کلمت کے علاقے چنڈی میں مقیم مچھلیوں کے کاروبار سے وابستہ قرار کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک وسیع رقبے پر تمر کے درخت موجود ہیں، جنہیں باڑ لگا کر محفوظ بنایا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے تمر کے بارے میں آگاہی پیدا ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں تمر کے جنگلات کا رقبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
قرار نے بتایا کہ آج سے اکتالیس برس قبل ہم نے یہاں تمر کی شجرکاری شروع کی تھی اور آج کلمت کی زیادہ تر ساحلی پٹی پر تمر کے سرسبز جنگلات نظر آتے ہیں۔ چونکہ اس ساحلی پٹی پر مقیم لوگوں کا ذریعہ معاش سمندر سے منسلک ہے اور تمر کے جنگلات سمندر کے ماحولیاتی نظام کے لیے مفید ہیں، اس لیے یہاں لوگوں نے اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے تمر کے پودے لگائے۔
مکران کے ساحلی علاقے قدرتی، معدنی اور ساحلی وسائل سے مالا مال ہیں۔ ملک کے اس خطے میں انواع و اقسام کی سمندری حیات پائی جاتی ہے۔
مکران کے ساحلی علاقے موسمیاتی تبدیلیوں سمیت سونامی اور سمندری طوفان کے خطرات کی زد میں رہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق تمر کے جنگلات نہ صرف طوفان کے دباؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں بلکہ سمندری پیداوار خاص کر جھینگے کی افزائشِ نسل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تمر کے جنگلات کی اہمیت
تمر کے جنگل جہاں اپنی جڑوں میں مچھلی، جھینگوں سمیت کئی اقسام کی نرسریوں کو پنپنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، وہیں بحرِ ہند سے آنے والی سونامی لہروں کے لیے بھی ایک دیوار کا کام کرتے ہیں۔ جھینگوں اور مچھلیوں کے انڈوں سے نکلنے والے جانداروں کو یہی تمر کی جڑیں آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔
تمر کی جڑیں سمندر اور ساحل کے درمیان زیرِ آب ایک مضبوط جالی کی دیوار کھڑی کر دیتی ہیں اور یہ سمندر کو ساحل اور ساحل کو سمندر کی جانب آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل سے میرین سائنس کے فارغ التحصل طالب علم عادل اقبال کا کہنا ہے کہ ‘تمر کے جنگلات متعدد جانداروں کی آماجگاہ ہیں۔ ان جنگلات کا ماحولیاتی نظام ان کی غذائی اور افزائشی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتا ہے’۔
بلوچستان میں تمر کے جنگلات کہاں پائے جاتے ہیں؟
بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی، کلمت ہور، جیوانی ہور، شابی ہور، گوادر اور پسنی ہور میں وسیع رقبے پر محیط تمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر (میرین فشریز) محمد معظم خان کے مطابق ‘بلوچستان کے ساحل پر تمر کے جنگلات محدود مقامات پر پائے جاتے ہیں البتہ بلوچستان میں تمر کے درختوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے’۔
ان کے مطابق ‘میانی ہور، لسبیلہ کلمت ہور اور دریائے دشت کے سامنے تمر کے قدرتی جنگلات موجود ہیں، جبکہ میانی ہور میں تمر کی 3 اہم اقسام (Avvecina marine, Rhizophora macronata, Ceriops tagal) پائی جاتی ہیں’۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقوں سونمیانی ہور، کلمت ہور اور گوادر میں تمر کے جنگلات 4 ہزار 58 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ قدرتی جنگلات ہیں اور کچھ جنگلات مختلف اداروں نے اگائے ہیں۔
بلوچستان میں تمر کے جنگلات 4058.36 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں، جن میں میانی ہور میں 3431.36 ہیکٹر یعنی 84 فیصد، کلمت ہور میں 194 ہیکٹر 5.1 فیصد جبکہ گوادر میں 433 ہیکٹر یعنی 10.9فیصد جنگلات موجود ہیں۔
ڈپٹی کنزرویٹر جنگلات و جنگلی حیات گوادر یار محمد دشتی نے بتایا کہ ’21ء-2020ء میں محکمہ جنگلات کی جانب سے شابی ہور پشکان اور پسنی ہور میں ایک لاکھ 83 ہزار تمر کے پودے لگائے گئے، جبکہ 3 لاکھ کے قریب بیج بھی بوئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ پسنی میں ایک لاکھ 50 ہزار پودے کی ایک نرسری بھی قائم کی گئی’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’22ء-2021ء میں ضلع گوادر کے مختلف ساحلی علاقوں کلمت، شابی پشکان اور پسنی ہور میں 10 لاکھ تمر کے درخت لگانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے اور محکمہ جنگلات ضلع گوادر کے ان علاقوں میں تمر کی شجرکاری کررہی ہے جو قدرتی طور پر تمر کے جنگلات کے لیے پائیدار تصور کیے جاتے ہیں’۔
محکمہ جنگلات مقامی کمیونٹی کے تعاون سے تمر کے جنگلات کی دیکھ بھال اور نگہبانی کررہا ہے اور گوادر کے ساحلی علاقوں میں تمر کے درخت تیزی سے نشوونما پارہے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نے 2006ء میں بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں ایک منصوبے کے تحت تمر کے ہزاروں پودے لگائے تھے اور اس وقت محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کی مناسب دیکھ بھال اور نگہبانی کی وجہ سے اس علاقے کے وسیع رقبے پر تمر کے جنگلات پھیلے نظر آتے ہیں۔ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات گوادر نے بھی یہاں ایک لاکھ 50 ہزار پودوں کی ایک نرسری قائم کی ہے جس کی دیکھ بھال اور نگہبانی کا ذمہ بھی محکمے نے اپنے سر اٹھایا ہوا ہے۔
کلمت میں تمر کے جنگلات کا احوال
پسنی سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یونین کونسل کلمت متعدد دیہات پر مشتمل ایک ساحلی علاقہ ہے جہاں وسیع رقبے پر محیط تمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ یہ علاقہ جھینگے اور سمندری پیداوار کے لیے کافی مشہور بھی ہے۔ کلمت کے رہائشی علی ارمان کے مطابق ‘تمر کے درخت مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اگائے ہیں اور ان کا تحفظ بھی وہ خود کررہے ہیں’۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ‘مقامی لوگوں نے تمر کے جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک باڑ میں بند کرلیا ہے تاکہ تمر کے پودوں کو اونٹوں کا چارہ بننے سے روکا جاسکے’۔
کلمت میں مقیم نصیر لعل میرین سائنس کے طالب علم ہیں، ان کے مطابق ‘تمر کے جنگلات کے لیے یہ علاقہ دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ذرخیز ہے۔ علاقے کے لوگ اپنے فشریز وسائل کا تحفظ خود کرتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت مختلف ادارے کلمت اور گرد و نواح میں تمر کے درخت لگارہے ہیں مگر ماضی میں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شجرکاری کرتے تھے’۔
چنڈی میں بھی تمر کے جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک وسیع باڑ لگائی گئی ہے۔ کلمت میں تمر کے جنگلات بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں کی نسبت زیادہ پائیدار اور گھنے ہیں۔ یہاں کا قدرتی ماحول تمر کے لیے خاصا موزوں ہونے کی وجہ سے ان کی نشوونما بہتر ہورہی ہے۔
تمر کی شجرکاری اور تحفظ
تمر کے جنگلات ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں بارشوں یا دریا کا میٹھا پانی سمندر کے نمکین پانی سے ملتا ہے۔ یوں جہاں دریا سمندر میں گرتا ہے یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے ‘ڈیلٹا’ پکارا جاتا ہے جبکہ مقامی لوگ اسے ‘ہور’ کہتے ہیں۔ حیاتیات کے ماہرین ان علاقوں کو تمر کے لیے اہم تصور کرتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف میرین سائنسز کے معاون پروفیسر شعیب کیانی کا کہنا ہے کہ ‘تمر کی شجرکاری فطرت کے عین مطابق کرنا ہوگی کیونکہ فطری تقاضوں کے برخلاف تمر کے پودے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘دریاؤں کے کنارے یا ہنگول نیشنل پارک میں تمر کی شجرکاری فطرت کے خلاف ہے کیونکہ پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے پوری پلانٹیشن کے پانی میں بہہ جانے کا خطرہ ہوسکتا ہے’۔
شعیب کیانی مزید بتاتے ہیں کہ ‘کلمت اور میانی ہور کے کچھ ساحلی علاقوں میں تمر کے جنگلات قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں اور انہی علاقوں میں تمر کے نئے پودے لگا کر درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے’۔
ان کے مطابق ‘مینگرووز کے ایک ہیکٹر میں سیکڑوں ڈالر کے سمندری وسائل پیدا ہوتے ہیں’۔
تمر کے درخت قدرتی آفات اور ساحلی کٹاؤ سے بچاؤ کے لیے کتنے اہم ہیں؟
شعیب کیانی بتاتے ہیں کہ ‘قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے تمر کے جنگلات قدرتی محافظ کا کام کرتے ہیں۔ ساحلوں پر آنے والی تیز لہروں اور موسمیاتی نظام کی وجہ سے بننے والے طوفانوں کو روکنے میں یہ جنگلات معاون ثابت ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنررویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘2009ء میں پسنی میں ریت اور سونامی سے بچاؤ کے لیے 3 ہزار پودے اگائے۔ 13ء-2012ء میں آئی یو سی این نے شابی پشکان میں بھی تمر کے درخت لگائے’۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر حیاتیات اور گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ ‘آئی یو سی این کے پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد جی ڈی اے شابی میں تمر کے جنگلات کی دیکھ بھال اور نگہبانی کررہا ہے’۔
تمر کے جنگلات کو بچانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟
ماہرین کا کہنا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مکران کے ساحلی علاقے سمندری کٹاؤ کی زد میں ہیں اس لیے ان علاقوں میں تمر کے زیادہ سے زیادہ جنگلات اگانے کی ضرورت ہے۔ شعیب کیانی کے مطابق ‘تمر کے جنگلات کی کٹائی بند کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو اس حوالے سے ایندھن کے متبادل ذرائع فراہم کیے جائیں’۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے بعض مقامی لوگ تمر کے درخت کی لکڑی بطور ایندھن اور کچے مکانات بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ ‘چونکہ مقامی ماہی گیروں کا روزگار ساحل سمندر سے منسلک ہے اس لیے وہ فشریز وسائل کا تحفظ چاہتے ہیں۔ تمر کے جنگلات چونکہ سمندری پیداوار اور قدرتی آفات کو روکنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں لہٰذا ماہی گیر جنگلات کی کٹائی سمیت کسی ایسے عمل میں حصہ نہیں لیتے جس سے فشریز وسائل کو نقصان پہنچے’۔
یار محمد دشتی کے مطابق گوادر کے ساحلی علاقوں میں تمر کے درختوں کی دیکھ بھال اور نگہبانی کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے’۔
مقامی لوگوں نے اس حوالے سے کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے تمر کے مزید درخت لگانے پر زور دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ تمر کے جنگلات سے فشریز وسائل اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔