میں علی الصبح سیشن کورٹ میں ایک مثل پیش کرنے کے لیے سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر تھانے سے نکل ہی رہا تھا کہ مجھے تھانے میں داخل ہوتے ہوئے ایک موٹرسائیکل سوار نے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا اشارہ کیا۔
موٹرسائیکل سوار نے موٹر سائیکل ایک طرف روکی اور بھاگ کر میری طرف آ گیا اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اس نے آتے ہی خبر دی کہ چک نمبر 203 میں ملک دلاور کے بھینسوں والے احاطے میں ان کے دو ملازموں اکیس سالہ رفاقت اور پندرہ سالہ ارشد کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔
میں نے فوری طور پر ایڈیشنل ایس ایچ او کو ہائی کورٹ مثل پیش کرنے کا کہا اور خود موقعِ واردات کی جانب روانہ ہو گیا۔
قتل کی واردات، اور وہ بھی دہرا قتل ایسا جرم ہوتا ہے جس سے تھانے کا سارا ریکارڈ خراب ہو جاتا ہے۔ اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں، لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگتے ہیں کہ پولیس کہاں ہے.. لاقانونیت کا راج ہو گیا ہے… وغیرہ..
اس لیے میں جلد از جلد جائے وقوعہ پر پہنچنا چاہتا تھا تاکہ اس دہرے قتل کا سراغ لگانے کے لیے مجھے زیادہ سے زیادہ واقعاتی شہادتیں میسر آ سکیں اور ملزمان کی سراغ رسانی اور گرفتاری کو جلد از جلد ممکن بنایا جا سکے۔
چک 203 ای بی تھانے سے زیادہ دور نہیں تھا چنانچہ اگلے دس منٹ میں ہم جائے واردات پر پہنچ گئے۔ ملک دلاور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والا متمول زمیندار تھا. اس کے دو ذاتی ملازمین کا قتل اس کی اپنی ساکھ کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔
جائے واردات (احاطہ مویشی، ملک دلاور) 203 چک میں داخل ہوتے ہی ایک کلو میٹر کے فاصلے پر باہر کی طرف واقع تھا۔
جب ہم موقع پر پہنچے تو یہ دیکھ کر میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا کہ وہاں ایک جم غفیر موجود تھا۔ اس خلقت میں کوئی اہم شہادت، کوئی کھرا، کوئی سراغ کیسے بچ سکتا تھا۔ البتہ یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ملک دلاور نے اپنے احاطہ کے قریب دو گن مین کھڑے کر رکھے تھے تاکہ پولیس کے آنے تک لوگ احاطہ میں داخل نہ ہو سکیں۔
ملک دلاور نے ہمیں ساتھ لیا اور ہم احاطے کے اندر چلے گئے۔ احاطہ مویشیاں تقریباً دو کنال کے رقبے پر مشتمل تھا، جس کے باہر چاروں طرف لکڑی کی باڑ لگائی گئی تھی۔ احاطے کے اندر ایک چھوٹا سا کچا کمرہ بنایا گیا تھا، جس کی چھت ٹین اور گھاس پھوس کی جبکہ دروازہ بھی کسی مقامی مستری کا بنا ہوا تھا، جسے چند لکڑیوں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔
احاطے کے باہر اور اندر ہمیں جہاں جہاں قدموں کے نشانات نظر آئے ہم نے فوری طور پر انہیں کسی برتن کے ساتھ ڈھانپ کر محفوظ کر دیا۔
اس چھوٹے سے کچے کمرے کے اندر ایک چارپائی اور لکڑی کے ایک سٹول کے بعد اتنی جگہ نہیں بچی تھی کہ وہاں کوئی دوسری چارپائی آ سکے۔ جیسے ہی ہم کمرے میں داخل ہوئے تو مجھے چارپائی کے نیچے زمین پر تازہ جما ہوا خون دکھائی دیا اور وقفے وقفے سے خون کے قطرے زمین پر ٹپک رہے تھے۔
میں نے آگے بڑھ کر لحاف اتارے تو دونوں مقتولین رفاقت علی اور ارشد کی لاشیں پڑی دکھائی دیں۔ دونوں کے ماتھے پر گولی ماری گئی تھی، جو بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی تھی۔
اکیس سالہ رفاقت علی،ل کافی جسیم دکھائی دے رہا تھا، جبکہ پندرہ سالہ ارشد نسبتاً کمزور جسامت کا تھا۔ شاید کام سے فارغ ہونے کے بعد دونوں اسی ایک چارپائی پر سو جاتے تھے۔
رفاقت سیدھا لیٹا ہوا تھا جبکہ ارشد دیوار کی جانب منہ کر کے پہلو کے بل لیٹا ہوا تھا۔ مقتولین آپس میں کزن بھی تھے۔ رفاقت کو یہاں کام کرتے ہوئے آٹھ نو سال کا عرصہ گزر چکا تھا، جبکہ ارشد ڈیڑھ سال سے ملک دلاور کے ہاں ملازمت کر رہا تھا۔
ملک دلاور نے وقوعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’رفاقت اور ارشد دونوں ہمارے گاؤں کے ہی رہنے والے ہیں جو مسلم شیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا سارا خاندان اسی گاؤں میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ دونوں صبح سے رات تک جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے اور رات کو احاطے کے اندر ہی بنے ہوئے کچے کوٹھے میں سو جاتے تھے۔ میں روزانہ صبح نماز فجر کے بعد یہاں برتن لے کر آتا۔ یہ دونوں بھی اس وقت تک بھینسوں کو چارا ڈال چکے ہوتے۔ میرے آنے پر ہم مل کر دودھ دوہتے اور ایک گھنٹہ رکنے کے بعد دودھ والی گاڑی آتی اور دودھ لے جاتی۔
’حسب معمول آج علی الصبح جب میں احاطے پر پہنچا تو سب سے پہلے مجھے بھینسوں کی آواز سے اندازہ ہوا آج انہیں چارا نہیں ڈالا گیا۔ میں نے احاطہ کے اندر آ کر رفاقت اور ارشد دونوں کو متعدد آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ آیا تو میں نے لکڑی کے دروازے کو زور سے دھکا دیا جو آسانی سے کھل گیا۔ میں نے انہیں مسلسل آوازیں دیں مگر یہ دونوں اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ جیسے ہی میں نے ان کی چارپائی سے لحاف کھینچا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
’دونوں کے ماتھے پر گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے فوری طور پر اپنے ڈیرے سے دو گن مین بلائے اور انہیں احاطے کے باہر کھڑا کر دیا، تاکہ آپ کے آنے سے پہلے پبلک کا کوئی آدمی اندر نہ جائے۔‘
ملک دلاور نے یہ بھی واضح کیا کہ اس کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔
بظاہر یہ بات ہضم ہونے والی نہیں تھی، لیکن اس لمحے اپنی رائے کا اظہار کرنا مدعی کی تکلیف اور دکھ کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے میں نے خاموشی اختیار کی لیکن میرے دماغ میں مسلسل یہی چل رہا تھا کہ پانچ ہزار ماہانہ اجرت پر رکھے ہوئے ان ملازمین کی کسی کے ساتھ بھلا کیا دشمنی ہو سکتی ہے کہ انہیں اتنی بےرحمی سے مار ڈالے؟‘
جائے واردات اور لاشوں کے ظاہری ملاحظے سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے ان دونوں کو نیند کی حالت میں قتل کیا ہو۔ میں نے سب انسپکٹر کے ساتھ دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال روانہ کیا اور خود دوبارہ جائے وقوعہ پر تفتیش میں مصروف ہو گیا.
کمرے کے اندر سے مجھے دو خالی خول ملے، جنہیں بذریعہ فرد قبضہ میں لیا۔ گولیوں کے ملنے والے خول سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ واردات کے لیے 30 بور پستول استعمال کیا گیا ہے اور دو ہی گولیاں مقتولین کے جسم میں اتاری گئی ہیں۔
کمرے کے اندر سے قبضے میں لی جانے والی دوسری چیز خون آلود مٹی تھی، جسے میں نے چارپائی کے نیچے سے کھرچ کر پارسل بنایا اور نمونہ قبضہ میں لے کر فورینزک تجزیے کے لیے لیبارٹری بھیج دیا۔
ادھر ادھر گھومنے لگا۔ کمرے کے باہر مجھے دو استعمال شدہ سگریٹ کے فلٹر نظر آئے۔ ایک سگریٹ زیادہ پی ہوئی تھی، جس سے برانڈ کا کوئی اندازہ نہیں ہو رہا تھا، جبکہ اسی کے ساتھ دوسرے فلٹر کے ساتھ سگریٹ کا تھوڑا سا حصہ موجود تھا جس پر ’گولڈ لیف وائٹ‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے وہ دونوں سگریٹ فلٹر علیحدہ رکھ لیے۔
ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ دونوں لڑکوں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ ہی ملک دلاور کے خاندان میں سے کوئی سگریٹ پیتا تھا۔ احاطے سے روزانہ صبح دودھ لانے والی گاڑی کے ڈرائیور کو بھی چیک کرلیا گیا تھا، جو اس وقت وہیں موجود تھا۔ یہ ڈرائیور سموکر ضرور تھا لیکن وہ گذشتہ کئی سالوں سے ’ولز‘ برانڈ کے سگریٹ پی رہا تھا۔
میں نے یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے بڑے سرسری انداز میں پوچھ گچھ کی تاکہ اپنے اصل ہدف ملزمان کی نشاندہی اور گرفتاری کی طرف آگے بڑھ سکوں۔
میں نے ملک دلاور سے کہہ کر بورے والا سے ایک نامور کھوجی کو بھی بلوا لیا تھا تاکہ ہمیں کھرے ڈھونڈنے اور ان کے ذریعے ملزمان تک پہنچنے کا کوئی سراغ مل سکے۔
حنیف کھوجی بہت سمجھدار اور تجربہ کار تھا۔ اس نے احاطے کی حدود کے آغاز سے لے کر اس کچے کمرے تک چند قدموں کے نشانات کے گرد اپنی چھڑی کے ساتھ گول دائرے لگا دیے۔
کھوجی نے بتایا کہ احاطے کے اندر لگے قدموں کے نشانات آتے جاتے ہوئے ایک ہی شخص کے تھے۔ جس نے سروس چیتا کمپنی کے جوگر پہن رکھے تھے۔ احاطے کے باہر اہلیان علاقہ کا بہت رش ہو چکا تھا۔ میں جائے واردات سے نکل کر مجمع میں چلا گیا اور لوگوں سے مقتولین رفاقت اور ارشد کے چال چلن، دشمنی اور ملک دلاور کی خفیہ، اعلانیہ مخالفت کے حوالے سے ٹوہ لگانے لگا۔ میرا دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ دہرے اور بظاہر اندھے قتل کے باعث، پھیلنے والے خوف و ہراس میں کمی لانے کے لیے میں اہلیان علاقہ کو تسلی دوں۔
گاؤں کے ہر شخص نے رفاقت اور ارشد کے چال چلن کی تعریف کی۔ مقتول رفاقت کے بارے میں تو یہ بھی پتہ چلا کہ وہ کبڈی اور تن سازی کا اچھا خاصا کھلاڑی تھا اور قریب قریب کے دیہات میں ہونے والے کبڈی اور تن سازی (باڈی بلڈنگ) کے مقابلوں میں شرکت کر کے اپنے جوہر دکھا چکا تھا۔
میں نے اہلیان علاقہ سے بھی کہا کہ ہمیں اس کیس کا سراغ لگانے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آپ سب کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ پولیس کی طرف سے میں نے انہیں یقین دلایا کہ ملزمان کی گرفتاری تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ان شاء اللہ جلد ملزمان قانون کی گرفت میں ہوں گے۔
اہل علاقہ کو تسلی دینے کے بعد میں دوبارہ حنیف کھوجی کے ساتھ احاطے کی طرف بڑھا اور اس سے پوچھا کہ اس نے مزید کیا معلومات حاصل کی ہیں۔
جوگر والے قدموں کے نشانات احاطہ سے چلتے ہوئے دو تین ایکڑ کے بعد مکئی کے کھیت کے اندر جاتے دکھائی دیے۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے ہم مکی کے کھیت کے اندر بنی پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ پگڈنڈی کی مٹی بھربھری اور نرم تھی، جس کی وجہ سے وہاں جوگروں کے نشانات مزید واضح ہوتے دکھائی دیے۔ اس پگڈنڈی کے آخری حصے پر کھیت ختم ہو رہا تھا اور گاؤں کا اندرونی راستہ شروع ہو رہا تھا۔ وہاں بہت سا پانی کھڑا تھا اور کافی کیچڑ تھا، جہاں سے بچ کر گزرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ چنانچہ گاؤں والوں کی مدد سے ہم کچھ اینٹیں اور لکڑی کا تختہ رکھ کر پتلون کو ٹخنوں سے اوپر اٹھا کر بمشکل گزرے۔ مجھے قوی شبہ تھا کہ اگر وہ قدموں کے نشانات مبینہ ملزم کے ہیں، تو وہ یہاں ضرور پھسلا یا گرا ہو گا۔
میرا شک درست ثابت ہوا۔ گاؤں کے اندر والی نیم پختہ سڑک پر جوگر کے نشانات مزید واضح ہو گئے۔ حنیف کھوجی بھی ان نشانات کو دیکھ کر پر اعتماد دکھائی دے رہا تھا۔ دوسری گلی میں جا کر یہ جوگر کے نشانات اختر شاہ کے ڈیرے پر رک گئے۔
میں نے اختر شاہ کا پتہ کروایا۔ وہ آج صبح کسی شادی کے سلسلے میں بہاولپور گیا ہوا تھا، البتہ اس کا ایک کزن اور ملازم وہاں موجود تھے، جن سے ہم نے گذشتہ رات ڈیرے پر ٹھہرنے والے ایک ایک شخص کے بارے میں پوچھا۔
اختر شاہ کے بھائی اور ملازم کو میں نے سرکاری گاڑی میں بٹھا لیا اور خود اختر شاہ کے ڈیرے میں بنے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ مجھے ان جوگروں کی تلاش تھی، جو ہمیں ملک دلاور کے احاطہ (جائے واردات) سے یہاں تک لائے تھے۔ میں نے اختر شاہ کے بھائی اور ملازم دونوں سے الگ الگ پوچھ گچھ کی مگر ان جوگروں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔
ادھر ادھر کا جائزہ لیتے وقت اچانک میری نظر سٹول پر رکھے مٹی کے پیالے پر پڑی جسے غالباً بطور راکھ دان (ایش ٹرے) استعمال کیا جاتا تھا۔
ایک دم میرے دماغ میں جائے واردات سے ملنے والے دو سگریٹ فلٹروں کا خیال آیا جنہیں میں نے ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال کر الگ سے رکھ لیا تھا۔ میں نے پیالے کے اندر پڑے فلٹرز کو دیکھنا شروع کر دیا۔ میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب اس مٹی کے پیالے میں سے مجھے پانچ چھ سگریٹ فلٹرز اسی برانڈ کے مل گئے، جو میں نے جائے واردات سے اٹھائے تھے۔
مجھے یقین ہونے لگا کہ وہ ذات ان بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے سفاک قاتل تک پہنچنے میں میری مدد کر رہی ہے۔
میں نے اپنے گن مین سے کہا کہ وہ اختر شاہ کے ملازم کو گاڑی سے اتار کر کمرے میں لے آئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے اختر شاہ کے ملازم کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا کہ اگر اس نے سچ سچ نہ بتایا تو میں اسے اس دہرے قتل کے مقدمے میں چالان کر دوں گا۔
اختر شاہ کے ملازم نے بتایا کہ اختر شاہ کے دو کزن ندیم عرف دیمی شاہ اور نصرت شاہ دونوں رات ڈیرے پر موجود تھے۔
دیمی شاہ اور نصرت شاہ اسی گاؤں کے رہنے والے تھے اور اکثر رات کو گپ شپ کے لیے اس ڈیرے پر آتے اور جب کبھی دیر ہو جاتی تو یہیں سو جاتے اور صبح اٹھ کر گھروں کو چلے جاتے۔
میں نے فوری طور پر پولیس پارٹی دیمی شاہ اور نصرت شاہ کی طرف روانہ کی جو اپنے گھروں پر ہی موجود تھے۔ جب انہیں تھانیدار نے بتایا کہ آپ دونوں کو ایس ایچ او صاحب بلا رہے ہیں، تو دونوں بغیر کسی حیل و حجت خود چل کر اختر شاہ کے ڈیرے پر آ گئے۔
میں نے ملازم کو دوبارہ گاڑی میں بٹھا دیا اور دیمی شاہ اور نصرت شاہ دونوں سے الگ الگ پوچھ گچھ کرنے لگا۔
دونوں نے اپنے بیانات میں بتایا کہ رات کو وہ دیر تک ڈیرے پر ٹی وی دیکھتے رہے اور یہیں سو گئے۔ صبح تین بجے لطیف عرف طیفا جٹ اپنے رقبے کو پانی لگوا کر آیا اور واپسی پر یہیں ڈیرے پر سو گیا۔
ان دونوں کی پوچھ گچھ سے یہی پتہ چلا کہ نصرت شاہ سگریٹ نہیں پیتا تھا، جبکہ دیمی شاہ چین سموکر تھا اور مارون برانڈ کے سگریٹ پیتا تھا۔ اس مٹی کے پیالے کے اندر زیادہ فلٹرز اسی برانڈ کے تھے۔ میں نے دیمی شاہ کو الگ کیا اور اس سے پیالے میں دوسرے سگریٹ پینے والے کی بابت پوچھا تو اس نے بلا توقف کہا کہ یہ لطیف عرف طیفا جٹ پیتا ہے۔
اختر شاہ کے بھائی نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ وائٹ گولڈ لیف سگریٹ لطیف عرف طیفا جٹ ہی پیتا ہے۔
اب مزید وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میری تفتیش لطیف عرف طیفا جٹ کے گرد گھوم رہی تھی اس کو کلیئر کیے بغیر آگے بڑھنا میرے لیے ناممکن تھا۔
میں نے فوری طور پر سادہ کپڑوں میں ایک اسپیشل پولیس پارٹی کو لطیف عرف طیفا جٹ کو لانے کے لیے بھیج دیا۔
میں نے دیمی شاہ، نصرت شاہ اور اختر شاہ کے بھائی سب سے لطیف عرف طیفا جٹ کے چال چلن، رہن سہن اور پس منظر کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی۔
ان سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق لطیف عرف طیفا جٹ، بعمر 28/29 سال، ایک لاابالی طبیعت کا مالک تھا۔ گاؤں میں اس کی پینتیس ایکڑ زمین تھی. چھوٹے بھائی کی ذہنی معذوری کے باعث سارا رقبہ لطیف جٹ کے پاس تھا جس میں سے آدھا رقبہ وہ کاشت کرتا، جبکہ آدھی زمین ٹھیکے پر دے دیتا۔
اس کے لاابالی پن کی وجہ سے اس کی فصل کی دیکھ بھال بھی اکثر اس کا چچا اور والد کرتے۔ اسے میلوں، ٹھیلوں پر کشتیاں دیکھنے کا شوق تھا۔
میں نے ان شاہ صاحبان سے باری باری لطیف عرف طیفا جٹ کے دہرے قتل میں کسی اعانت کے شبے کا پوچھا تو تقریباً سب نے یہی جواب دیا کہ طیفا جٹ تو رفاقت کا پورے گاؤں میں سب سے زیادہ خیال رکھتا تھا، وہ انہیں کیسے قتل کروا سکتا ہے؟
دوسری طرف مجھے ریڈنگ پارٹی کے سب انسپکٹر نے بتایا کہ ”لطیف عرف طیفا جٹ کو جب پتہ چلا کہ آپ اختر جٹ کے ڈیرے تک پہنچ چکے ہیں، تو اس نے گھر سے بیگ تیار کیا اور کسی دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اچانک بورے والا بس اسٹاپ پر اتر گیا۔ ہم نے اس کے دوست کو پکڑا اور اس کی نشاندہی پر لطیف جٹ کو بہاولپور کی گاڑی پر عین سوار ہوتے وقت پکڑا۔ اس نے کافی مزاحمت کی، لیکن ہم نے اسے قابو کر لیا۔ اس وقت وہ ہماری گاڑی میں موجود ہے.“
میں نے ریڈنگ پارٹی کو شاباش دی اور انہیں فوری طور پر تھانہ پہنچنے کو کہا اور خود بھی تھانے کے لیے روانہ ہو گیا۔
دہرے قتل کا معمہ تو تقریباً حل ہو چکا تھا، لیکن میں اس سفاکانہ دوہرے قتل کے محرکات جاننا چاہتا تھا۔ اور ابھی آلۂ قتل کی برآمدگی بھی باقی رہتی تھی۔ میں ایک سابق کہانی میں بیان کر چکا ہوں کہ قتل کی تفتیش میں آلۂ قتل کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔
تھانے جاتے ہوئے میں نے ملک دلاور سے کہا کہ وہ بھی مقتولین کی تدفین کے بعد تھانے آ جائیں۔
میں جیسے ہی تھانے پہنچا تو سفارشی کالز کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہیں سے دھمکیاں آنے لگیں، کہیں سے بھاری رشوت کی پیشکشیں.. اس وقت اس قسم کے دباؤ کا سامنا ہر پولیس آفیسر کو کرنا پڑتا ہے۔ میں مزید ایک لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے محرر کو سختی سے ہدایت کی کہ وہ فون کا ریسور اٹھا کر نیچے رکھ دے، تاکہ فون مسلسل انگیج ملے۔ میں نے تھانے کا مین گیٹ بند کروا کر سختی سے حکم دیا کہ دروازہ کسی صورت نہ کھولا جائے۔
اس کے بعد میں نے لطیف عرف طیفا جٹ کو کمرے میں بلوایا اور اسے کہا، ’طیفے! مجھے شک نہیں یقین ہے کہ قتل تمہی نے کیا ہے کیونکہ میرے پاس گواہ بھی موجود ہیں اور ثبوت بھی۔ تمہارے پاس وقت بہت کم ہے، سچ بولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘
میں نے اسے یہ بھی باور کروا دیا کہ اس وقت تھانے کا فون خراب ہے، اس لیے اس کی مدد کے لیے کہیں سے کوئی کال نہیں آ سکتی۔‘
یہ کہہ کر میں نے اسے دھمکی بھی دی، ’تم خود ساری کہانی اگلو گے یا تمہارے ساتھ کوئی دوسرا رویہ اختیار کیا جائے؟‘
میں نے ساتھ ہی ایک اے ایس آئی کو بلایا اور اسے کہا، ’اس کی آنکھوں پر پٹی باندھو، اس کو کہیں بھیجنا ہے۔ یہ ایسے نہیں مانے گا۔‘
میرے اچانک سخت رویے سے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور سب کچھ بتانے پر تیار ہو گیا، لیکن اس نے درخواست کی کہ وہ سب کچھ مجھے اکیلے میں بتائے گا۔
میں نے اپنے گن مین کے علاوہ سب کو اشارہ کیا کہ وہ کمرے سے چلے جائیں۔ طیفے جٹ کو میں نے اپنے سامنے والی کرسی پر بٹھایا اور اس سے واردات اور محرکات کی تفصیلات سن کر قلمبند کرنے لگا۔
لطیف جٹ نے بتایا کہ ’ہم چھ بہن بھائی ہیں، چھوٹا بھائی ذہنی معذور ہے، جبکہ میری چار بہنیں ہیں۔ گاؤں میں ہماری بہت عزت ہے اور زمینداری بھی بہت اچھی ہے۔
’مجھے کشتی اور کبڈی کا شوق ہے۔ میں خود تو کبھی میچ نہیں کھیل پایا مگر اپنے شوق کی تکمیل کے لیے گذشتہ دو سال سے رفاقت کی کفالت کر رہا تھا۔ میں نے رفاقت کے لیے روزانہ قیمہ، انڈے اور دودھ لگوایا ہوا تھا اور رفاقت کے لیے تن سازی کا سامان بھی لاہور سے منگوا کر رکھا ہوا تھا۔ رفاقت کو میں اپنے کھلاڑی کے طور پر اکھاڑوں میں اتارتا اور رفاقت نے بھی مجھے کبھی مایوس نہیں کیا تھا وہ دل لگا کر محنت کرتا اور اکثر جیت جاتا۔
’گذشتہ ہفتے اس نے شاہ جیونا کے میلے میں پہلا انعام حاصل کیا تو میں نے اسے خوش ہو کر ٹیپ ریکارڈر اور ڈیک لے کر دیا۔ لیکن رفاقت نے مجھے کہا کہ اسے ڈیک نہیں کچھ اور چاہیئے جسے وہ الگ سے بتائے گا۔
’میں نے اسے اصرار کیا کہ وہ مجھے بتائے کہ اسے کیا چاہیے۔ رفاقت نے میرے قریب آ کر کہا کہ ہم گہرے دوست ہیں اور بھائی بھی۔ مجھے شادی کرنی ہے، سو میں چاہتا ہوں کہ یہ دوستی رشتہ داری میں بدل جائے۔
’میں اس کی بات سن کر غصے سے لال پیلا ہو گیا میں نے اسے دھکا دیا اور کہا کہ وہ فوراً دفع ہو جائے۔ رفاقت واپس ملک دلاور کے احاطے میں چلا گیا، لیکن میرا خون مسلسل جوش کھا رہا تھا کہ ایک دو ٹکے کے مصلی نے میرے ساتھ رشتہ گانٹھنے کی جرات کیسے کی۔
’گذشتہ شام میں نے رفاقت کو باہر کام کرتے دیکھا تو پھر اس کے پاس گیا کہ شاید اس نے مذاق میں ایسا کہا ہو۔ مگر رفاقت نے پھر وہی بات دہرائی کہ وہ یہ سب انتہائی سنجیدگی سے کہہ رہا ہے۔ بس اس وقت میں نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
’رات کو تین بجے میں اپنے والد کا پستول لے کر ملک دلاور کے احاطے میں رفاقت کے کمرے میں پہنچا اور پھر میں نے اس کا لحاف کھینچ کر کہا، ’تیار ہو جا، میں آ گیا ہوں!‘ ساتھ ہی میں نے گولی اس کی کھوپڑی میں اتار دی۔ دوسرے لڑکے کو صرف اس لیے مارا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔‘
اس نے بتایا کہ پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے راستہ بھی تبدیل کیا اور پھر شاہ صاحبان کے ڈیرے پر چلا گیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔
لطیف عرف طیفی جٹ بولتا رہا اور میں اسے من و عن رقم کرتا رہا۔ مجھے اس سفاک شخص کی بیمار ذہنیت پر گھن آ رہی تھی۔
اس نے بتایا کہ آلۂ قتل یعنی پستول اس نے گھر کے اندر گندم رکھنے والی پیٹی میں چھپایا ہے۔
ہم نے ملزم کی نشاندہی پر آلۂ قتل پسٹل 30 بور بذریعہ فرد قبضہ میں لیا اور اسے فورینزک تجزہے کے لیے خالی گولیوں کے خول کے ساتھ بھجوا دیا۔
سروس کے چیتا جوگر جو ملزم نے واردات کے وقت پہنے ہوئے تھے، انہیں بھی بطور ثبوت قبضے میں لے لیا۔
اس کے بعد ملزم لطیف عرف طیفا جٹ کو تمام شہادتوں کے ساتھ چالان کیا۔ عدالت نے ملزم کو دو بار سزائے موت سنائی۔ وہ سفاک شخص اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔
(بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو)