واشنگٹن : فیسبک کی سابقہ ملازمہ فرانسس ہاؤگن نےکہا ہے کہ فیسبک معاشرے میں نفرت پھیلانے اور بچوں کی ذہنی صحت خراب کرنے کاذمہ دار ہے. جبکہ انسٹاگرام نے لڑکیوں کو جسمانی خد و خال سے متعلق تناؤ کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے. ادارے نے تحفظ کے بجائے مالی فوائد کو ترجیح دی
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق فرانسس ہاؤگن فیسبک میں اہم عہدے پر رہنے والی ایک سابقہ ملازمہ ہیں، ان کا تعلق اس ادارے کے شعبے سِوک انٹیگریٹی یونٹ (civic integrity unit) سے تھا، وہ اس شعبے میں بطور ڈیٹا سائنٹسٹ کام انجام دیتی تھیں
فرانسس ہاؤگن نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ تمام دستاویزات کی روشنی میں مرتب کی جانے والی ریسرچ سے معلوم ہوا، کہ فیسبک انتظامیہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کے معاشرتی نقصانات سے بخوبی آگہی رکھنے کے باوجود مالی فوائد کو ترجیح و فوقیت دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے
سماجی رابطے کے نیٹ ورک فی بک کی سابقہ ڈیٹا سائنٹسٹ فرانسس ہاؤگن کا انٹرویو ایک ٹی وی پروگرام ’’60 منٹس‘ میں نشر کیا گیا۔ قبل ازیں اس تناظر میں ان کے مضامین مشہور امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں
ہاؤگن کے انٹرویو میں شامل انکشافات کو سماجی اور صحافتی حلقوں نے دھماکا خیز قرار دیا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ انٹرویو نے فیسبک کے بارے میں حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور وہ ایک ʼوسل بلور‘ ہیں۔ انہوں نے فیسبک کو کئی دوسری سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز سے ʼبدتر‘ قرار دیا
فرانسس ہاؤگن نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ان کا سابقہ ادارہ اس تحقیق سے آگاہ ہے کہ ان کے ذیلی ادارے انسٹاگرام کے مواد نے نو عمر ٹین ایجر لڑکیوں کو ان کے جسمانی خد و خال کے حوالے سے شدید ذہنی و جسمانی نقصان پہنچایا ہے
ہاؤگن کے مطابق انسٹاگرام کے پلیٹ فارم سے دوہرا معاشرتی معیار قائم کیا گیا اور ان میں ایک مشہور شخصیات کے حوالے سے اور دوسرا عام لوگوں کے لیے ہے
ان کا کہنا ہے کہ فیسبک نے اس پلیٹ فارم کا غلط استعمال کر کے بڑے معاشرتی نقصان کا ارتکاب کیا
ہاؤگن نے اپنے انٹرویو میں فیسبک کا دیگر سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز سے تقابل کرتے ہوئے اپنے سابقہ ادارے کو کم سطح کا قرار دیا
ہاؤگن کا تعلق امریکی ریاست آئیوا سے ہے، ان کا یہ بیان اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ وہ دو برس تک (جون سن 2019ع سے جون 2020ع تک) فیسبک سے منسلک رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے انکشافات کو سماجی اور صحافتی حلقے دھماکا خیز قرار دے رہے ہیں.