ان دنوں مختلف عوامی مسائل سے نبردآزما ملیر کے عوام کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے۔ وہ ہے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر اور اس کی زد میں آنے والے دیہات اور ان کی زرعی زمینوں کی تباہی۔
کراچی سندھ کا دارالخلافہ اور پاکستان کا کمرشل حب ہے اور ملیر اس کی حقیقی روح اور اس کی تاریخی حیثیت کا سمبل.. شاہ کی رومانوی داستانوں کے حسین مرکز ملیر کی سرزمین باغات پھلوں، سبزیوں اور زرعی فصلوں کے حوالوں اور اپنے پُرفضا ماحول اور آبی ذرائع کی وجہ سے مشہور تھی۔ کراچی کو جدید شہر بناتے ہوئے کراچی پر مسلط مافیاؤں اور حکومتوں، اس کے ماتحت کام کرنے والے اداروں اور کنٹونمنٹ نے ملیر اور اس کے قدرتی حسن سے مالامال دلفریب مناظر اور نظاروں کو نگل لیا۔
اس سارے جرم میں باہر سے آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ ملیر کے اپنے قدیم باسیوں ، سیاسی ، سماجی، کاروباری شخصیات نے بھی کسی قسم کی کمی روا نہیں رکھی ۔ ماں کی کوکھ میں پلنے والوں اور اس کی چھاتی سے دودھ پینے والے ملیر کے اپنے ہی بچوں نے خونخوار بھیڑیوں کا روپ دھار کر اس کی بوٹی بوٹی کر ڈالی۔
ملیر کی قدرتی آبی گزرگاہیں جو کھیر تھر نیشنل پارک سے جب گڈاپ، موئیدان، کاٹھور، درسانوچھنو، میمن گوٹھ سے گزر کر خوبصورت ندی نالوں کا روپ اختیار کرتے ہوئے خشک زمینوں کو اپنے ہونٹوں سے چوم کر ایک محبوبہ کی مانند سکھن تو کبھی تھدو نالہ بناتے ہوئے کھارے سمندر کو بھی میٹھے پانی کا تحفہ پہنچاتی تھیں۔ یوں ملیر کی یہ خوبصورت ندیاں ایک طرف جمعہ حمایتی گوٹھ سے ابراہیم حیدری سے بحیرہ عرب تو دوسری جانب ملیر پل سے اور ناتھا خان اور موریہ خان سے آبی گزرگاہ میں صاف ماحول اور ان سے پیوستہ زندگیوں کو وسعت دیتے قدرتی آبی ماحول تمر کے جنگلات اور آبی چرند و پرند دیگر جانوروں کی افزائشِ نسل میں بہترین معاون ثابت ہوتی تھیں۔
کراچی کنکریٹ کا جنگل بنتے بنتے ملیر کی اور اس کے باشندوں کی معصومیت برباد کرگیا ۔ ایک طے شدہ انجینئرڈ منصوبے کے تحت ملیر کے باشندوں کو اکسایا گیا کہ وہ ندی سے ریت نکالیں۔ پھر اس کے بعد نہ کنوئیں رہے، نہ ندی، نہ نالے اور نہ زمین اور نہ زراعت اور نہ کاشتکاری.. لہلہاتے کھیتوں نے ویرانوں کا روپ دھار لیا۔
ملیر کے کچھ زر پرست لوگوں اور ان کی اولادوں کو اس پر بھی کہاں چین ملتا، دولت کی ہوس میں مبتلا ان نافرمانوں نے اپنی ماں ملیر کے لباس کو تار تار کرنے کے بعد اس کی پہلے خود عصمت دری کی، پھر اس کے بعد اس کی دلالی کی، یوں ملیر اس شعر کی مانند ہوگیا:
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح،
پھرتیہے ہر نگاہ خریدار کی طرح!
ہوس بڑھتی گئی، ملیر لٹتا رہا، کوڑیوں کے مول اپنی ماں کو بیچنے میں لگے رہے ، معاشرے میں زمین کی خرید وفروخت نے طاعون کی شکل اختیار کرلی، راتوں رات سیٹھ، امیر بننے کے چکر میں نہ قبرستان محفوظ رہے نہ شمشان، ندی نالے گلیاں، گوٹھ ، اسکول، سڑک سب بکنے لگے۔ کچھ جو بچ گیا ہے اب اس کی باری بھی آگئی۔ زرعی زمینوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور کمرشلز پلازا کا لباس زیب تن کیا۔
اب انڈسٹری نے بھی اپنی حدود کو کراس کیا اور مقامی دلالوں کو ساتھ ملا کر ہوا میں زہر ، پانی میں زہر اور زندگیوں میں زہر گھولنا شروع کردیا۔ صاف شفاف جھرنوں کی مانند بہتی ہوئی ندی خون تھوکنے لگی، جس کے چھینٹے ان دلالوں کے چہروں پر صاف نظر آتے ہیں۔
▪️ملیر ایکسپریس وے آخر ہے کیا ؟
پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ سندھ حکومت اس وقت حکمرانی کے مزے بٹورنے میں مصروف ہے. یہ عمل تقریباً تیرہ سالوں سے جاری ہے۔ اس وقت اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ نمائندے ملیر سے منتخب ہوئے ہیں: جناب محمود عالم جاموٹ صاحب، عبدالرزاق بلوچ صاحب، جناب محمد ساجد جوکھیو صاحب (صوبائی وزیر سماجی بہبود) جناب محمد سلیم کلمتی بلوچ صاحب، جناب محمد یوسف بلوچ صاحب اور خواتین کی مخصوص نشست پر محترمہ شاہینہ شیر علی بلوچ صاحبہ.
اس طرح قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندے جناب جام عبدالکریم بجار صاحب، جناب آغا رفیع اللّٰہ صاحب اور ایک نشست پر جمیل احمد خان صاحب جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بلدیاتی ادوار میں ضلع کونسل کراچی پر جناب سلمان عبداللہ مراد صاحب کی حکمرانی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ملیر پر جان محمد بلوچ صاحب نے چار سال راج کیا. دونوں کا تعلق بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ اس دورانیہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، وزیر اعلیٰ، وزراء اور مشیران نے بیشتر بلکہ متعدد بار ملیر کا دورہ کیا اور آتے جاتے اور پرواز کرتے رہے۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی کے ان ادوار میں ملیر کے نوجوانوں اور باشندوں کے مسائل حل ہوئے۔ یا مسئلہ جوں کا توں ہے ؟
کیا کراچی سرکلر ریلوے ملیر کو فائدہ دے گا یا کوئی ماس ٹرانسپورٹ لائن بن گئی، خواہ وہ اورنج ہو یا بلیو ریڈ ہو یا یلوو؟
10 دسمبر 2020 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میں فارغ التحصیل ہیں، انہوں نے اس پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبہ ملیر ایکسپریس وے کا قیوم آباد اور کے پی ٹی انٹرچینج پل سے ملحقہ جام صادق علی پل سے افتتاح کیا۔
39.0 کلومیٹر طویل اس ایکپریس وے کی کل تعمیر کا تخمینہ لاگت RS. 27 بلین رکھا گیا ہے۔
تھر کول کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ دوسرا میگا پراجیکٹ ہوگا ۔ ملیر ندی کے بائیں طرف کی کاز وے پر اس ایکسپریس وے میں تین اوور ہیڈ برج، آٹھ انڈر پاسز جام صادق پل سے چار لائنوں اور مزید چھ لائنوں پر مشتمل ہوگی ۔ تین فٹ کے کیرج وے ہونگے۔ گاڑیوں کی رفتار چھ لائنوں پر 100 کلومیٹر فی گھنٹے ہوگی ۔
جام صادق علی پل سے شاہ فیصل کالونی فیوچر موڑ ، قائد آباد کاٹھور سے پیدل چلنے والوں کے لیے 9 گزرگاہ تعمیر ہونگی۔ ڈپٹی کمشنر ملیر کے مطابق اس منصوبے سے 500 پختہ مکانات کو ہٹایا جائے گا اور چالیس ایکٹر زرعی زمین متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ 2023 یا 2025 تک اس منصوبے کو مکمل کیا جائے گا۔
حکومت کے نزدیک اس ایکسپریس وے سے کراچی کے بڑھتے ہوئے ٹریفک کے مسائل پر کافی حد تک قابو کیا جائے گا، تاکہ شہر میں موجودہ ٹریفک کے نظام میں بہتری لائی جاسکے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میگا پراجیکٹ سے ملیر کے عوام کس حد تک مستفید ہونگے۔ اور عوامی نمائندے کس حد تک ان کے شکوک وشبہات اور عوام کے درمیان پائی جانے والی بے چینی کو ختم کر سکیں گے۔ اب گیند مکمل طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی کورٹ میں ہے ۔ ARY DHA LOGUNA اور DHA phase 09 اور بحریہ ٹاؤن تو یقینی طور پر مستفید ہونگے ۔ موٹر وے ایم نائن تک پہچنے کا مختصر محفوظ اور تیز ترین راستہ ہوگا۔
اب ملیر میں زمین پر ایک نئی کہانی مرتب ہوگئی۔
کس کی فیکٹری، کس کے رہائشی پراجیکٹ بچائے جائیں گے، کس کا ندی پر قبضہ مضبوط اور کن کو بیدخل کیا جائے گا۔ ملیر ایکسپریس وے کس کی سونے کی چڑیا اور کس کی لاٹری نکالے گی ۔
کس سیاسی جماعت کا نعرہ کس کی انتخابی سیڑھی بنے گا، کون خون تھوکے گا اور کون تھوک چاٹے گا۔
کون سیاسی گھر بدلے گا اور کون نیا سیاسی گھر بسائے گا۔
اس کا فیصلہ وقت کرے گا مگر ایکسپریس وے ضرور بنے گا۔
مقام یا پوزیشن بدلتی ہے یا عوام کی سوچ۔
فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔