دنیا کو بدل ڈالنے والی پانچ ادویات کیسے ایجاد ہوئیں؟

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے پانچ ایسی ادویات کی، جن کے بارے میں بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انسانی زندگیوں کو اکثر ایسے طریقوں سے بہت بڑے پیمانے پر تبدیل کیا، جو شاید ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھے

اگرچہ ان ادویات کے ناقابل یقین فوائد بھی سامنے آئے لیکن بدقسمتی سے فوائد کے ساتھ ساتھ کئی طرح کی پیچیدگیاں بھی ان کے اثرات اور نتائج میں شامل رہیں

واضح رہے کہ آج جو دوا ہمیں اپنے فوائد سے حیرت میں مبتلا کر رہی ہے، وہی کل کو پریشانیوں کا باعث بھی بن سکتی ہے

1: بےہوشی کی دوا

اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ایک انگریز کیمیا دان جوزف پریسلی نے ایک گیس بنائی، جسے انہوں نے ’فلوجسٹکیٹڈ نائٹرس ایئر‘ (نائٹرس آکسائیڈ) کا نام دیا

انگریز کیما دان ہمفری ڈیوی کا خیال تھا کہ اسے سرجری میں درد سے نجات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے بجائے بہت جلد یہ ایک تفریحی نشہ بن گئی

اس سلسلے میں اگلی بڑی پیش رفت 1834 میں ہوئی، جب فرانسیسی کیمیا دان ژاں بیپٹیس دوماس نے ایک نئی گیس کلوروفارم تیار کی

بعد ازاں اسکاٹش ڈاکٹر جیمز ینگ سمپسن نے 1847 میں اسے بچے کی پیدائش کے عمل کو آسان بنانے کے لیے استعمال کیا

جلد ہی بےہوشی کی دوا کو سرجری کے دوران زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال کیا جانے لگا، جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا تھے

اینستھیزیا سے پہلے جراحی کا عمل انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل برداشت تھا۔ تصور کیجیے کہ ایک جیتے جاگتے شخص کے جسم کی تیز دھار آلات سے چیر پھاڑ کی جا رہی ہے اور پھر سوئی کی نوک سے ٹانکے لگائے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مریض اکثر درد کی شدت سے مر جایا کرتے تھے

لیکن کوئی بھی دوا، جو لوگوں کو بے ہوش کر سکتی ہے، وہ نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ آج بھی بےہوشی کے لیے استعمال ہونے والی ادویات خطرے سے خالی تصور نہیں کی جاتیں کیونکہ یہ اعصابی نظام کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھا سکتی ہیں

2: پینسلین

1928 میں اسکاٹ لینڈ کے ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ حادثاتی طور پر دریافت ہونے والی ادویات کے کلاسیکی واقعات کی ایک بہترین مثال ہے

ہوا کچھ یوں کہ فلیمنگ اپنی لیبارٹری کی میز پر سٹریپٹوکوکس نامی بیکٹیریا کے کچھ نمونوں کو چھوڑ کر چھٹی پر چلے گئے

جب واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہوا میں موجود پینیسلیم نامی ایک قسم کی پھپھوندی نے اس بیکٹریا کو بڑھنے سے روک دیا ہے

انہوں نے اس پھپھوندی سے جو مادہ الگ کیا اسے ’پینسلین‘ کا نام دیا گیا۔ آسٹریلوی پیتھالوجسٹ ہاورڈ فلوری اور ان کی ٹیم نے پینسلین کو مستحکم کیا اور پہلا انسانی تجربہ کیا

امریکہ کی مالی اعانت سے پینسلین کو بڑے پیمانے پر تیار کیا گیا، جس نے دوسری جنگ عظیم کا رخ بدل دیا۔ اس کا استعمال ہزاروں فوجیوں کے علاج کے لیے کیا گیا تھا

پینسلین اور اس کی نسل کی ادویات ایک ہی حملے میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کا باعث بننے والی بیماریوں کے خلاف انتہائی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں

تاہم ان کے وسیع پیمانے پر استعمال سے کچھ بیکٹیریا دیگر امراض کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات کے اثرات کو زائل کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں

آج کل کی فارماسیوٹیکل مافیائی کلچر کے برعکس فلیمنگ نے انسانیت کی خاطر پینسلین کے حقوق اپنے پاس رکھ کر یا اسے فروخت کر کے مال بنانے سے گریز کیا

یہی وجہ ہے کہ طبی شعبے میں اکثر جب وسیع تر انسانی اخلاقیات کا ذکر ہوتا ہے تو ان کا یہ قول بقول مثال پیش کیا جاتا ہے کہ ’میں نے پنسلین دریافت کی اور انسانیت کی بھلائی کے لیے مفت میں دے دی‘

بھلا کس لیے اسے دوسرے ملکوں میں صنعت کاروں کی منافع بخش اجارہ داری کی نذر کر دیا جاتا؟‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج فارماسیوٹیکل کمپنیاں اس اخلاقیات کے الف کا بھی خیال رکھتی ہیں؟

3: نائٹروگلسرین

نائٹروگلسرین 1847ع میں ایجاد ہوئی تھی اور اس نے دنیا کے سب سے طاقتور دھماکہ خیز مواد کے طور پر بارود کو پیچھے چھوڑ دیا تھا

لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ تباہ کن مواد سینے میں درد کا باعث بننے والی دل کے امراض سے منسلک بیماری انجائنا کا علاج کرنے والی پہلی جدید دوا کے طور پر بھی استعمال ہو سکتی ہے

اس بات کا پتہ اس طرح چلا کہ دھماکہ خیز مواد کا براہ راست سامنا کرنے والے فیکٹری کارکنان کے سر میں درد رہنے لگا اور چہرے پر جھریاں پڑنے لگیں

سائنسدانوں نے جب اس حوالے سے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نائٹروگلسرین ایک ویزوڈائلیٹر ہے، یعنی یہ خون کی نالیوں کو پھیلاتا ہے یا یہ ان نالیوں کو کھول دیتا ہے

پہلے پہل لندن کے معالج ولیم موریل نے اپنے اوپر نائٹروگلسرین کا تجربہ کیا اور اسے انجائنا کے مریضوں پر آزمایا، جس سے انہیں تقریباً فوری آرام مل گیا

یہ نائٹروگلسرین ہی تھی، جس نے انجائنا میں مبتلا لاکھوں لوگوں کے لیے نسبتاً معمول کی زندگی گزارنا ممکن بنایا

اس نے بلڈ پریشر کو کم کرنے والی، دل کی دھڑکن کو معمول پر لانے والی اور خون میں کولیسٹرول کی مقدار گھٹانے والی ادویات سمیت ایسی کئی دیگر دوائیوں کی بھی راہ ہموار کی۔ ان ادویات نے مغربی ممالک میں زندگی کو بڑھایا اور اوسط عمر میں اضافہ کیا ہے

لیکن چونکہ لوگوں کی زندگیاں طویل ہو گئی ہیں اس لیے اب کینسر اور دیگر غیر متعدی بیماریوں سے اموات کی شرح زیادہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ بڑھتی عمر کے ساتھ بہت سے انسانی خلیے غیر فعال ہو کر زہریلے مادوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور بالآخر موزی امراض ہمیں موت کی طرف تیزی سے دھکیلنے لگتی ہیں۔ بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ نائٹروگلسرین نے دنیا کو ایسے بدلا جیسے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا

4: مانع حمل گولی

1920ع کی دہائی کے اوائل میں آسٹریا کے سائنسدان لوڈوگ ہیبرلینڈ نے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا کہ کس طرح جانوروں میں ہارمونز کے اتار چڑھاؤ سے حمل کو روکا جا سکتا ہے

اس حوالے سے انہیں اپنے ساتھیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود انہوں نے مادہ خرگوش پر اپنے تجربات کیے۔ لیکن 1932 میں ان کی مبینہ خودکشی سے یہ باب وہیں بند ہو گیا۔ چند دہائیوں بعد امریکہ میں ایسے تجربات زیادہ مؤثر طریقے سے کیے گئے

شرح پیدائش کم کرنے کے زبردست حامی اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی مصنفہ مارگریٹ سینگر نے محقق گریگری پنکس سے ایسی دوا تیار کرنے کے لیے کہا جو ہارمونل مانع حمل ہو

اس کے لیے مالی اعانت کیتھرین میک کورمک نے کی تھی، جنہیں وراثت میں کثیر سرمایہ منتقل ہوا تھا

اپنی تحقیق کے نتیجے میں پنکس کو معلوم ہوا کہ پروجیسٹرون بیضہ دانی میں سے انڈے کے اخراج کو روکتا ہے، جسے انہوں نے آزمائشی گولی تیار کرنے کے لیے استعمال کیا

طبی اخلاقیات کے برعکس اس کے کلینیکل ٹرائلز خاص طور پر پورٹو ریکو میں کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین پر کیے گئے، جس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ انہیں پہلے سے اس کے فوائد، خطرات اور ضمنی مضر اثرات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا

آج بھی یہ سوالات اپنی جگہ موجود اور جواب طلب ہیں کہ کس طرح طب کے پیشے نے خاص طور پر پورٹو ریکو میں کمزور طبقے کی خواتین کے جسموں پر پیشگی اجازت اور ممکنہ ضمنی مضر اثرات سے آگاہ کیے بغیر تجربات کیے

نئی دوا امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ انتظامیہ کی منظوری کے بعد جی ڈی سرل اینڈ کمپنی کی طرف سے 1960ع میں اینوئڈ کے نام کے ساتھ مارکیٹ میں پیش کی گئی

اس کی اجازت اس لیے دی گئی کہ حمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کے مقابلے میں اس کے خون کو گاڑھا کرنے اور فالج جیسے ضمنی خطرات کئی درجے کم مہلک تھے

مانع حمل ادویات کے استعمال اور اس کے سنگین سائیڈ ایفیکٹس کے درمیان ربط کو ثابت کرنے میں دس برس لگ گئے

1970ع میں امریکہ کی حکومتی سطح پر ہونے والی انکوائری کے بعد اس گولی کے ہارمونز کی سطح ڈرامائی طور پر کم کر دی گئی

اس کے نتیجے میں ایک اور چیز بھی ہوئی کہ اب کسی بھی خریدار کو ہر پیکٹ کے اندر ایک معلوماتی پرچہ ملتا، جس پر اس کا مکمل نسخہ درج ہوتا

اس گولی نے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف انتہائی موثر کردار ادا کیا

5: ڈائزیپام

اعصابی نظام کو پرسکون کرنے والی ادویات کی ایک قسم بینزو ڈائزاپین (benzodiazepine) پہلی مرتبہ 1955ع میں تیار کی گئی تھی اور دوا ساز کمپنی ہاف مین لا روش نے اسے ’لبریم‘ (Librium) کے طور پر مارکیٹ میں متعارف کروایا تھا

واضح رہے کہ یہ اور اس قسم کی باقی ادوایات بے چینی کے ’علاج‘ کے طور پر فروخت نہیں کی گئی تھیں۔ بلکہ ان کا استعمال سائیکو تھراپی میں مشغول رکھنے کے لیے کیا گیا تھا، یعنی سائیکو تھراپی حقیقی حل تصور کی گئی تھی اور یہ اسے تکمیل تک پہنچانے میں محض معاون تھی

پولش امریکن کیمیادان لیو سٹرن باخ اور ان کے ریسرچ گروپ نے 1959ع میں لبریم کو کیمیائی طور پر تبدیل کیا اور ایک زیادہ طاقت ور دوا کے روپ میں بدل ڈالا۔ اس طرح ڈائزیپام وجود میں آئی، جس کی تشہیر 1963ع سے ’ویلیم‘ کے برینڈ نام سے فروخت کی جانے لگی

اس طرح کی آسانی سے دستیاب ہونے والی اور کم قیمت ادویات نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ 1969ع سے لے کر 1982ع تک امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دوا ویلیز ہی تھی

ان ادویات نے ایک پورے نئے کلچر کی بنیاد رکھی۔ اب لوگ ادویات کے ذریعے تناؤ اور اضطراب پر قابو پانے لگے

ویلیم ہی وہ دوا تھی، جس نے اعصابی نظام کو پرسکون کر کے اضطراب اور تناؤ سے نجات دلانے والی جدید ادویات کا راستہ ہموار کیا

ان نئی ادویات کی بھاری مقدار لینا زیادہ مشکل (مگر ناممکن نہیں) تھا اور ان کے ضمنی مضر اثرات کم تھے۔ فلوکسیٹین (Fluoxetine) پہلی Selective serotonin reuptake inhibitor تھی، جسے 1987ع میں ’پروزیک‘ Prozac کے نام سے مارکیٹ میں پیش کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close