نئے قائد ایوان کا انتخاب، لیکن اس بار صورت حال یکسر مختلف!

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – قومی اسمبلی میں ہونے والے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے گئے ہیں جہاں تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی اور متحدہ اپوزیشن نے شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں

واضح رہے کہ رات گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی، جس کے بعد وہ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹ گئے تھے

دوسری جانب قائد ایوان کے انتخاب کی نامزدگی اور جانچ پڑتال کے اوقات میں متحدہ اپوزیشن کی درخواست پر ایک بار پھر تبدیلی کی گئی ہے

قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور جانچ پڑتال پہلے سے جاری ٹائم پر ہی ہوگی۔

قائد ایوان کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت دوپہر 2 بجے ہی ہے اور کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال سہ پہر 3 بجے کی جائے گی۔

اپوزیشن کے وفد نے سیکریٹری قومی اسمبلی سے ملاقات کی اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت میں تبدیلی واپس لینے کا مطالبہ کیا

ادھر قومی اسمبلی کا 11 اپریل 2022 بروز پیر کو منعقد ہونے والے اجلاس کا وقت تبدیل کردیا گیا ہے اور اب اجلاس دن 11 بجے کے بجائے دوپہر 2 بجے منعقد ہوگا

لیکن اس بار قائد ایوان کے انتخاب کے لیے بلکل نئی صورت حال ہے. چونکہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد والی صورتحال کبھی پیش نہیں آئی اس لیے اسمبلی اجلاس بلانے کے حوالے سے کوئی پرانی نظیر بھی موجود نہیں

1973ء کے آئین کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ملک کے دو وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، لیکن دونوں مرتبہ ناکام ہوئی

ضیاء الحق کے طویل مارشل لا کے بعد 1988ء میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ انہیں ابھی حکومت سنبھالے ایک برس بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے خلاف اکتوبر 1989ء میں عدم اعتماد تحریک پیش کردی گئی جو ناکام ہوئی

محترمہ بے نظیر بھٹو اس عدم اعتماد تحریک میں 12 ووٹوں سے کامیاب ہوئی تھیں۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے حزبِ اختلاف کو اس وقت کی اسمبلی سے 119 ووٹ درکار تھے لیکن 107 ووٹ ملنے کی وجہ سے وہ تحریک ناکام ہوگئی

اس کے بعد دوسری عدم اعتماد کی تحریک جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ وزیرِاعظم شوکت عزیز کے خلاف آج کی اپوزیشن اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے 2006ء میں لائی تھی۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی کا ایوان 342 ممبران پر ہی مشتمل تھا جس میں اپوزیشن کو وزیرِاعظم کے خلاف تحریک کامیاب بنانے کے لیے 172 ووٹوں کی اکثریت درکار تھی لیکن اپوزیشن کو 36 ووٹوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تحریک کے حق میں 136 ووٹ ڈالے گئے

مختلف اوقات میں لائی گئی یہ دونوں تحاریک ناکام ہونے کی صورت میں تب کے وزرائے اعظم بغیر کسی رکاوٹ اپنے اپنے عہدوں پر براجمان رہے اور معمولاتِ حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑا

اب کی بار صورتحال یکسر مختلف اس لیے ہے کہ حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی اکثریت ظاہر کردی ہے۔ ایوان کے باہر سندھ ہاؤس میں بدھ 30 مارچ کو بلائے گئے اجلاس میں اپوزیشن نے اپنی حمایت میں 199 ممبران کو ظاہر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ اپوزیشن کی قیادت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ان کو دو سو سے زائد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جبکہ اسمبلی کے فلور پر گزشتہ اجلاس میں ان کے پاس 175 ممبران موجود تھے

اسمبلی کے ایوان میں حزبِ اختلاف اکثریت کی بنیاد پر ایک حکومتی تحریک کو مسترد بھی کرچکی ہے۔ یہ ان کو حاصل ہونے والی اکثریت کا ایک بڑا ثبوت ہے، جو اب اسمبلی ریکارڈ کا حصہ بھی بن چکا ہے

جمعرات 31 مارچ 2022ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے بلایا گیا تھا لیکن بحث شروع ہونے سے قبل ڈپٹی اسپیکر نے معمول کی کارروائی شروع کی اور اس کے ساتھ حکومت نے ایک تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہی

حکومت کی طرف سے یہ تحریک مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’یہ ایوان اس بات کا متقاضی ہے کہ قومی اسمبلی کا ہال پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس کے لیے مختص کیا جائے‘۔

ڈپٹی اسپیکر نے اس تحریک کو ایوان کے سامنے پیش کیا لیکن اپوزیشن نے اس تحریک کے خلاف وائس ووٹ کرکے اسے پہلے ہی مرحلے پر مسترد کردیا، جس پر ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ دے کر یہ اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا یہ اجلاس اب کمیٹی روم نمبر 2 میں ہوگا۔

اسمبلی رولز میں موجود ابہام اور نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے حوالے سے جب قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکریٹری برائے قانون سازی مشتاق احمد سے ان کا مؤقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک عدم اعتماد کے بعد نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے یا اسی اجلاس میں نیا وزیرِاعظم منتخب کیا جائے، اس پر آئین اور اسمبلی قواعد و ضوابط مکمل خاموش ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ اسپیکر کی صوابدید پر ہے کہ عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہیں یا اسی اجلاس میں نئے ایجنڈا کے تحت قائدِ ایوان کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا اس بارے میں ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے

ایسی صورت میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جس طرح درخواست کے باوجود اسپیکر نے مقررہ مدت پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تین دن تاخیر کی، اسپیکر کے اعلان کے باوجود مقررہ دن پر حزبِ اختلاف کو تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جس طرح اپوزیشن اسپیکر کو ایک فریق سمجھ کر ان پر آئین شکنی کے الزامات لگا رہی ہے تو نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیری حربے استعمال کرنے کا خدشہ موجود ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close