مصنوعی گردہ، جو مستقبل میں ڈائیلیسس مشین کی جگہ لے سکے گا

ویب دیسک

کیلیفورنیا: اگر گردے ناکارہ ہو جائیں تو مریضوں کو ہفتے میں کم ازکم ایک مرتبہ ڈائلیسس کے تکلیف دہ اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن اب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو (یوسی ایس ایف) کے سائنسدانوں نے مسلسل دس سال کی محنت سے مٹھی میں سما سکنے جتنا ایک مصنوعی حیاتیاتی گردہ تیار کیا ہے۔ جسم اسےقبول کرتا ہے اور اضافی دوا کی ضرورت نہیں رہتی

یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ بدن میں گردوں کی حیثیت چھلنی کی طرح ہوتی ہے اور گردے جسم کے زہریلے مائعات فلٹر کرتے رہتے ہیں۔ یہ خون کو صاف کرتے ہوئے، بلڈ پریشر کو معمول پر رکھتے ہیں اور جسمانی مائعات میں الیکٹرولائٹس کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں

گردوں کے شدید امراض میں اکثر گردے کا بالکل درست عطیہ نہیں مل پاتا اور یوں مریض کو ڈائلیسس کے ایک نہ ختم ہونے والے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم گردے کی پیوندکاری کے بعد بھی جسمانی امنیاتی نظام کی جانب سے گردے کو مسترد کرنے کو زائل کرنے والے ادویہ استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے

قدرتی گردے کی طرز پر بنائے گئے اس نئے مصنوعی گردے کو تیار کرنے میں سائنسدانوں کی دس سال کی محنت شامل ہے ۔ کڈنی پروجیکٹ کے تحت یہ اہم ایجاد ممکن ہوئی ہے۔

اس مصنوعی گردے کو مریض کے جسم میں پیوند کرکے حقیقی کام انجام دیئے جاسکتے ہیں اور اس کے بعد کسی دوا، خون پتلا کرنے والے محلول اور دیگر ادویات کی ضرورت بھی نہیں رہتی

چوکور بیٹری نما گردہ دو اہم حصوں پر مشتمل ہے۔ سب سے اہم ہیموفلٹر ہے، جو سلیکان سیمی کنڈکٹر چادر سے بنا ہے، یہ خون سے مضر مادے فلٹر کرتا ہے۔ دوسری جانب ایک حیاتیاتی (بایو) ری ایکٹر ہے جس میں گردے کے ایسے زندہ خلیات موجود ہیں، جنہیں جینیاتی انجینئرنگ سے تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ خلیات پانی کی مقدار، الیکٹرولائٹ، اور دیگر افعال کو منظم رکھتےہیں

سب سے پہلے گردے کے الگ الگ حصوں کو کئی انداز سے جانچا گیا۔ اس کے بعد مکمل نظام کو کئی طرح کے ٹیسٹ سے گزارا گیا ہے۔ گردے کو خون کی دو اہم شریانوں سے جوڑا جاتا ہے اور اس کی تیسری نلکی پیشاب کی نالی سے جوڑی جاتی ہے

یہ آلہ اترتے چڑھتے بلڈ پریشر میں بالکل درست طریقے سے کام کرتا ہے اور اس کا فالتو مائع پیشاب کی صورت میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مزید طبی آزمائش کے لیے اس میں کئی تبدیلیاں لانا ہوں گی اور ان پر بھی کام جاری ہے۔ اس کے بعد ہی انسانی آزمائش کا کوئی مرحلہ سامنے آ سکے گا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close