سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط55)

شہزاد احمد حمید

نئے دن کا آغاز نئے سفر اور نئے عزم سے شروع کرنے کی تیاری ہے۔ لنگر اٹھا لئے گئے ہیں۔ چمکتی دھوپ میں سندھو کے پانیوں پر راج کرتی ہماری کشتی۔ جیسے جیسے سورج بلند ہو رہا ہے، دھوپ کی حدت بڑھ رہی ہے۔ کشتی پانی کی موجوں پر اڑی جا رہی ہے۔ ہوا پانی سے کھیلتی موجوں سے رقص کر رہی ہے۔ ہمیں مٹھن کوٹ جانا ہے۔ تونسہ سے مٹھن کوٹ تک پہنچنے میں چھ سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ آدھا سفر ہم کر آئے ہیں۔ سورج غروب ہونے تک ہم اپنی آج کی منزل پہنچ جائیں گے۔

سورج دور کوہ سلمان پر معلق ہے آس پاس بادلوں کے ٹکڑے تیرتے نظر آ رہے ہیں۔ پھر یہ اچانک سورج کے سامنے چلے آئے ہیں اور اس سے اٹھکھیلیاں کرنے لگے ہیں۔ ان کی اٹھکھیلیوں نے آسمان پر رنگوں کی کہکشاں بکھیر دی ہے۔ لمحوں میں یہ رنگ بھی غائب ہو گئے ہیں۔ سورج پھر ان پہاڑوں کے پیچھے اتر گیا ہے کہیں اور اجالا کرنے کے لئے۔۔

پانچ دریاؤں کا سنگم پنجند یہاں سے دور ہے۔ بہاول پور تعیناتی کے دوران کئی بار پنجند گیا۔ مشرقی سمت دریائی بیلے اور درختوں کے جھنڈ ہیں اور مشرق میں جڑی بوٹیاں، جھاڑ، جھنکار سے بھرا ریت کا میدان۔ دراصل یہ مقام دریائے ستلج اور دریائے چناب کا سنگم ہے۔ یاد رہے جہلم تریموں کے مقام پر دریائے چناب سے ملتا ہے جبکہ بیاس ہیڈ مرالہ کے مقام پر چناب میں ملتا ہے اور دریائے راوی بلوکی مقام پر دریائے چناب میں گرتا ہے۔ یوں چار دریا ہو گئے اور پانچواں ستلج۔ پنجند اس کا اور چناب کا سنگم ہے۔ یوں پنجند کے حوالے سے جڑی یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ اس مقام پر پانچ دریا ملتے ہیں۔ دراصل پنجند دو دریاؤں اور کوٹ مٹھن پر بھی دو دریاؤں، دریائے چناب دریائے سندھ کا سنگم ہے۔ یہی رگ وید کے سپت سندھو کی سر زمین ہے۔ سات دریاؤں کی سرزمین۔ ساتواں دریا سرسوتی تھا، جو اب خشک ہو چکا ہے۔ مٹھن کوٹ میں ان دو دریاؤں کا سنگم عقب میں خواجہ فرید ؒ کی درگاہ کے مینار۔ یہ شاندار نظارہ اور لکش ہے۔
خواجہ فریدؒ کی دھرتی میں
ایہہ روہی یار ملاوڑی ہے
شالا راہوے ہر دم ساوڑی ہے
ونج پیسوں لسڑی گاوڑی ہے
گھن اپڑیں سوہنڑیں سائیں کنوں
(خواجہ فریدؒ)
ترجمہ؛ ”یہ روہی تو محبوب ملانے والی ہے، خدا کرے ہر دم ہری بھری سرسبز اور شاداب رہے، ہم روہی جا کر اپنے محبوب سے گائے کے دودھ سے بنی لسی مانگ کر پئیں گے۔“

رَیت کی رِیت منفرد ہے یہ چاہنے والوں کو بصارت و بصیرت کے خزانوں سے نوازتی ہے، خود سے پیار کرنے والوں کو فراست و دانش کے اثاثوں سے مالا مال کر دیتی ہے۔ یہ نظر میں تہذیب، فکر میں ترتیب اور سوچ میں معنویت بھری تنصیب کا فریضہ نبھاتی ہے۔ مدھر گیت سناتی ہے۔ یہی ریت تھل اور تھر ہے۔ یہی ریت روہی چولستان ہے جو اپنا ایک شاندار جہان تخلیق کر کے محبت بھرے دلوں کو اپنی اور بلاتی اور سندیسے سناتی ہے۔ یہی روہی کا دل نواز نظریہ ہے جسے خواجہ فریڈؒ نے اوپر دئے گئے کافی کے دو شعروں میں بیان کیا ہے۔

لو سوہنا! ہم سندھو کے مغربی کنارے آباد سرائیکی زبان کے شکسپئیر خواجہ فریدؒ کی عشق و محبت کی دھرتی مٹھن کوٹ پہنچے ہیں۔ بے مثال صوفی شاعر خواجہ فریدؒ کو اپنی دھرتی اپنے وسیب اپنے علاقے اپنی تہذیب سے بے حد پیار تھا۔۔

سندھو بتاتا ہے ”کوٹ مٹھن پنجند ہیڈ ورکس سے ڈاؤن اسٹریم ہے۔ یونانی مؤرخ اور عرب تاریخ دان اس جگہ کا قدیم نام ’پیسی پاڈا ‘اور ’بیسٹی نوڈ‘ (pesipada or bestnaid) بتاتے ہیں۔ بعد میں یہ جگہ مٹھن کوٹ کہلانے لگی۔ انڈس ویلی تہذیب کے 2 اہم شہروں ہڑپا اور موئن جو دڑو کے بیچ واقع مٹھن کوٹ اس دور کا اہم بری اور بحری راستہ تھا۔ چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کو جاتے قافلے یہاں رکتے تھے۔ ہندو میتھالوجی میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ ’لارڈ شیوا‘ نے کھتریوں کو ختم کرنے کی خاطر یہاں قیام کیا تھا۔ رامائن اور مہا بھارت کے مطابق سکندر اعظم بھی ہندوستان سے واپس جاتے یہاں رکا تھا۔ آریان بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ البتہ وہ اس شہر کا نام بتانے سے قاصر رہا۔ کہتے ہیں بابا گورونانک بھی 1511ء میں یہاں تشریف لائے اور ایک مقامی درویش میاں مٹھو سے ان کا بڑا مکالمہ بھی ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بابا مٹھو کے نام کی مناسبت سے ہی یہ جگہ مٹھن کوٹ کہلائی۔ مٹھن کوٹ ہی وہ مقام ہے جو میرا اور چناب کا سنگم ہے۔“ داستان گو اپنی چاشنی سے لبریز گفتگو جاری رکھے ہے

”مٹھن کوٹ میں مجھ پر بَنا کشتیوں کا پل مٹھن کوٹ کو میرے مشرقی کنارے آباد خواجہ فرید ؒ کی جنم بھومی چاچڑاں شریف (رحیم یار خاں) سے ملاتا ہے (کچھ عرصہ قبل یہاں اب پختہ پل تعمیر ہو گیا ہے)۔ سرائیکی زبان کا شکسپئیر خواجہ فریدؒ سندھو کے مشرقی کنارے چاچڑاں شریف (ضلع رحیم یار خاں) میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ بستی ’فرید نگر‘ کہلانے لگی۔ خواجہ کے نام کی نسبت سے۔ عزت، شہرت پائی اور جب وقت آن پہنچا تو سندھو کے مغربی کناے مٹھن کوٹ میں وفات پائی اور یہیں دفن ہیں۔ سورج بھی مشرق سے ابھرتا ہے اور مغرب میں ڈوبتا ہے۔ سرائیکی زبان کا شکسپئیر بھی مشرق سے طلوع ہوا اور مغرب میں ڈوبا۔ بے شک اللہ بڑا حکمت والا ہے۔“

ہماری کشتی درگاہ کے قریب اسی جگہ لنگر انداز ہوئی، جہاں کبھی ’انڈس کوئین‘ کا پلیٹ فارم ہوا کرتا تھا۔ تباہ حال انڈس کوئین (سندھو کی ملکہ) کا برباد پلیٹ فارم۔ ’سندھو کی ملکہ‘ (انڈس کوئین) کا برباد ڈھانچہ آج بھی سندھو کے کنارے ریت میں دھنسا صاحبانِ اقتدار کا منہ چڑا رہا ہے۔ یقیناً اسے نواب آف بہاول پور سے بھی شکایت رہی ہوگی کہ مجھے کن بے حس لوگوں کے حوالے کر گئے تھے۔ اس بحری جہاز کی بڑی شاندار تاریخ ہے۔ اس جہاز میں نامور شخصیات اور وائسرائے ہند نے بھی سفر کیا۔

مجاہد جتوئی، جو خواجہ فرید کی شاعری پر اتھارٹی ہیں، بتاتے ہیں، ”اس جہاز کی ریاست بہاول پور کے ساتھ تاریخی وابستگی ہے۔ تین منزلہ یہ بڑا پر شوکت جہاز تھا۔ اس کا فرنیچر ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا تھا، جس پر ویلوٹ کی عمدہ پوشش کی گئی تھی۔ تہہ خانے میں پر آرائش کمرے تھے جن میں نواب کے مہمان، راجے مہاراجے ٹھہرا کرتے تھے۔ وائسرائے ہند بھی ان کمروں کے مہمان بنے تھے۔ لارڈ مونٹ بیٹن نے تو سکھر تک اس جہاز میں سفر کیا۔ دوسری ریاستوں کے راجے مہاراجوں، اعلیٰ شخصیات اور حکام نے اس پر سندھو کی نہ صرف سیر کی بلکہ شکار سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ کوئی شک نہیں یہ اپنے نام ’انڈس کوئین‘ کی لاج رکھتا تھا۔ یہ تباہ حال ڈھانچہ ماضی کے حکمرانوں کی شان اور ہمارے دور کے حکمرانوں کی بے حسی کی زندہ تصویر ہے۔ ڈیڑھ سو سال پرانا نواب آف بہاول پور کا یہ بحری جہاز 1867ء میں برطانیہ میں تیار کیا گیا۔ 3 منزلہ اس بحری جہاز پر دو سو مہمانوں کے بیٹھنے اور اُن کے طعام کی گنجائش تھی۔ سو سال تک نواب صاحب کی سروس میں رہنے کے بعد1967ء میں نواب صاحب نے یہ جہاز حکومتِ مغربی پاکستان کو تحفہ میں دیا تو یہ مقامی لوگوں اور مسافروں کو کوٹ مٹھن سے خواجہ فرید ؒکی جنم بھومی چاچڑاں شریف کے درمیان لانے لے جانے کے لئے بھی استعمال ہونے لگا۔

’اللہ دتہ‘ نامی ایک ان پڑھ شخص اس جہاز کا کپتان تھا۔ وہ بتاتا ہے، ”میں تیس (30) سال تک اسے سندھو کے پانیوں پر چلاتا رہا ہوں۔ اس میں دو سو سے تین سو افراد سفر کر تے تھے۔ اکثر یہ مسافروں سے بھرا ہی چلتا تھا۔ لوگ اپنے مال مویشی بھی اس میں سوار کر لیتے۔ کرایہ 25 پیسے سے پچاس پیسے ہوتا تھا۔“

دوست! زمانہ اور وقت نہ کسی کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی سدا ایک سے رہتے ہیں۔ اب یہ چلنے اور مرمت کے قابل نہیں کہ اس کا پیندہ بھی گَل چکا ہے۔ اس جہاز کو بنانے والی کمپنیاں بھی اب باقی نہیں رہی ہیں۔ یہ تاریخی ورثہ ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت اگر توجہ دے تو اس جہاز کی موجودہ جگہ ہی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں تبدیل کر دے تو یوں یہ تاریخی نادر ورثہ محفوظ بھی ہو جائے گا اور لوگوں کی تفریح کا ذریعہ بھی بنے گا۔“ کاش ہمارے ادارے تاریخ کے ایسے ورثوں کو محفوظ کرنے اور اگلی نسل تک منتقل کرنے کی ذمہ داری کا احساس کر سکیں۔ کاش۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close