جنگل کی دُنیا

ڈاکٹر مبارک علی

جنگلات کے انسانی ذہن پر گہرے اثرات تھے۔ جیسا کہ جرمنوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بلیک فورسٹ کی خاموشی اور درختوں کے سائیوں کی گہرائی نے ان میں فلسفیانہ خیالات کو پیدا کیا

جنگل کی اس دنیا میں جانور بھی تھے، پرندے بھی اور کچھ قبائل بھی۔ یہ ایک آزاد دنیا تھی، جس میں ریاست تھی نہ قانون اور نہ ہی کوئی اخلاقی کرنیں۔ جب طاقتور کمزور کو مارتے تھے یا کھا جاتے تھے تو ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا، نہ انصاف تھا اور نہ رحم دلی، لیکن گھنے درختوں کی طویل قطاریں اور ان میں چمکتی سورج کی خاموشی کو توڑتی ہوئی پرندوں کی چہچہاہٹ ماحول کو سحر زدہ کر دیتی تھی

کہیں کہیں پانی کی آبشاریں، پانی کے بہتے ہوئے چشمے اردگرد کی دنیا کو دلکش بنا دیتے تھے۔ پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور پھولوں سے بھری ہوئی جھاڑیاں، بھینی بھینی خوشبو بکھیرتی تھیں۔ جو قبائل ادھر ادھر بکھرے ہوئے آباد تھے وہ جنگل کا ایک حصہ بن گئے تھے۔ جنگل کے بیچ میں جو چھوٹے پہاڑ اور پہاڑیاں تھیں وہ سبزے میں لپٹی ہوئی جاذب نظر بن جاتی تھیں۔ جنگل کی خاموشی اور تنہائی غور و فکر میں گہرائی کا باعث ہوتی تھیں

اس کے برعکس آباد دنیا تھی، جہاں شوروغل تھا۔ جنگیں اور خونریزی تھی، نفرت اور محبت کے ملے جلے جذبات تھے۔ انسانوں کے درمیان سماجی فرق تھا طاقتور کو کمزور پر فوقیت تھی، ریاستی اداروں اور قانون نے آزادی کو ختم کر کے اپنے تسلط کو قائم کر لیا تھا۔ اس ماحول میں جنگل کی دنیا نے کوشش کی کہ وہ دنیا کی بدعنوانیوں، ناانصافی اور گناہوں کو دور کرے اور جو افراد اس میں پناہ لیں ان کے کردار کو پاک و صاف کرے

اس کی ایک مثال مہا بھارت کی جنگ ہے، جب پانڈوں ایک جوئے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھے تو کورو قبیلے نے انہیں تیرہ سال جنگل میں رہنے کی سزا دی۔ یہ عرصہ انہوں نے جنگلات کی پراسرار زندگی میں گزارا۔ جنگل نے انہیں شکار بھی فراہم کیا، کھانے کے لیے پھل اور رہنے کے لیے درختوں سے ڈھکی جھونپڑیاں۔ جب وہ فطرت کے اس ماحول کے عادی ہوئے اور تیرہ سال کا عرصہ جنگلوں کی پیمائش میں گزارا تو اس نے انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر پختگی دی

جنگل کے آزاد ماحول نے انہیں یہ حوصلہ دیا کہ اپنے حق کے لیے واپس جائیں اور انکار کی صورت میں جنگ کریں۔ مہا بھارت کی جنگ اس وجہ سے ہوئی کہ کورو قبیلے نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب جنگ میں پانڈوں کو فتح ہوئی تو اس کے نتیجے میں (Yadishtar) بادشاہ ہوا۔ "Upinder Singh” نے اپنی کتاب "Political Violence in Ancient India” (یعنی قدیم بھارت میں سیاسی تشدد) میں یہ وضاحت کی ہے کہ جنگ کے ذریعہ بادشاہت حاصل کرنے کا یہ ایک اہم واقعہ تھا کہ اپنے حق کے لیے جنگ کرنا اور قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ مصنفہ نے دوسری مثال رام کی دی ہے جو بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے تخت کا وارث تھا، مگر راجہ نے اپنی ملکہ کے اصرار پر اس کی جگہ اس کے سوتیلے بھائی بھرت کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ اس پر رام، اس کی بیوی سیتا اور اس کے بھائی لکشمن نے بارہ سال جنگلات میں گزارے۔ یہ رام کی زندگی کا خوشی اور مسرت کا زمانہ تھا جس میں وہ جنگل کی خوبصورتی سے اس قدر متاثر ہو جاتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ وہ اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ ساری زندگی یہی گزار دے، لیکن اس وقت وہ اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جب راون اس کی بیوی کو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ اس موقع پر جنگل میں رہنے والے لنگور ہنومان نے اس کا ساتھ دیا اور سیتا کو قید سے چھڑایا

بَن باس کا زمانہ گزار کر جب رام ایودھیا آیا تو اس کی غیر حاضری کے دوران اس کے بھائی بھرت نے تخت پر اس کی چپلیں رکھ دی تھیں جو علامتی طور پر رام کی بادشاہت کا اعلان تھا۔ اس داستان سے یہ نتیجہ نکلا کہ بڑا لڑکا تخت کا وارث ہوتا ہے۔ تیسری مثال بادشاہت کی چندر گیت موریا کی ہے، جس نے طاقت اور سازش کے ذریعے نند خاندان کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ اس کے مشیر کوٹلیا یا چانکیا نے اپنی کتاب (Earth Shaster) میں بادشاہ کے فرائض کو بیان کیا ہے۔ چندر گپت موریا نے جین مذہب اختیار کر لیا تھا اور اپنی عمر کے آخر میں وہ جنگل میں چلا گیا اور فاقہ کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا

قدیم بھارت کا جنگل سادھوں اور سنیاسیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ یہاں یہ لوگ آبادی سے دور اپنی زندگی عبادت و ریاضت میں گزارتے تھے۔ یہ پہاڑوں کے غاروں میں رہتے تھے یا درختوں کے جھنڈ کے نیچے ان کی کٹائیں تھیں۔ جب چھٹی صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی ابتداء ہوئی تو اس کے بانی سدھارتا نے اپنے محل کے عیش و آرام کو چھوڑا اور سچائی کی تلاش میں جنگلوں میں سادھوؤں، رشیوں اور سنیاسیوں سے تعلیمات حاصل کیں مگر آخر میں جب وہ فاقہ کشی کر رہا تھا تو ”گیا‘‘ میں ایک درخت کے نیچے اسے گیان حاصل ہوا اور وہ سدھارتا سے گوتم بدھ بن گیا

بدھ مت کی تعلیمات پورے بھارت میں پھیل گئیں۔ اس کے ماننے والے مرد و بھکشو کہلائے اور عورتیں بھکشنیں۔ یہ عبادت و ریاضت کے لیے جنگلوں اور پہاڑوں میں چلے گئے جہاں یہ غاروں میں رہتے تھے اور دن رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ان کی عبادت کے لیے حکمرانوں اور امراء نے پہاڑوں کو کھود کر خانقاہیں تعمیر کرائی تھیں۔ ایلور اور ایجنٹا کے غاروں میں بھی بدھ مت کے ماننے والے رہتے تھے۔ انہوں نے وہاں جو پینٹنگز بنائی ہیں وہ آرٹ کا اعلیٰ نمونہ ہیں

ہندومت اور دوسرے فرقوں کے ماننے والوں میں یہ رواج تھا کہ جب ان کی عملی زندگی ختم ہو جاتی تھی تو وہ جنگل کا رُخ کرتے تھے اور کسی ایک جگہ بیٹھ کر فاقہ کر کے غور و فکر کرتے خود کو موت کے حوالے کر دیتے تھے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنگل میں کس طرح اس کے ماحول نے لوگوں کی ذہنی فکر میں اضافہ کیا

لیکن جنگل کا یہ تسلط وقت کے ساتھ ٹوٹتا رہا۔ جب آبادی زیادہ بڑھی اور زرعی زمینوں کی ضرورت پڑی تو درختوں کو کاٹ کر کاشت کاری کے لیے زمین ہموار کی گئی۔ درختوں کی لکڑی کو عمارتی تعمیرات میں استعمال کیا گیا اور بطور ایندھن بھی اس کو جلایا گیا۔ بادشاہوں اور امراء نے شکار کو اپنا مشغلہ بنا کر دل کھول کر جانوروں اور پرندوں کا شکار کیا۔ جنگلی ہاتھیوں کو پکڑ کر انہیں سدھایا اور پھر انہیں اپنی شاہانہ سواری بنائی اور جنگوں میں انہیں اگلی صفوں میں کھڑا کر کے انہیں دُشمنوں سے لڑایا۔ شیروں اور چیتوں کو مار کر، ان کے سر کاٹ کر بطور نمائش کے لیے دیواروں پر نصب کیا گیا اور ان کی کھالوں کو بطور قالین استعمال کیا گیا۔ جنگل میں رہتے قبائل کی زندگی تنگ کر دی گئی اور انہیں جنگل کی پیداوار سے محروم کر دیا گیا۔ جنگل اگرچہ تباہ تو ہوئے مگر ان کی تباہی نے آب و ہوا کو بدل ڈالا اور انسان فطرت کی دلکشی سے محروم ہو کر ٹیکنالوجی کا قیدی ہو گیا۔ جو ہر قسم کے احساسات و جذبات سے عاری ہے

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close