آپ بھلے کابل سے امریکا کے عاجلانہ انخلا کو شکست و فتح کی عینک سے دیکھ دیکھ کے خوش ہوتے رہیں، مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا اب بھی خیال ہے کہ درخت سے اترنا تو طے تھا۔ بس ذرا گھبراہٹ میں اترتے وقت پاؤں پھسل گیا اور پھر امریکا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے فوراً ہی ’’کی ہویا..؟ کُج نہیں ہویا!‘‘ کہتے کہتے کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ گویا یہ شکست نہیں شکستِ فاتحانہ ہے۔
شائد اسی لیے تین روز قبل سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ارکان دو حصوں میں برابر برابر بٹ گئے۔ کچھ ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن سینیٹرز کا خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ آخری چند دنوں کے حالات کا اندازہ لگانے میں قطعاً ناکام رہی۔ حتیٰ کہ سی آئی اے بھی کابل پر طالبان کے قبضے سے صرف تین روز قبل وائٹ ہاؤس کو بتا رہی تھی کہ کابل کو طالبان کے قدموں میں گرنے میں کم ازکم ساٹھ دن لگیں گے۔
لیکن جس طرح امریکا نے سقوطِ کابل سے دو ہفتے پہلے منہ اندھیرے کابل کے نزدیک سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایسی رازداری سے چھوڑا، کہ اپنی ہی قائم کردہ افغان حکومت کو بھی خبر نہ لگنے دی۔ یہ حرکت طالبان کے لیے گرین سگنل تھی کہ اب تمہیں جو بھی کرنا ہے کر گذرو اور پھر وہ بگرام خالی ہونے کے نو روز بعد کابل کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔
جو حرکت امریکا نے بگرام سے راتوں رات فرار کی صورت میں کی، ویسا ہی ہاتھ امریکی حمایت یافتہ افغان صدر اشرف غنی نے کیا۔ قطر امن سمجھوتے کے معمار زلمے خلیل زاد کے بقول امریکا کو آخری وقت تک بھنک نہ پڑ سکی کہ اشرف غنی کابل چھوڑنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ ایک دن پہلے ہی تو وہ کابل کے دفاع سے متعلق اعلیٰ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اور اپنے کسی قول و فعل سے شبہ نہیں ہونے دیا کہ چند گھنٹے بعد وہ کیا کرنے والے ہیں.. اور اس کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے، سپاہ سالار نکل لیا تو فوج کا رہا سہا حوصلہ بھی ( اگر کوئی حوصلہ باقی تھا ) سپاہ سالار کے پیچھے پیچھے نکل لیا۔
مگر وہ سپر پاور ہی کیا، جو اخلاقی جرات کے ساتھ مان لے کہ ہاں ہمارا کھرب ہا ڈالر کا افغان پروجیکٹ ناکام رہا۔ ہم وہاں کے زمینی حقائق سمجھنے میں ناکام رہے، ہم نے جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں اور ہم اس پروجیکٹ کی ناکامی کے اسباب کی گہرائی سے جانچ کریں گے تاکہ مستقبل میں بھلے نئی غلطیاں ہوں، مگر ایسی غلطی نہ دھرائی جائے۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ،
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
( غالب )
اگر امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کے اس دعوے، کہ ”امریکا نے بیس برس کے قیام میں جو مقاصد حاصل کرنے تھے کر لیے“ کو مان لیا جائے تو پھر اب قربانی کا بکرا کیوں تلاش کیا جا رہا ہے؟ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کیوں دو حصوں میں بٹ گئی؟ ایک جتھے کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے ناقص سمجھوتہ کیا اور بائیڈن نے اس سمجھوتے پر نہایت بچگانہ انداز میں عمل کیا، جس کے سبب اتحادی ممالک کی نظروں میں بھی خفت اٹھانا پڑی۔
جب کہ سینیٹرز کے دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ سارا معاملہ پاکستان کی دوغلی پالیسی نے خراب کیا۔ وہ طالبان کے ساتھ بھی دوڑتا رہا اور امریکیوں کے ساتھ بھی ہانپتا رہا۔ ہم سے مال پکڑتا رہا اور حقانیوں کو آنکھ ٹکاتا رہا۔ چنانچہ پاکستان کے ساتھ تعلقات پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہے ( وزیرِ خارجہ بلنکن بھی عندیہ دے چکے ہیں کہ افغانستان کے تناظر میں پاک امریکا تعلقات پر نظرِ ثانی زیرِ غور ہے کیونکہ اس بابت دونوں ممالک کے کچھ مفادات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بہت سے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں.)
صرف دو سینیٹرز ایسے تھے، جنہوں نے تیسرا موقف اختیار کیا۔ سینیٹر جین شہین نے کہا کہ اس وقت کانگریس میں منافقت عروج پر ہے۔ جب کہ ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان ہولن نے اپنے ہی وزیرِ خارجہ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے کھلی جرح کی کہ کیا یہ امریکا نہیں تھا جس نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر ملا عبدالغنی برادر سمیت تین کلیدی طالبان کمانڈروں کو رہا کروایا تاکہ افغانستان سے امریکی انخلا کا راستہ ہموار کرنے کے لیے مذاکرات سے انکاری طالبان کو کسی طرح سمجھوتے کی میز پر لایا جا سکے؟ کیا طالبان کو پاکستانی تعاون کے بغیر مذاکرتی میز پر لایا جا سکتا تھا؟
اور جب ایک بار قطر میں بات چیت کا آغاز ہو گیا، تو امریکا نے نہ صرف طالبان کے اصرار پر کابل حکومت کو بات چیت میں شامل کرنے سے پرہیز کیا بلکہ پاکستان کو بھی ’’تھینک یو ویری مچ‘‘ کہہ کر میز پر نہیں بیٹھنے دیا۔ حتیٰ کہ افغانستان میں بیس برس سے شانہ بشانہ نیٹو اتحادیوں کو بھی اس بابت اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا گیا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان قطر میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔
یہی نہیں، بلکہ امریکا نے طالبان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کابل حکومت کو پانچ ہزار طالبان قیدی چھوڑنے پر بھی مجبور کیا.. اور طالبان سے یہ شرط بھی نہ منوا سکا کہ امن سمجھوتے پر دستخط ہوتے ہی وہ افغانستان میں امریکی انخلا مکمل ہونے تک فوجی کارروائیاں بند کر دیں گے۔ طالبان نے بس یہ یقین دلایا کہ وہ مغربی افواج پر حملہ نہیں کریں گے مگر افغان فوج کو ضرور نشانہ بناتے رہیں گے اور امریکا نے خاموش رہ کر طالبان کو گویا اپنی جنگی پیش قدمی جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔
اور جب طالبان ہفتے بھر میں زیادہ تر صوبوں پر قابض ہو گئے تو سارا الزام افغان فوج کی نااہلی پر منڈھ دیا گیا۔ یہ بھی یاد نہ رکھا گیا کہ بیس برس کے دوران طالبان سے جنگ میں ڈھائی ہزار امریکیوں سمیت لگ بھگ چار ہزار اتحادی فوجی کام آئے۔ جب کہ ساٹھ ہزار سے زائد افغان فوجی اور پولیس والے طالبان سے لڑتے ہوئے یا ان کے ہاتھوں مارے گئے۔
سینیٹر کرس وان ہولن کے مندرجہ بالا ہر نکتے کو وزیرِ خارجہ بلنکن نے درست قرار دیا۔ مگر پرنالہ پھر بھی وہیں گرتا رہا کہ پاکستان نے جو کیا اس کے پیشِ نظر تعلقات پر نظرِ ثانی ’’جرور‘‘ ہوگی! اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔
انیس سو پچاس کی دہائی میں پاکستان سرد جنگ میں سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنا اور سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے پشاور میں امریکا کو اڈہ دیا، مگر جب پینسٹھ کی جنگ ہوئی تو امریکا فوراً غیر جانبدار ہو گیا۔ جولائی انیس سو ستر میں امریکا نے چین سے سفارتی تعلقات کے قیام میں پاکستان کی سفارتی خدمات کا بھرپور استعمال کیا۔ مگر اکہتر کی جنگ میں ساتواں بحری بیڑہ تب تک خلیجِ بنگال کی جانب سفر ہی کرتا رہا، جب تک ڈھاکا میں ہتھیار نہیں ڈل گئے۔
انیس سو ستتر میں پاکستان کے مشکوک ایٹمی عزائم کے پیشِ نظر کانگریس نے سمنگنٹن ترمیم کے تحت فوجی و اقتصادی امداد روک دی۔ جیسے ہی اپریل اٹھتر میں کابل میں کیمونسٹ انقلاب کے بعد امریکا کو ضرورت پڑی، تو پاکستان کو پھر سے لبھانے کے لیے کوئی ادا نہیں چھوڑی گئی۔ پاکستان بھی گویا لبھنے کے لیے پہلے سے تیار بیٹھا تھا.. اور پھر ریگن تو ضیا صاحب کو آزاد جمہوری دنیا کا محافظ قرار دے کے ان کے چپر غٹو میں تبدیل ہو گئے۔
جیسے ہی افغانستان سے فروری نواسی میں آخری روسی فوجی نکلا، امریکا کو اچانک سے پاکستان کا مشکوک ایٹمی پروگرام پھر سے یاد آ گیا.. اور پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد ایک بار پھر معطل کر دی گئی۔
سن اٹھانوے میں جب بھارت کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو پاک امریکا تعلقات انتہائی پستی میں تھے۔ پر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ جیسے ضیاءالحق کی خوش نصیبی سے کابل میں کیمونسٹ انقلاب آ گیا، اسی طرح پرویز مشرف کی خوش نصیبی کہ نائن الیون ہو گیا.. پاکستان ایک بار پھر نقد تعاون پر راضی ہو گیا۔ اگلے بارہ تیرہ برس دونوں ملک ڈالروں کی چھاؤں میں ہنسی خوشی رہتے رہے اور جب افغانستان ڈالر اندھا دھند جھونکنے کے باوجود بھی وہ دُم ثابت ہوا جو بارہ برس نلکی میں رکھے جانے کے بعد بھی سیدھی نہ ہوئی تو پاکستان پھر سے ولن ٹپائی دینے لگا۔
یہ سب کچھ پچھلی سات دہائیوں میں اتنے تسلسل سے ہوتا آ رہا ہے کہ اب تو پاکستان میں کوئی نابینا بھی بتا دیتا ہے کہ امریکا کب خوش اور کب غصیل ہونے والا ہے.. اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا عمومی طرزِ عمل بھی یہی ہوتا ہے کہ ’’جاتا ہے تو جائے.. کل پرسوں پھر للو چپو کرتا ہوا آ جائے گا مُوا…‘‘
"یہ کالم ایکسپریس نیوز اور بی بی سی اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں.”
وسعت اللہ کے دیگر کالمز: