اگر آپ پاناما پیپرز کو نہیں بھولے تو آپ کے لیے پینڈرا پیپرز کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا. پنڈورا پیپرز تقریباً بارہ ملین دستاویزات کا ایک لیک ہے، جو چُھپی ہوئی دولت، ٹیکس سے بچنے اور بعض صورتوں میں دنیا کے کچھ امیر اور طاقتوروں کی جانب سے منی لانڈرنگ کو ظاہر کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ دنیا کی اہم اور با اثر شخصیات کے مالی معاملات میں بدعنوانیوں کو افشا کرتا ہے
دنیا بھر کے ایک سو سترہ ممالک میں چھ سو سے زائد صحافی مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی فائلوں کی جانچ کی، جن کی خبریں پینڈورا پیپرز کے عنوان سے شائع کی جا رہی ہیں
یہ ڈیٹا واشنگٹن ڈی سی میں بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے حاصل کیا ہے، جو اب تک کی سب سے بڑی عالمی تحقیقات میں ایک سو چالیس سے زائد میڈیا اداروں کے ساتھ مل کام کر رہی ہے
پاکستان میں جنگ/جیو گروپ سے وابستہ صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی نے اس میں حصہ لیا ہے
▪️پیپرز میں کیا بے نقاب کیا گیا؟
پنڈورا پیپرز لیک میں 64 لاکھ دستاویزات، تقریبا 30 لاکھ تصویریں ، 10 لاکھ سے زیادہ ای میلز اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سپریڈ شیٹ شامل ہیں
فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے کچھ طاقتور ترین لوگ جن میں 90 ممالک کے 330 سے زیادہ سیاستدان بھی شامل ہیں، اپنی دولت چھپانے کے لیے خفیہ آف شور کمپنیوں کا استعمال کرتے ہیں
▪️’آف شور’ سے ہماری کیا مراد ہے؟
پنڈورا پیپرز کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ، یہ کمپنیوں کے ایک ایسے پیچیدہ نیٹورک کو ظاہر کرتے ہیں، جو سرحدوں کے پار قائم ہیں، اکثر پیسے اور اثاثوں کی پوشیدہ ملکیت ہوتی ہے
مثال کے طور پر کسی کے پاس برطانیہ میں جائیداد ہو سکتی ہے، لیکن وہ دوسرے ملکوں میں قائم کمپنیوں کی زنجیر یا "آف شور” کے ذریعے اس کا مالک بن سکتا ہے
یہ غیر ملکی ممالک یا علاقے وہاں ہوتے ہیں، جہاں کمپنیاں قائم کرنا آسان ہے اور ایسے قوانین ہیں جن کی وجہ سے کمپنیوں کے مالکان کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے. وہاں کم یا کوئی کارپوریشن ٹیکس نہیں ہے۔
ان جگہوں کو اکثر ٹیکس ہیون یا خفیہ دائرہ اختیار کہا جاتا ہے۔ ایسے ٹیکس ٹھکانوں کی کوئی حتمی فہرست نہیں ہے لیکن سب سے زیادہ مشہور مقامات میں برٹش اوورسیز ٹیرٹریز جیسے جزائر کیمین اور برٹش ورجن آئی لینڈ کے علاوہ سوئٹزرلینڈ اور سنگاپور جیسے ممالک شامل ہیں
▪️کیا ہر آف شور کمپنی غیرقانونی ہے؟
اس ضمن میں ماہرین کی آراء میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، اگر قانون کے مطابق آف شور کمپنی ڈکلیئر کی گئی ہو اور وہ کمپنی کسی غیرقانونی کام کے لئے استعمال نہ ہو تو آف شور کمپنی بنانا بذات خود کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے
کئی بار قانون میں کمزوریاں لوگوں کو بغیر کسی خلاف ورزی کے ٹیکس بچانے کے راستے فراہم کرتی ہیں اور وہ ایسے مقامات پر اپنا پیسہ رکھتے ہیں اور کمپنیاں بناتے ہیں جہاں ٹیکسوں پر چھوٹ ہے۔ غیر قانونی نہیں لیکن اس عمل کو غیر اخلاقی ضرور سمجھا جاتا ہے
برطانوی حکومت کے مطابق اس طرح ٹیکس بچانا قانون کے دائرے میں تو ہے لیکن قانون کی روح کے مطابق نہیں
ماہرین کہتے ہیں کہ کئی لوگوں کے پاس ایسی جگہوں پر اپنی دولت رکھنے کی جائز وجوہات بھی ہوتی ہیں جن میں غیر مستحکم سیاسی حالات اور مجرمانہ حملوں سے اپنے آپ کو بچانا
جبکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خفیہ کمپنیوں میں پیسہ رکھنا اور اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا غیر قانونی دولت چھپانے کا بھی بہترین طریقہ ہے۔
حکومتوں سے ٹیکس میں چھوٹ اور دولت چھپانے کے راستے بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاناما پیپرز کے اسکینڈل کے بعد اس مطالبے نے زور پکڑا ہے.