جرمن نسل پرستی، جو ہٹلر تک آ پہنچی

ڈاکٹر مبارک علی

جرمنی تقریباً تین سو کے قریب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا، اس لیے اس کی طاقت اور توانائی بکھری ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں دوسرے یورپین ممالک سوائے اٹلی کے متحد بھی تھے اور سیاسی طور پر طاقتور بھی۔

اس لیے جرمنی کے دانشوروں میں یہ جذبہ ابھر رہا تھا کہ جب تک ان کا ملک متحد نہیں ہوگا، دوسری قوموں سے مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس لیے دانشوروں کی ایک کوشش تو یہ تھی کہ جرمن زبان کے ذریعے قومیت کے جذبے کو برقرار رکھا جائے۔ اس کے علاوہ معیشت دانوں کا نظریہ یہ تھا کہ جرمن ریاستوں کے درمیان جو چونگی کے ناکے ہیں، انہیں ختم کر کے پورے ملک میں تجارت کی سہولتیں مہیا ہونی چاہییں

1806 میں نپولین نے پرشیا کو شکست دی اور ساتھ ہی جرمن ریاستوں کی تعداد گھٹا کر 30 کر دی۔ اس شکست نے جرمن قوم میں قومیت کو ابھارا اور پرشیا کی ریاست میں سیاسی اور سماجی اصلاحات کیں۔ 1812 میں برلن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں ہیگل (وفات: 1831) کو فلسفے کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ اس نے اپنے فلسفیانہ نظریات کے ذریعے پرشیا کی حکومت کی حمایت کی۔

جب آٹو فان بسمارک (وفات: 1898) پرشیا کا چانسلر بنا تو سیاسی، سماجی اور معاشی اصلاحات کے ذریعے ریاست کو مضبوط کیا۔ جرمنی کو متحد کرنے کے لیے اس نے تین جنگیں لڑیں۔ 1871 میں اس نے فرانس کو شکست دی اور ورسائی کے محل میں جرمنی کے اتحاد کا اعلان کیا۔

جرمنی کو ایک طاقتور اور برتر قوم بنانے کے لیے اس کے فلسفیوں اور مورّخوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے قوم کی ذہن سازی کی۔ ان کی اوّلین بات یہ تھی کہ جرمن ریاست کو افراد پر برتری ہونی چاہیے، فرد کو اپنی شخصیت کو ریاست کے ادارے میں ضم کر دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ فرد اسی وقت اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے جب وہ ریاست کا ایک حصہ ہو۔

جرمن فلسفیوں کے نزدیک ریاست الٰہیاتی ہے، اس لیے اس مقدس ادارے کے لیے افراد کو ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے جرمن قوم کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ اسے ایک طاقتور قوم بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مسلسل جنگ میں مصروف رہے کیونکہ جنگ نہ صرف قومیت کے جذبے کو ابھارتی ہے بلکہ یہ اسے مضبوط رکھتی ہے اور کاہلی سے دور کرتی ہے۔ جنگ انسان کی شخصیت کو ڈر اور خوف سے نکال کر اس میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔

لیوپولڈ فان رینکے (وفات: 1886) برلن یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر رہا تھا اور وہ بھی جرمن ریاست کی اہمیت کا قائل تھا اور تاریخ نویسی کے لیے ضروری خیال کرتا تھا کہ اس کی بنیاد ریاستی دستاویزات پر ہونی چاہیے۔

جرمن فلسفیوں اور دانشوروں کے نزدیک قوم کی رہنمائی کے لیے ایک طاقتور شخصیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کی مثال ان کے نزدیک بسمارک کی ہے، جو پہلا یورپی لیڈر تھا جس نے بالغ رائے دہی کو جرمن میں روشناس کروایا اور ورکنگ کلاس کے لیے اصلاحات کیں، بلکہ قدامت پرستی کے تحت اس کی بنیادوں کو مضبوط بھی کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے وہ سوشل ازم کو روک سکے گا۔

جرمن فلسفیوں اور مورخوں نے جرمن قوم کی برتری کا نظریہ بھی پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جرمن قوم کسی دوسری نسل سے کوئی ملاپ نہ رکھے، کیونکہ اس ملاپ کے نتیجے میں اس کی خالصیت ختم ہو جائے گی اور اس میں جو صلاحیتیں ہیں، وہ کمزور ہو جائیں گی۔

لہٰذا خاص طور سے یہودیوں کے خلاف تعصب پیدا ہوا کیونکہ ان کے نزدیک یہ سامی نسل سے تھے اور ان کا مذہبی عقیدہ بھی مسیحیت سے ٹکراتا تھا۔ اس لیے یہودیوں کے خلاف ابتدا میں یہ جذبات پوشیدہ تھے، مگر وقت کے ساتھ یہ پوری طرح سے ابھر کر سامنے آئے۔

اس تناظر میں جرمنی میں نازی پارٹی کا ابھرنا اور ہٹلر کا اقتدار میں آنا سمجھ آتا ہے۔ جرمن قوم نے ہٹلر کو بھی اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا، کیونکہ اس نے نہ صرف جرمنی کے ان علاقوں کو واپس لے لیا تھا جنہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد فرانس کو دے دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ اس نے جرمنی کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کیا اور پھر نازی پارٹی کو منظم کر کے ان میں جنگی جذبات کو پیدا کیا۔ نوجوان جب منظم ہو کر اور وردی میں ملبوس ہو کر مارچ کرتے تھے تو ان میں فخر کے جذبات ابھرتے تھے۔

نازی پارٹی کی حکومت میں ریاست کے ادارے کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ جرمن قوم کی پاکیزگی اور نسلی برتری کو قائم رکھنے کے لیے یہودیوں سے ملاپ پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔

ہٹلر نے بھی جرمن فلسفیوں اور تاریخ دانوں کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے جرمنی کو فوجی لحاظ سے مضبوط کیا اور پھر جنگ کے ذریعے جرمنی کی سرحدوں کو وسعت دینے کا منصوبہ بنایا۔

جرمنی نے دوسری جنگ عظیم اس لیے شروع کی تھی کہ جرمنی کو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بنایا جائے لیکن اس کا یہ منصوبہ ناکام رہا اور دوسری جنگ عظیم نے جرمنی کو تباہ و برباد کر کے ایک بار پھر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

تاریخ سے سبق یہ ملتا ہے کہ قوموں کو اپنے انتہا پسند دانشوروں کے نظریات کو اپنا کر اپنی بربادی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ یہ انتہا پسند نظریات قوموں کو مدہوش کر دیتے ہیں اور وہ حالات کا جائزہ دلیل کے بجائے جذبات سے لے کر تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close