ٹی وی اسکرین پر برصغیر کے لیجنڈ کامیڈین عمر شریف کے انتقال کی خبریں چل رہی ہیں لیکن میرے ذہن کے پردے پر لگ بھگ چالیس سال پہلے شروع ہونے والی یادوں کی ایک فلم چل رہی ہے۔
بات برسوں پرانی، میرے اپنے لڑکپن کی ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے چند روز پہلے کا واقعہ ہو۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر ’’ففٹی ففٹی‘‘ اور ریڈیو پاکستان پر ’’مسٹر جیدی‘‘ جیسے پروگراموں کا راج تھا۔
اسٹیج اور اسٹینڈ اپ کامیڈی میں سلیم چھبیلا مرحوم کا نام عروج پر تھا جبکہ ٹی وی اسکرین پر سلیم ناصر، معین اختر اور جمشید انصاری جیسے ورسٹائل اداکار چھائے ہوئے تھے جو صرف کامیڈین ہی نہیں تھے بلکہ کسی بھی طرح کا کردار نباہنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔
یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اسٹیج کامیڈی میں ’’عمر شریف‘‘ کا نام ابھرنا شروع ہوا۔
یہ غالباً 1982 کا سال تھا کہ جب عمر شریف کے لطیفوں والی پہلی کیسٹ مارکیٹ میں آئی۔
عمر شریف کی ’’سڑک چھاپ‘‘ کامیڈی کو پاکستان میں ’’فنونِ لطیفہ کی اشرافیہ‘‘ نے شدید ناپسند کیا، کیونکہ اپنی کامیڈی میں عمر شریف نے بہت سے ایسے الفاظ بکثرت استعمال کیے تھے جو اُن دنوں ’’معیوب‘‘ اور ’’بازاری‘‘ سمجھے جاتے تھے، کیونکہ غریب غرباء کے محلّوں میں بولی جانے والی زبان یہی تھی۔
اسی غریب اور متوسط طبقے نے عمر شریف کی آڈیو کیسٹوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری کیسٹ مشہور ہوئی… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عمر شریف کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔
اسی دوران معین اختر مرحوم نے عمر شریف کا ٹیلنٹ پہچانا اور انہیں پاکستان ٹیلی ویژن کے چند ڈراموں میں چھوٹے موٹے کردار بھی دلوائے۔ عمر شریف اس حوصلہ افزائی کےلیے ساری زندگی معین اختر مرحوم احسان مند رہے اور جب بھی موقع ملتا، اس بات کا تذکرہ ضرور کرتے۔
لیکن اسٹیج کے مقابلے میں عمر شریف کو ٹیلی ویژن کا کام کچھ خاص نہیں بھایا، کیونکہ انہیں حاضرین کے سامنے کھڑے ہو کر کامیڈی کرنے میں زیادہ مزا آتا تھا۔
اسٹیج پر اسکرپٹ کے مطابق مکالمے پڑھنے کے ساتھ ساتھ، عمر شریف حاضرین کے ردِعمل پر بھی نظر رکھتے تھے اور جونہی محسوس کرتے کہ حاضرین کو مزا نہیں آرہا، تو وہ فوراً ہی اپنی طرف سے کچھ ایسے مزاحیہ مکالمے بولنا شروع کردیتے جو اصل اسکرپٹ کا حصہ نہیں ہوتے تھے، مگر پھر بھی انہیں سن کر حاضرین قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے عمر شریف کے اسٹیج ڈراموں کی ویڈیو ریکارڈنگز بھی مقبولیت کا آسمان چھونے لگیں۔ یہی نہیں بلکہ عمر شریف کی کامیڈی کیسٹیں ہندوستان میں بھی مقبول ہونے لگیں۔
پھر قادر خان نے عمر شریف کی ان ہی کیسٹوں سے متاثر ہو کر بالی ووڈ فلموں میں ڈائیلاگ لکھے اور بولے؛ جبکہ گووندا، اکشے کمار اور پاریش راول تک نے عمر شریف کے مکالمات اور انداز کو فلموں میں ہوبہو نقل کیا
اسی بناء پر عمر شریف مرحوم کو ’’ایشین کامیڈی کنگ‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا؛ وہ اس خطاب کے مکمل طور پر حقدار تھے۔
1955 کے ’’لالو کھیت‘‘ میں پیدا ہونے والے عمر شریف نے اپنے آبائی علاقے سے محبت کا حق یوں ادا کیا کہ ان کے تقریباً ہر اسٹیج ڈرامے اور اسٹینڈ اپ کامیڈی میں ’’لالو کھیت‘‘ یعنی ’’لیاقت آباد‘‘ کا تذکرہ ضرور ہوتا… اور اس طرح عمر شریف نے صرف لیاقت آباد ہی نہیں بلکہ کراچی اور پاکستان کو بھی ایک منفرد عالمی شناخت دی
عمر شریف نے پاکستان میں اسٹیج ڈراموں اور اسٹینڈ اپ کامیڈی میں ایک نئی روح پھونک دی۔
بکرا قسطوں پہ (پارٹ 1 سے پارٹ 5 تک)، بڈھا گھر پہ ہے، یس سر عید نو سر عید، صمد بونڈ 007، عمر شریف حاضر ہو، آؤ سچ بولیں، فلائٹ 420، شادی مگر آدھی، عیدی چھپا کے رکھنا، اور ایسے درجنوں اسٹیج ڈراموں کےلیے عمر شریف مرحوم نے اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایت کاری کی اور اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
عمر شریف مرحوم نے چند فلمیں بھی بنائیں جن میں مسٹر چارلی، مسٹر 420، خاندان اور لاٹ صاحب وغیرہ شامل ہیں۔
میں تو صرف یہی کہوں گا کہ برصغیر میں کامیڈی کے افق کا آخری روشن ترین ستارہ بھی غروب ہوگیا۔
اللہ تعالی عمر بھائی کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے (آمین)۔
انا ﷲ و انا اليه راجعون