نئی دہلی : مہینوں کی قیاس آرائیوں کے بعد دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم رہنما اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن کنہیا کمار نے گذشتہ روز کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی
ماضی میں ایک طالب علم رہنما کی حیثیت سے وہ کانگریس اور حکمران جماعت بی جے پی دونوں کے خلاف آواز اٹھایا کرتے تھے. وہ انڈیا کے سیاسی منظر نامے پر اس وقت نمایاں ہوئے، جب 2016 میں بی جے پی انتظامیہ نے انہیں ’بھارت مخالف‘ نعرے لگانے پر گرفتار کر لیا تھا
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کنہیا کمار کا کہنا تھا کہ وہ ملک بچانے کے لیے کانگریس پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم انڈیا کی سب سے زیادہ جمہوری پارٹی میں اس لیے شامل ہو رہے ہیں کہ اگر کانگریس نہیں بچی تو یہ ملک نہیں بچے گا. صرف کانگریس ہی مہاتما گاندھی اور بھیم راؤ امبیدکر کے خوابوں کو بچا سکتی ہے
یاد رہے کنہیا کمار 2016 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے طلبہ ونگ اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا کی نمائندگی کرتے تھے
یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سی پی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور 2019ع میں پارلیمانی انتخابات لڑے تھے، لیکن بی جے پی کے امیدوار سے بڑے فرق سے ہار گئے تھے
وہ سیاسی منظر نامے پر اس وقت نمایاں ہوئے جب ان پر اور عمر خالد جیسے جے این یو کے طالب علم رہنماؤں پر یونیورسٹی میں آزادی کے نعرے لگانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ فروری 2016 میں انہیں ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت میں ان پر پر کئی مرتبہ حملہ کیا گیا، جس میں وکلا بھی شامل تھے۔ بالآخر انہیں مارچ میں ضمانت مل گئی اور ان کی رہائی کے بعد ملک میں ان کے بارے میں مزید تجسس پیدا ہوا
اپنی رہائی کی شام یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کنہیا کمار نے کہا کہ ’انڈیا سے آزادی نہیں، انڈیا میں آزادی چاہیے۔‘ وہ اپنی تقریر میں واضح طور پر بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف مؤقف اختیار کرنے سے خوفزدہ نہیں تھے جبکہ ان دنوں دائیں بازو کی پارٹی اپنے عروج پر تھی
ان کی تقریر وسیع پیمانے پر روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور انھیں فوری طور پر قومی سطح پر مشہور کر دیا اور وہ ان سبھی لوگوں کے علامتی ترجمان بن گئے جو بی جے پی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے مخالف تھے
اس کے بعد انہیں جلد ہی نیوز چینلز اور ادبی تقریبات میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے انڈیا کی مشرقی ریاست بہار میں غربت میں اپنی زندگی سے لے کر جے این یو پہنچنے تک اور اس کے صدر بننے تک کے اپنے سفر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے
کنہیا کی کانگریس پارٹی میں شمولیت کو اس لیے بھی اہمیت دی جا رہی ہے کہ گذشتہ مہینوں میں پارٹی کی کئی نوجوان لیڈروں نے قیادت کے خلاف بغاوت کی ہے یا دوسری جماعتیں مثلاً بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں. کنہیا شروع سے ہی کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کی پالیسیوں کے زیادہ مخالف رہے ہیں جو ان کے مطابق فرقہ وارانہ ہیں
فلمساز نکول سنگھ ساہنی، جو ماضی میں طلبہ سیاست میں شامل رہے ہیں اور کنہیا کی انتخابی ریلیوں کو کور بھی کرتے رہے ہیں ، کا خیال ہے کہ کنہیا کی کانگریس میں شمولیت مختصر مدت میں دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگ
وہ کہتے ہیں کہ کنہیا میں کانگریس کو ایک قابل مقرر ملا ہے. کانگریس کے پاس بی جے پی پر حملے کرنے کے لیے مقررین کی کمی ہے اور کنہیا ایک عظیم مقرر ہے ۔ وہ الفاظ کو ذہانت کے ساتھ استعمال کرنا جانتا ہے اور حقائق اور اعداد و شمار پر مبنی باتیں کرتا ہے
کنہیا نوجوانوں میں خاص طور پر سوشل میڈیا پر مقبول ہیں۔ ان کی تقریر سادہ ہوتی ہے اور وہ ایسے محاورے استعمال کرتے ہیں جس سے انڈیا کی ایک بڑی اکثریت وابستہ ہے، لیکن جسے کانگریس پارٹی کے سینئر ارکان بھی استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں
ساہنی کہتے ہیں ‘میں نے دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کنہیا کے تقریروں نے نوجوانوں کو، خاص طور پر جو کہ بی جے پی مخالف ہیں، مؤثر جوابات فراہم کیے ہیں۔’
ان کا کہنا ہے کہ کنہیا وہ زبان بول رہے ہیں جو عام طور پر بائیں بازو کی عام طور پر بورنگ زبان کے برعکس ہے۔ یہ کانگریس کی بھی زبان نہیں ہے
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کنہیا کے بیانات سے بہت سے نوجوانوں کو امید ملی تھی کہ سیاسی منظر پر کچھ نیا سامنے آئے گا۔ ‘لیکن ان کے کانگریس میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ سیاست میں نئی خیالات لانے والوں پر آسانی سے یقین نہیں کریں گے۔ ان کے اس قدم سے کم از کم فی الحال تو کسی نئے متبادل ابھرنے کے امکان کو دھندلا دیا ہے.