مجھے لمبی عمر کی دعائیں نہ دو

امر جلیل

 

لمبی عمر کی دعائیں دینے والے عام طور پر چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں، نوجوان ہوتے ہیں، اس لیے بےخبر ہوتے ہیں۔ لمبی عمر کی دعائیں وصول کرنے والے ہم لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ لمبی عمر کس کو کہتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ آپ سب میری طرح لمبی عمر پائیں تاکہ آپ کو بھی پتہ چل جائے کہ لمبی عمر پانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور لمبی عمر ہمارے لیے کیسے کیسے لوازمات لے آتی ہے۔

دوسروں کے دل سے ملنے والی لمبی عمر کی دعائیں پانے والے ہم لوگ بین الاقوامی اداروں سے خاص طور پر ڈھکے چھپے نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک کو اقتصادی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سر گرداں بین الاقوامی اداروں کے کرتا دھرتا ہم لمبی عمر پانے والوں کو دور سے پہچان لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے سرکار کو حکم دیا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی اور معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے ضروری ہے بلکہ لازمی ہے کہ آپ لمبی عمر پانے والے پاکستانیوں سے جان چھڑائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے بڈھوں کو لمبی عمر کی دعائیں دینے والوں کی قانوناً بولتی بند کی جائے۔ لمبی عمر کی دعائیں دینے والوں کے لئے سخت سزائیں رکھی جائیں۔ ایسا کرنے سے بڈھوں کو لمبی عمر کی دعائیں دینے والوں کی مت ماری جائے گی، وہ کسی بھی بڈھے کو لمبی عمر کی دعائیں نہیں دیں گے۔۔ اور دعائوں کے بغیر بڈھے لمبی عمر کے مزے اڑانے سے محروم ہو جائیں گے اور مرنا شروع ہو جائیں گے۔ دعائوں کے بغیر کوئی بھی بڈھا لمبی عمر پا نہیں سکتا۔

آئی ایم ایف نے سرکار کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ ملک سے پنشن کا کھیل ختم کر دے۔ دس سال پنشن وصول کرنے والے بڈھوں کو گیارہویں سال پنشن کی بجائے زہر کی گولی دے دی جائے اور اس کے لئے قانون ساز اسمبلی سے قانون پاس کروایا جائے۔ اس ضمن میں سوئٹزلینڈ جیسے یورپی ممالک سے تکنیکی امداد لی جائے، جہاں مرضی سے مرنا یعنی عزت کی موت مرنا قانوناً جائز ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق مرنے کے لئے ان یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ خواہشمندوں کی موت اسپتال والے آسان بنا دیتے ہیں۔ ان کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔

میں نے سنا ہے کہ لمبی عمر پانے والے پاکستانیوں کے لئے امداد دینے والے ممالک کے پاس نرم دل نہیں ہے۔ کوڑے کرکٹ اور کچرے کے انباروں سے کھانے کے لئے ایک نوالہ ڈھونڈنے والے بچوں کے لئے فنڈز ہیں، مگر لمبی عمر پانے والے سینئر سٹیزنز کو زندہ رکھنے یعنی ان کے علاج معالجے کے لئے فضول کے فنڈ نہیں ہیں۔ تمام امداد دینے والے ممالک اور اداروں نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ ستر، اسی، نوے اور ایک سو سال سے زیادہ لمبی عمر پانے والوں سے جان چھڑائی جائے۔ اس طرح پاکستان کے ناتواں کندھوں سے غیر ضروری بوجھ ہٹا دیا جائے۔

امداد دینے والے سخی ممالک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی نظرِ کرم کے علاوہ لمبی عمر پانے والے ہم لوگ غیر معمولی آزمائشوں، مشاہدوں، تجزیوں کے عمل سے گزرتے ہیں۔ آپ نوجوان اور جواں سال ایسی صورت حال کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سچ جانیے خود ہم عمر رسیدہ لوگوں کو اس نوعیت کے محل وقوع کا خواب و خیال تک نہیں آتا۔ آزمائشوں کے سلسلہ درسلسلہ ہوتے ہیں، جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہم ختم ہوجاتے ہیں۔ ہم عمر رسیدہ لوگ ایک جیسے اور ایک جتنے حساس نہیں ہوتے، بلکہ دو جڑواں بچے ایک جیسے نہیں ہوتے، ان کی اپنی اپنی شخصیت ہوتی ہے جو مختلف سمت میں پروان چڑھتی رہتی ہے۔ ان کے رویے، عادات، کردار، اصلاح عمل کا طریقہ ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ وہ ایک جتنے اور ایک جیسے حساس نہیں ہوتے۔ ہر واقعے، حادثے، ماجرے کا ان پر ایک جیسا اور ایک جتنا اثر نہیں ہوتا۔

جوانی کے بعد ہم سب زوال پذیر ہونے لگتے ہیں۔ قلعوں اور عمارتوں کی طرح مسمار ہونے لگتے ہیں۔ سلسلہ وار منہدم ہونے لگتے ہیں۔ سب کچھ کم ہونے لگتا ہے۔ ہم کم دیکھنے لگتے ہیں۔ کم سننے لگتے ہیں۔ کم بولنے لگتے ہیں۔ کم کھانے لگتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ پاکستان انیس سو سینتالیس میں بنا تھا یا اٹھارہ سوسینتالیس میں بنا تھا۔ کبھی کبھار ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں اپنا نام تک یاد نہیں رہتا۔ ہمیں یہ تک یاد نہیں رہتا کہ ہم کس ملک میں رہتے ہیں۔ ایسے بھیانک ذہنی زوال کو ڈاکٹر الزائمر کا نام دیتے ہیں۔ جب ہم کوچ کر جاتے ہیں، تب اپنے پیچھے یادوں کے کھنڈر چھوڑ جاتے ہیں۔

سب کچھ ہوتے ہوئے، کچھ نہ ہونے کا احساس ہمیں مرنے سے بہت پہلے مار ڈالتا ہے۔ اپنا مکان، اپنا گھربار ہوتے ہوئے بہو آپ کو سرونٹ کوارٹر کے ایک کمرے میں چھوڑ آتی ہے۔ بیٹے کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ بھولے سے کبھی جھانک کر سرونٹ کوارٹر میں دیکھے اور پوچھے، کیسی گزر رہی ہے زندگی ابو؟

میرے ایک ہمعصر اور ہم عمر دوست کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی دبئی کے بزنس مین کی بیوی ہے۔ بزنس مین کی تین بیویاں اسی کوٹھی میں حال حیات ہیں۔ سب بیویاں بزنس مین سے بہت خوش ہیں۔ دوسری بیٹی کی شادی ایسے سیاست دان سے کرادی گئی ہے جو چلنے پھرنے سے معذور ہے مگر لگاتار شادیوں کا دلدادہ ہے اور اسمبلی کے اجلاسوں میں پابندی سے شرکت کرتا ہے اور اجلاس کے دوران اونگھتا رہتا ہے۔ میرے دوست نے اپنے چاروں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ایک بیٹا کینیڈا، ایک برطانیہ، ایک فرانس اور ایک امریکہ میں اچھی ملازمتوں پر تعینات ہیں۔ بہت مشغول رہتے ہیں۔ والدین کو اپنے پاس بلا کر ان کی خدمت کرنے کا ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ میرا ہم عمر دوست اپنی نوے برس کی بیوی کے ساتھ کلفٹن کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ بڑھاپے میں بیماریوں اور تنہائیوں کے لمحے بڑے دردناک اور طویل ہوتے ہیں۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اندر کی باتیں کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے، ورنہ بہت گھٹن ہے اس ماحول میں۔۔ اپنے وطن میں اپنے آپ کو میں بے وطن محسوس کرنے لگتا ہوں۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close