے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر چکے ہیں، تینوں کیسز کی تفصیلات متعلقہ اداروں کو ارسال کر دی گئیں ہیں. یہ صورتحال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس خونی آن لائن گیم کی وجہ سے اب تک دنیا بھر کے کئی نوجوان خودکشیاں کرچکے ہیں.
نۃ صرف خودکشیاں، بلکہ قتل بھی!

پب جی گیم میں آخر ایسا کیا ہے؟

پب  جی مار دھاڑ اور تشدد سے بھرپور ایک آن لائن ملٹی پلیئر گیم ہے، جس میں دو ٹیموں کے بیچ مقابلہ ہوتا ہے، ٹیم ایک سے لے کر سو کھلاڑیوں تک مبنی ہوتی ہے، جو انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے کنیکٹ ہوتی ہے۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑی جہاز سے زمین پر اتر کر پہلے ہتھیار/اسلحہ تلاش کرتے ہیں اور پھر سامنے والے کھلاڑی/کھلاڑیوں پر فائرنگ کرکے مارتے چلے جاتے ہیں. جو آخر میں بچ جائے وہ فاتح اور فرضی چکن ڈنر کا حقدار ٹھہرتا ہے.

ماہرینِ نفسیات کے مطابق اس گیم کے باعث نوجوان بہت زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں، کھیل کا مزاج ان میں تشدد کے عنصر کو بھی بہت تیزی سے بڑھاوا دے رہا ہے۔ گذشتہ سال بھارتی ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺮﻧﺎﭨﮏ ﮐﮯ ضلع ﺑﯿﻞ ﮔﺎﻭﯼ میں پب جی گیم کھیلنے کی لت میں مبتلا  ﺍﮐﯿﺲ ﺳﺎﻟﮧ نوجوان ﺭﮔﮭﻮ ﻭﯾﺮ ﮐﻨﺒﮭﺮ  ﻧﮯ  پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر  اپنے ہی ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ تھا۔ اس طرح کی یہ کوئی ایک مثال نہیں، بلکہ اب تک ایسے درجنوں واقعات رو نما ہو چکے ہیں.
اس گیم کے عادی انیس سالہ سورج نامی لڑکے نے بھی اپنے ہی والدین اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
کئی ایک گیم کھیلنے کے دوران حرکتِ قلب بند ہونے سے بھی اپنی جان گنوا چکے ہیں.
ماہرینِ نفسیات ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ہے کہ پب جی گیم کھیلنے والے ﺑﭽﮯ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﮐﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ گیم کی دنیا ہی ان کی ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ، ایک تشدد سے بھرپور دنیا..

خود گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل کا کہنا ہے کہ کثرت سے پب جی کھیلنے سے اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں مرگی کی بیماری کی وجہ بن سکتی ہیں اور اس سے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کی بیماریاں بھی لاحق ہوتی ہیں.  آنکھیں بھی متاثر ہونا تو ایک عام بات ہے.
پب جی کی وجہ سے نوجوانوں اور بچوں پر سماجی، اخلاقی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی طور پر جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہ بے پناہ ہیں.

بہرحال، یہ گیم جہاں ایک طرف نوجوانوں میں تشدد کے رجحان کو فروغ دے رہی ہے، وہیں ان کی تعلیم کی تباہی کا باعث بھی بن رہی ہے. یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ حلقے اس پر مکمل پابندی عائد کرنے کے حق میں ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close