نئی دلی : انتہا پسند ہندو رہنما سنت پرم ہنس نے بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے 2 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دے دی ہے
تفصیلات کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے حوالے سے انتہا پسند ہندوتوا پالیسی کا مضبوط ہوتا تاثر مزید ابھرنے لگا ہے. انتہا پسند ہندو رہنما سنت پرم ہنس اچاریہ نے بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے اور اپنی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست کا اعلان نہ کرنے کی صورت میں 2 اکتوبر کو جل سمادھی ہوگی
انتہا پسند رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ دو اکتوبر تک بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی بھارتی شہریت بھی چھین لی جائے
دوسری جانب اسرائیلی اخبار نے ہندو انتہا پسندی کو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے
اسرائیلی اخبار ہارٹز میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایک طرف تو بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اسلامی انتہا پسندی کے خطرے کے بارے میں دنیا بھر کے سربراہوں سے گفتگو کر رہے ہیں، لیکن بھارت کو لاحق حقیقی خطرہ انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے ہے، جن کی بدتمیزیوں اور اسلام مخالف تعصب سے خود مودی کی اہنی جماعت بھی محفوظ نہیں ہے
رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے 9 رکنی اجلاس سے خطاب میں نریندرا مودی نے افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے اور اسلامی انتہا پسندی بڑھنے کے خطرے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ورچوئلی کی گئی اس تقریر میں انہوں نے چین، روس اور وسط ایشائی اور دیگررکن ممالک سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے پر زور دیا
اپنی تقریر میں بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی تاریخی طور پر وسط ایشیائی مملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہی ہے، لیکن اس بارے میں بین الاقوامی سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ازرُوئے تاریخ بھارتی مسلمان دنیا بھر میں ہونے والی جہادی تحریکوں سے دور رہے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں نے نہ ہی اسی کے عشرے میں ہونے والی سوویت جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا اور نہ طالبان کی امارات میں ان کا کوئی کردار رہا ہے
سوا ارب سے زائد کی آبادی رکھنے والے ملک سے داعش میں شامل ہونے والے بھارتیوں کی تعداد بہ مشکل سو کے قریب ہے اور خلافت کے چالیس ہزار غیر ملکی جنگوؤں میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے
مودی کے بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت میں حقیقت مودی کے بیان کے برعکس ہے۔ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے نریندرا مودی مسلمانوں کو اپنی انتخابی مہم میں مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت میں اکثریت (ہندو) کی دہشت گردی اور انتہا پسندی اقلیتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے
مودی کی جماعت کی جانب سے گائیں کے ذبح اور بین المذاہب محبت کو ’ لو جہاد‘ کا نام دے کر بنائے گئے نئے قوانین کے بعد انتہاپسند ہندو بلوائیوں کی جانب سے مسلماںوں کو جان سے مارنا معمول بن چکا ہے۔ ہندوؤں کے جھتے کے جھتے بلا خوف و خطر مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شہری انتظامیہ خاموش تماشائی بن کر یہ سب دیکھتی رہتی ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2019ع میں مودی کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت کو ایک سیکیولر ریاست سے ہندو ریاست بنانے کی کوششوں دو گنا بڑھ چکی ہیں۔ ہندو انتہا پسند روزانہ مسلمانوں کو تبدیل ہوتے بھارت اور نئے سماجی رتبوں کی یاد دہانی کراتے ہوئے مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دینے میں جتے ہوئے ہیں
مودی اور اس کے حلیفوں کی مسلمان دشمنی کا یہ حال ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی برازیل جتنی آبادی رکھنے والی بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے بیان نے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے، جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ حکومتی سبسڈی پر فراہم کیا جانے والا سارا راشن مسلمان سمیٹ کر لے جاتے ہیں
ایسے میں انتہا پسند ہندو رہنما سنت پرم ہنس کی طرف سے دو اکتوبر تک بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی بھارتی شہریت بھی چھین لیے جانے کی دھمکی نے بھارت کے سیکیولر ملک ہونے کے تاثر کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی ہے.